حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلیئے ہم اور آپ یہ مان لیتے ہیں کہ او آئی سی وزرائے خارجہ کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا بجا تھا کہ
"اسلامی ممالک کو عالمی سیاست کے کسی بلاک میں شرکت اور تنازعات میں الجھنے کی بجائے قیام امن میں شراکت دار بننا چاہیے اور اسلامی کانفرنس کی تنظیم کو ایک متحدہ فرنٹ بنانا ہوگا تاکہ مسلمانوں کے ساتھ دیگر کمزور ممالک اور اقوام کے حقوق کی حفاظت کی جاسکے”۔
وزیراعظم کا یہ سوال بھی درست تھا کہ "ہمیں (مسلمانوں کو) سوچنا ہوگا کہ دنیا ہمیں سنجیدہ کیوں نہیں لیتی”۔ ان کا یہ کہنا بھی سر آنکھوں پر کہ "اسلامی اقدار کو جس قدر خطرات اس وقت ہیں ماضی میں نہیں تھے ان کے تحفظ کے لئے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے "۔
وزیراعظم نے مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کی تبدیلی کو جنگی جرائم کے مترادف قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ فلسطین اور کشمیر کے معاملے میں ہم (مسلم امہ) ناکام رہے۔ او آئی سی نے مقبوضہ علاقوں کے مسلمانوں کو مایوس کیا۔
کچھ عرض کرنے سے قبل ہم اس سوال پر بات کرتے ہیں کہ "دنیا ہمیں (مسلم ممالک) کو سنجیدہ کیوں نہیں لیتی؟”
اس پر جواباً دستیاب مسلم دنیا کے خاص و عام کی توجہ اس امر کی جانب دلانا ضروری ہے کہ غیرترقیاتی مدوں میں سرمائے کے استعمال، تحقیق و تخلیق کے ادارے بنانے کی بجائے بلندوبالا عمارتیں بنانے اور جغرافیائی چودہراہٹوں کے ساتھ فرقہ وارانہ بالادستی کے لئے آپس میں الجھے رہنے والوں پر دنیا کیوں توجہ دے گی؟۔
ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی سیاسی قیادتیں ارتقا کے بنیادی اصولوں سے ہی ناواقف ہیں یا پھر ان کے خیال میں ارتقا شخصی آزادی، انسانی حقوق، علم و تحقیق اور عوام کے حق حکمرانی کے چراغ روشن کرتا ہے۔
یہ چراغ روشن ہوئے تو بالادست طبقات کی ساجھے داریوں پر قائم نظام بکھر کر رہ جائیں گے ،
فلسطین و کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود جس ناکامی کا سامنا ہے اس کی وجہ بھی باہمی اختلافات اور مالدار مسلم ممالک کے معاشی مفادات ہیں۔
اس کی ایک تازہ ترین مثال یہ ہے کہ عین اس وقت جب پاکستان کی میزبانی میں او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس منعقد ہورہی تھی بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ایک سرمایہ کاری کانفرنس میں متعدد مالدار عرب مسلم ممالک کے نمائندے شریک تھے۔
ایک طرف ہم کہہ رہے ہیں کہ مسلم دنیا کشمیریوں اور فلسطینیوں کے ساتھ ہے دوسری جانب بھارتی مقبوضہ کشمیر میں سرمایہ کاری کا جائزہ لیا جارہا ہے اور اکثر مسلمان ممالک اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے قیام کیلئے محض پرجوش ہی نہیں بلکہ تعلقات قائم بھی کرہے ہیں
عالمی برادری میں اپنی حیثیت منوانے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے ان میں دو بنیادی اہمیت رکھتی ہیں
اولاً اتحادواتفاق ثانیاً علم و تحقیق، اس کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا کے اہل دانش اور سیاسی و حکومتی قائدین کو یہ اعتراف بھی کرنا چاہیے کہ گزشتہ سرد جنگ کے دوران امریکی کیمپ کے پرجوش اتحادی کے طور پر دنیا میں طاقت کے توازن کو درہم برہم کرنے کے لئے مسلم ممالک کے حکمرانوں نے جو کردار ادا کیا اس کی سزا پوری مسلم دنیا کو بھگتنا پڑ رہی ہے۔
مالدار مسلم ممالک نے اپنے کمزور مگر باصلاحیت برادر مسلمان ممالک میں سرمایہ کاری کی بجائے ان ممالک کو ترجیح دی جن کی مسلم دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
برادر ممالک میں نہ سہی یہی سرمایہ کاری وہ اپنے ملکوں میں زراعت، صنعتی ترقی اور دیگر شعبوں میں کرتے تو اس سے بھی مسلم دنیا کے پسماندہ ممالک وطبقات پر بہتر زندگی کے دروازے کھل سکتے تھے۔
اسلامی کانفرنس کی تنظیم کی عدم فعالیت کی ایک وجہ خود بعض مسلم ممالک کا اپنے وسائل، مذہبی تعصبات کے فروغ کے لئے استعمال کرنا ہے۔
سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کا یہ موقف ریکارڈ پر ہے کہ کس طرح امریکی ریاست اور اداروں (سی آئی اے اور ایف بی آئی) نے بعض مسلمان ممالک کے ساتھ مل کر مسلم دنیا میں فرقہ وارانہ شدت پسندی کے بیج بوئے۔
عدم فعالیت اور بے اعتمادی دونوں کا ایک ہی علاج ہے کہ اسلامی دنیا کی جو حکومتیں فرقہ وارانہ کشیدگی کے بڑھاوے کے لئے وسائل فراہم کریں ان کا بائیکاٹ کیا جائے۔ جوکہ ظاہر ہے ممکن نہیں کیونکہ مالدار مسلم ممالک کے وسائل کی بدولت پسماندہ مسلم دنیا ان کی محتاج ہے۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ 1970ء کی دہائی میں جن مسلم رہنمائوں نے اسلامی دنیا کا الگ بلاک بنانے اور اپنے وسائل سے خود استفادہ کرنے کا راستہ اپنایا ان کے ساتھ عالمی سامراجی طاقتوں نے جو سلوک کیا اس میں خود بعض مسلم کردار بھی شامل تھے۔
مسلم دنیا اگر کرہ ارض میں باوقار انداز میں جینا اور کردار ادا کرنا چاہتی ہے تو پھر ضروری ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے اجتناب برتا جائے۔ وسائل شدت پسندی پر صرف کرنے کی بجائے علم و تحقیق اور اپنے لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لئے صرف کئے جائیں۔
استحصالی ممالک کے ساتھ اسلحہ کی خریداری کے 4سے 8 سو ارب ڈالر کے معاہدے کرنے کی بجائے داخلی ترقی پر توجہ دی جائے۔
یہ داخلی ترقی کتنی ضروری ہے اس کی صرف ایک مثال کافی ہے مسلم دنیا کا عرب حصہ اپنی گندم کی ضروریات پوری کرنے کے لئے یوکرائن، روس اور بھارت کا محتاج ہے۔ 4سے 8 سوارب ڈالر یا اس سے زیادہ رقم کا اسلحہ و گولہ بارود خریدنے اور انبار لگانے کی بجائے اس کا نصف بھی اگر زرعی ترقی پر صرف کیا جاتا تو خوراک کے حوالے سے محتاجی ختم ہوسکتی تھی۔
وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ ” پوری مسلم دنیا کو دہشت گردی قرار دینا درست نہیں۔ چند افراد کے منفی کردار کا ذمہ دار پوری مسلم دنیا کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا”۔
لیکن کیا مسلم دنیا کے اہل دانش اور حکمران اس سوال پر غور کرنے کی زحمت کریں گے کہ انتہا پسندی کے راستے پر گامزن مسلمان گروہوں کو بنیادی وسائل اور سہولت کاری کہاں سے دستیاب ہوتی ہے؟
ہماری دانست میں اس کا جواب مستقبل کے لئے حکمت عملی وضع کرنے اور ہمہ قسم کی انتہا پسندی کی بیخ کنی میں معاون بن سکتا ہے۔
مسلم دنیا کو اپنے نظام ہائے تعلیم (جدید و قدیم دونوں) کے ساتھ محراب و منبر کے حوالے سے بھی انقلابی اقدامات کرنا ہوں گے۔
اہل دانش اور دیگر ذمہ داروں کا فرض ہے کہ وہ عام مسلمان کی اس طرف رہنمائی کریں کہ عبادات حق بندگی کا موقع ادا کرنے کا شکرانہ ہیں حق بندی یہ ہے کہ ہمارے وجود سے انسانیت کو راحت نصیب ہو۔
مسلم دنیا کا اصل المیہ تقسیم در تقسیم کی بنیاد بننے والے تعصبات، ارتقا کو دین بیزاری سمجھنا اور خوابوں کی تجارت ہے۔ آج کی دنیامیں اپنی حیثیت منوانے کے لئے بہت ضروری ہے کہ تعصبات، ارتقا دشمنی اور خوابوں کی تجارت کو پہلے مرحلہ پر دفن کرکے اتحادواتفاق کے ساتھ اگلا قدم اٹھایا جائے۔
ہم مکرر اس امر کی جانب توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ کھرب ہا ڈالر اسلحہ کے انبار لگانے اور علاقائی بالادستی پر پھونکنے کی بجائے یہ کثیر سرمایہ مسلم دنیا کی تعمیروترقی پر صرف کیا جانا چاہیے۔
اتحاد و اخوت کے فروغ اور مقبوضہ علاقوں کے مسلمانوں کے حق خود ارادیت کے لئے ثابت قدمی کے ساتھ دنیا کو اپنے موقف سے آگاہ کیا جائے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عملیت پسندی کے بغیر حاصل وصول کچھ بھی ممکن نہیں۔
حرف آخر یہ ہے کہ مسلم دنیا زندہ حقائق سے آنکھیں بند کرنے اور سازشی تھیوریوں کی مالا جپنا چھوڑ کر اپنے عصر اور مستقبل پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ مرکوز کرے بصورت دیگر
” ہماری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں "۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر