مئی 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

(ن) لیگ پھر زرداری سے ’’ہاتھ‘‘ کرگئی||حیدر جاوید سید

ایک بات طے ہے وہ یہ کہ (ن) لیگ کسی بھی مرحلہ پر پیپلزپارٹی کو سیاسی مرکزیت (فیصلہ کن حیثیت) نہیں دے گی۔ جب بھی ایسا ہوتا دیکھائی دے گا (ن) لیگ کا انقلابی دھڑا وہی حشر کرے گا جو پچھلے برس مارچ میں پی ڈی ایم کا کیا یا پھر اب پرویزالٰہی سے معاملات طے کرکے پیچھے ہٹ کر کیا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عبدالعلیم خان کی گرفتاری کے وقت ان سطور میں عرض کیا تھا "اس گرفتاری کے فیصلے کو 4افراد کی تائید حاصل ہے۔ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان، اس وقت کے مشیر احتساب شہزاد اکبر، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور شہباز گل (یہ چوتھے موصوف ان دنوں وزیراعظم کے معاون خصوصی ہیں) ان 4میں سے ہر شخص کے اپنے اپنے مقاصد اور مفادات تھے”۔
اعظم خان جہانگیر ترین کو ایک اور سبق سکھانا ضروری خیال کرتے تھے۔ شہزاد اکبر نے ان کے دست راست کا کردار ادا کیا۔ عثمان بزدار کا خیال تھا کہ علیم خان ان کی وزارت اعلیٰ کے لئے مستقل اور مضبوط خطرہ ہے۔ شہباز گل کا مسئلہ یہ تھا کہ جب وہ پنجاب حکومت کے ترجمان تھے علیم خان نے حدود سے تجاوز کرنے پر اس کی کئی بار گوشمالی کی یوں کہا جائے کہ پنجاب حکومت کی ترجمانی کے منصب سے اس کی ’’رخصتی‘‘ میں علیم خان کا بنیادی کردار تھا۔
علیم خان 100دن کے لگ بھگ نیب کی تحویل میں رہے پھر رہا ہوئے۔ دوبارہ سینئر وزیر بنائے گئے۔ دوسری بار اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے ضمن میں ان کا ظاہری موقف جو بھی رہا ہو حقیقت یہ ہے کہ عثمان بزدار نے صوبے کی انتظامیہ کو دوٹوک انداز میں کہہ دیا تھا کہ علیم خان کے ہر حکم پر عمل ان کی رضامندی سے مشروط ہوگا۔
اندر کھاتے کھچڑی پکتی رہی۔ ایک دوبار تلخی بھی ہوئی۔ علیم خان میڈیا کی دنیا میں ایک نیوز چینل خرید کر واپس آئے اور سینئر وزیر کے منصب سے مستعفی ہوگئے۔ یاد رہے کہ علیم خان جب چودھری پرویزالٰہی کی وزارت اعلیٰ کے دنوں میں صوبائی وزیر تھے تب بھی انہوں نے ایک روزنامہ (وقت) کا ڈیکلریشن خریدا تھا۔ طباعت کے لئے جدید ترین مشینری بھی منگوائی۔ صحافت کی دنیا میں میر صاحبان کے
حکم اور حکمت عملی کے تحت ہر نئے ادارے میں واردات ڈالنے والے مرحوم جواد نظیر، علیم خان کے میڈیا ہائوس سے بطور ایڈیٹر منسلک ہوئے پھر ا یک دن یہ اخبار اور جدید پرنٹنگ پریس میر صاحبان نے خرید لیا۔
دوسرے پراپرٹی ٹائیکون کی طرح علیم خان ہمیشہ سے یہ سمجھتے تھے کہ ذاتی میڈیا ہائوس کا ہونا بہت ضروری ہے ورنہ زرد صحافت والے اداروں کا بھتہ ادا کرتے کرتے اک عمر گزر جاتی ہے۔
یہ ساری باتیں اب پھر یوں یاد آئیں کہ علیم خان نے اگلے روز اعلانیہ طور پر (اعلانیہ اس لئے کہ قبل ازیں وہ خاموشی سے اتحادی کے طور پر ترین گروپ کا حصہ تھے) ترین گروپ میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے گزشتہ روز گروپ کے اجلاس میں جو تقریر کی وہ بہت دلچسپ ہے۔
بہت سارے شکوئوں او رشکایات کے ساتھ تحریک انصاف کے لئے اپنی جدوجہد اور قربانیوں کا تذکرہ بھی کیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس 40ارکان پنجاب اسمبلی ہیں۔ واقفان حال کا خیال ہے کہ 20سے 22 ارکان بہرطور ان کے ہم خیال ہیں اوریہ وہ لوگ ہیں جو عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنائے جانے اور لاہور و گوجرانوالہ کے دو خاندانوں کی ’’اصل حاکمیت‘‘ سے نالاں ہیں۔
ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ علیم خان کی ترین گروپ میں شمولیت موجودہ سیاسی صورتحال میں خاصی اہم ہے۔
یہ بھی کہا جارہاہے کہ چونکہ (ن) لیگ کسی تبدیلی کی صورت میں چودھری پرویزالٰہی کو پنجاب میں مرکزی کردار دینے پر آمادہ نہیں (یہ غیر آمادگی دراصل اس گروپ کی ہے جس کی قیادت مریم نواز کررہی ہیں) اس لئے (ن) لیگ جہانگیر ترین اور علیم خان سے مسلسل رابطے میں رہی ہے۔
علیم خان کا حالیہ فیصلہ ان رابطوں کے سلسلے کی ہی ایک کڑی ہے۔ بظاہر اس رائے میں وزن ہے۔
(ن) لیگ میں مریم نواز کے قریب یا یوں کہہ لیجئے ان کے گروپ میں شامل شاہد خاقان عباسی سمیت تقریباً سارے لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے لئے اپنے رابطے بروئے کار لائے جائیں پیپلزپارٹی کو پنجاب میں فیصلہ سازی کا اختیارنہ دیا جائے۔
اسی گروپ کے شدید دبائو پر (ن) لیگ دوسری بار پرویزالٰہی کو وزیراعلیٰ بنانے کے ابتدائی وعدے سے پیچھے ہٹی۔ تحریر نویس کے ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی کہ چودھری پرویزالٰہی نے شہباز شریف کے عشائیہ میں شرکت کا فیصلہ آخری وقت میں ان اطلاعات پر تبدیل کیا کہ مریم نواز کے ایما پر جاتی امراء کے تین رکنی وفد نے علیم خان سے دو ملاقاتیں کی ہیں اور عدم اعتماد میں تعاون کی صورت میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی پیشکش کی ہے۔
دوسری طرف مونس الٰہی کے توسط سے پرویزالٰہی کو وزیراعظم عمران خان کا پیغام پہنچایا گیا کہ ’’اپوزیشن جس عہدے کا وعدہ کررہی ہے اس کے لئے ہم بھی تیار ہیں‘‘۔
ذرائع کا ہر دو اطلاعات کے درست ہونے پر اصرار رد کرنا ہماری رائے میں بلاوجہ ہی ہوگا۔
اس بات کو یوں سمجھ لیجئے کہ ق لیگ کے پاس پنجاب میں 10ارکان صوبائی اسمبلی میں 5آزاد ارکان میں سے 3ارکان ان کے ہمنوا۔ یوں یہ تعداد 13بنتی ہے لیکن دوسری طرف علیم خان کا دعویٰ 40ارکان ہے کہ مگر 20سے 22ارکان ان کے ہم خیال ہیں۔ 20کے قریب ارکان پنجاب اسمبلی جہانگیر ترین کے ساتھ ہیں۔ (ن) لیگ کو کیا پڑی ہے کہ وہ آصف علی زرداری کی بات مان کر پرویزالٰہی کو وزیراعلیٰ بنوائے اور خود پس منظر میں چلی جائے۔

چودھری اور (ن) لیگ کی سیاست کا گڑھ وسطی پنجاب ہی ہے۔ (ن) لیگ کا خیال ہے کہ پرویزالٰہی کو وزارت اعلیٰ دینے سے (ن) لیگ کو جتنا نقصان ہوسکتا ہے وہ تحریک انصاف کے پہنچائے نقصان سے زیادہ ہوگا اورثانیاً یہ کہ پنجاب کی سیاست میں آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کا عمل دخل بڑھے گا۔
یہ وہ نکات ہیں جنہیں نظرانداز کرنا مشکل ہے۔ علیم خان گروپ اور جہانگیر ترین کے گروپ کا اشتراک عمل پنجاب میں چودھری گروپ کی سیاست (عدم اعتماد کے حوالے سے) کو غیرموثر بنادے گا۔
فوری طور پر تو ایسا ہی ہوا ہے۔ کیا چودھری برادران سیاسی صورتحال اور بدلتے منظرنامے کو سمجھنے میں غلطی کرگئے یا پھر کچھ زیادہ حاصل کرنے کے چکر میں حاصل کرسکنے والی پوزیشن سے بھی محروم ہوگئے؟
یہ بنیادی سوال ہے اس کا فوری جواب یہ ہے کہ (ن) لیگ نے اپنا پتہ مہارت سے کھیلا ترین اور علیم خان سے اپنے درپردہ رابطوں سے پیپلزپارٹی کو بے خبر رکھتے ہوئے ظاہراً یہی تاثر دیاکہ آصف زرداری پنجاب کے حوالے سے جو فیصلہ کریں گے اسے قبول ہوگا۔ ہمارے خیال میں غلطی پیپلزپارٹی اور آصف علی زرداری کی ہے وہ پی ڈی ایم کے اندر (ن) لیگ کے توسط سے مریم نواز گروپ کی فیصلہ سازی پر اجارہ داری کو جانتے ہوئے بھی شہباز شریف کے وعدوں کے جھانسے میں آگئے
جبکہ (ن) لیگ کی داخلی سیاست میں فیصلہ کن حیثیت رکھنے والا گروپ اپنی سہولت کے لئے( آپ اسے مریم گروپ کہیں یا شاہد خاقان عباسی گروپ)، پیپلزپارٹی سے کسی بھی طرح کے اشتراک عمل پر تیار نہیں اس گروپ کا موقف ہے کہ پیپلزپارٹی آج بھی ہماری اصل حریف ہے۔
بلاول کے عوامی لانگ مارچ نے پیپلزپارٹی کو جس طرح پنجاب میں متحرک و فعال کیا اس سے اس گروپ کے موقف کی تصدیق ہوتی ہے جبکہ اس گروپ کے صحافیوں، یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا مجاہدین مسلسل یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ پپلزپارٹی کا عوامی لانگ مارچ جنرل باجوہ رجیم کے بدلتے ’’موڈ‘‘ کا شاہکار ہے۔

خیر اپنے سوا ہر شخص اور جماعت کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا پروردہ قرار دینے والی (ن) لیگ کی اپنی حالت یہ ہے کہ ابھی دو ہفتے قبل جناب شہباز شریف اور شاہد خاقون عباسی نے باری باری آستانہ عالیہ آبپارہ شریف کے نئے گدی نشین سے ملاقات کی لیکن جاتی امراء نیوز کے ایک کھوجی رپورٹر نے اس ملاقات کی خبر دیتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کاذکر گول کرکے اس کی جگہ آصف علی زرداری کا نام لکھ دیا۔
ایک بات طے ہے وہ یہ کہ (ن) لیگ کسی بھی مرحلہ پر پیپلزپارٹی کو سیاسی مرکزیت (فیصلہ کن حیثیت) نہیں دے گی۔ جب بھی ایسا ہوتا دیکھائی دے گا (ن) لیگ کا انقلابی دھڑا وہی حشر کرے گا جو پچھلے برس مارچ میں پی ڈی ایم کا کیا یا پھر اب پرویزالٰہی سے معاملات طے کرکے پیچھے ہٹ کر کیا۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: