حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ یہ سطور بدھ کی سپہر رقم کی جارہی ہیں۔ اس وقت تک کی سیاسی صورتحال کسی بھونچال سے کم نہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا استعفیٰ ابھی تک گورنر پنجاب کے دفتر کو باقاعدہ موصول نہیں ہوا۔ استعفیٰ منظور کرنے کا قانونی مقام گورنر کا دفتر ہی ہے۔ بدھ کو لگ بھگ گیارہ بجے کے قریب سپیکر پنجاب اسمبلی اور وزارت اعلیٰ کے لئے نامزد چودھری پرویزالٰہی نے وزیراعظم سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا اور عثمان بزدار کے استعفیٰ کی منظوری کا نوٹیفکیشن جاری نہ ہونے پر اپنی تشویش و تحفظات سے انہیں آگاہ کیا۔
پچھلی شب وزیراعظم کے حوالے سے یہ خبر آچکی تھی انہوں نے عثمان بزدار کے استعفیٰ کی منظوری کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر کہا ’’پہلے تحریک عدم اعتماد سے نمٹ لیں پھر دیکھتے ہیں‘‘۔ یقیناً یہ خبر چودھری صاحب تک بھی پہنچی ہوگی۔ اور کچھ سوچ سمجھ کر ہی انہوں نے وزیراعظم کو ٹیلیفون کیا ہوگا۔
حکومت کی اتحادی جماعت بی اے پی کے بعد ایم کیو ایم کا بھی متحدہ اپوزیشن سے معاہدہ طے پاگیا ہے کچھ دیر میں اس کا باقاعدہ اعلان ہوجائے گا فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے دونوں وفاقی وزراء فروغ نسیم اور امین الحق مستعفی ہوچکے ہیں۔ ایم کیو ایم کے کنوینئر خالد مقبول صدیقی کو وزیراعظم نے بدھ کی دوپہر کابینہ کے خصوصی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی۔ اس اجلاس میں ’’مبینہ دھمکی آمیز خط‘‘ کابینہ کے ارکان کو دیکھایا گیا۔ خالد مقبول صدیقی نے وزیراعظم کی دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا۔
ایم کیو ایم متحدہ اپوزیشن معاہدہ درحقیقت ایم کیو ایم پیپلزپارٹی معاہدہ ہے متحدہ اپوزیشن اس معاہدہ کی "ضامن” ہے۔ 27 نکات پر مشتمل معاہدے کا اہم نکتہ سندھ سے جاری ہونے والے جعلی ڈومیسائل کی منسوخی ہے۔ منسوخی کئے جانے والے ڈومیسائل کی مدت اگر 10سال کا دورانیہ بھی ہوا تو صوبائی ملازمتوں میں اڑھائی سے تین لاکھ افراد کو روزگار سے محروم ہونا پڑے گا۔
ان افراد کا تعلق دوسرے صوبوں سے ہے مگر انہوں نے سندھ کا ڈومیسائل بنواکر مقامی لوگوں کا حق مارا۔ سب سے زیادہ ڈومیسائل کراچی ڈویژن سے جاری ہوئے۔ دونوں جماعتیں اگر ڈومیسائل منسوخ کرنے کے عمل میں انہیں جاری کرنے والے اہلکاروں کے خلاف بھی محکمانہ کارروائی کریں تو مزید بہتر نتائج مل سکتے ہیں۔
کہا جارہا ہے کہ جعلی ڈومیسائل منسوخ ہوئے تو فوری طور پر وفاقی محکموں میں موجود تین ہزار کے قریب افراد نوکری سے محروم ہوجائیں گے ان میں مقابلہ کے امتحان میں جعلی ڈومیسائل کی بنیاد پر شرکت کرنے اور کامیابی حاصل کرنے والے بھی شامل ہیں۔
ادھر وزیراعظم اس بات پر مصر ہیں کہ انہیں خط کے ذریعے دھمکی ملی ہے اور یہ کہ ان کی حکومت کے خلاف عالمی سازش ہور ہی ہے۔ پاکستانی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ایسے کسی خط کے وجود سے لاعلمی ظاہر کررہی ہے جس میں وزیراعظم کو دھمکی دی گئی ہو۔ ایک اطلاع البتہ یہ ہے کہ یہ خط کسی سابق سفارتکار کا تجزیہ جسے سفیر نے لکھا ہے اور اس میں وزیراعظم کو بتایا گیا ہے کہ اپوزیشن بیرونی قوتوں کے ایما پر ان کے خلاف سرگرم عمل ہے۔
یہ اطلاع اور اطلاع دہندہ کون ہے جب تک حقیقت سامنے نہ ہو اس اطلاع کی ساکھ پر سوال اٹھے گا۔ خط کے حوالے سے دو دن اُدھر بھی ان سطورمیں عرض کرچکا ، مکرر اپنی بات دہراتے ہوئے یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ دھمکی آمیز خط اور سازش دونوں باتیں کہانی کے سوا کچھ نہیں۔
ہمارے ہاں چونکہ سیاسی لیڈر بھی مذہبی رہنمائوں جیسا تقدس اوڑھ لیتے ہیں سو ان کے پیروکار یہی سمجھتے ہیں کہ ایک عالم ان کے قائد سے خوفزدہ ہے۔
یہ کہنا کہ وزیراعظم نے دبنگ انداز میں ان جذبات کو زبان دی جو خارجہ پالیسی افغان امور، غیر ریاستی جنگجوئوں کے حوالے سے عوام میں پائے جاتے تھے تو اس ضمن میں دو باتیں بہرصورت مدنظر رکھنا ہوں گی
پہلی یہ کہ 2014ء میں جب کالعدم تحریک طالبان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لئے اپنی کمیٹی کا اعلان کیا تھا تو جناب عمران خان اس کمیٹی کے رکن تھے۔ ثانیاً یہ کہ وہ وزیراعظم بننے کے بعد سے اب تک ہمیشہ کالعدم ٹی ٹی پی کو قومی دھارے میں لانے کے لئے پرجوش رہے۔
افغانستان سے امریکہ نیٹو انخلا کے بعد انہوں نے پارلیمنٹ اور قومی سلامتی کمیٹی دونوں کو اعتماد میں لئے بغیر افغان عبوری حکومت کے توسط سے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرتے ہوئے اس کے 135یا 150 افراد کی رہائی کا وعدہ بھی کرلیا ان میں سے چند افراد خیبر پختونخوا کی حکومت نے رہا بھی کئے۔
مذاکرات کے دوران ہی کالعدم ٹی ٹی پی نے افغان عبوری حکومت کے ذمہ داروں کی مدد سے پاک افغان سرحد پر چند قابل مذمت کارروائیاں بھی کیں اس پر سوال اٹھا کہ حکومت نے پارلیمان اور قومی سلامتی کمیٹی کو اعتماد میں لئے بغیر مذاکرات کیسے شروع کردیئے۔
اس مرحلہ پر جو چند معلومات سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو حاصل ہوئیں وہ اصل میں وزیراعظم اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلافات کا ابتدائیہ بنیں ، منتخب وزیراعظم کے طور پر انہیں قومی سلامتی کمیٹی اور پارلیمان کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا مگر انہوں نے نہ تو کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے آغاز پر اعتماد میں لیا اور نہ ہی مذاکرات ختم ہونے پر(ٹی ٹی پی کا دعویٰ ہے کہ مذاکرات اس نے ختم کئے کیونکہ حکومت کے مذاکرات سے قبل ہمارے افراد کی رہائی کا وعدہ پورا نہیں کیا تھا) تفصیلات کے حوالے سے کسی کو اعتماد میں لیا۔
سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مسلم خان وغیرہ کی رہائی کے وعدہ پر سوال ہوا تو وزیراعظم کے ایک منہ چڑھے وزیر نے سوال کرنے والے سے کہا ’’پہلے ہمیں جواب دو احسان اللہ احسان کیسے فرار ہوا یا اسے فرار کروایا گیا؟‘‘ اس پر وہ اجلاس تلخی سے بھرے ماحول میں ختم ہوگیا۔
اس وقت پوزیشن یہ ہے کہ وزیراعظم دعویٰ کررہے ہیں کہ انہیں بھٹو کی طرح قتل کرنے کی دھمکی دی گئی ہے اور ان کے مخالفین بیرونی مالی امداد سے ان کے خلاف تحریک چلارہے ہیں عین ممکن ہے ان کے موقف کو سنجیدگی سے لیا جاتا مگر غیرسنجیدگی یا جھوٹ کاتاثر اس لئے بنا کہ رواں ماہ کے دوران ہی ان کی کابینہ کی ایک رکن محترمہ شیریں مزاری نے سوشل میڈیا کے اپنے اکائونٹ پر دو دستاویزات شیئر کرتے ہوئے کچھ دعوے کئے مگر دونوں بار سوشل میڈیا صارفین نے انہیں آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے یاد کروایاکہ ان میں سے ایک دستاویز کو تو وہ خود ماضی میں جعلی قرار دیتی رہی ہیں۔
شیریں مزاری نے شیئر کردہ دستاویزات اپنی وال سے ڈیلیٹ کرکے چپ سادھ لی۔
اگلا ڈرامہ داعش کے ایک فکری ہم خیال اور دوسرے عزیز داری رکھنے والے اینکرز ایک دستاویز سامنے لائے اور دعویٰ کیا کہ یہ ثبوت ہے اپوزیشن کو ملی بیرونی امداد کا۔ یہ دونوں مجاہدین بعدازاں اپنے دعوے کے ثبوتوں کو ڈیلیٹ کرگئے کیونکہ ان پر واضح کیا گیاکہ مذکورہ ثبوت ایڈٹ شدہ ہے اصل تحریر کچھ اور ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سیاسی میدان کے اتارچڑھائو یا یوں کہہ لیجئے کہ ٹوٹتے بنتے سیاسی منظرنامے میں بھرے جانے والے رنگ اصلی کتنے ہیں اور جعلی کتنے؟
بات واضح اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب ان دونوں معاملات، دھمکی اور سازش ہے کے ساتھ ساتھ شیریں مزاری اور دو اینکروں کے دعوئوں کی آزادانہ تحقیقات ہوں۔
بہرطور وزیراعظم بضد ہیں کہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی ہے لیکن دوسری طرف یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کے لئے دھمکی اور سازش کے دعوے کرکے مظلوم بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ سچ کیا ہے اللہ ہی جانے۔ بندے تو دستیاب معلومات پر ہی بات آگے بڑھاتے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر