نومبر 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خواب ہی بدل لو بھئی||ڈاکٹر مجاہد مرزا

مجھے نوجوانوں کے ساتھ چند منٹ ناستلجیا پر منحصر نعرے لگا کے عارضی طمانیت کا احساس ہوا مگر میں کس کو کیسے سمجھاوں کہ خواب بدل ڈالو۔ وقت ضائع مت کرو۔ عقلیت پرستی اپناو۔ جذباتیت کو تج ڈالو۔۔۔۔ میلہ اپنی جگہ مگر مقصد آج والا اپناو یعنی جمہوریت کا تسلسل اور طاغوت سے نجات۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جوش صاحب بہت بڑے شاعر تھے اسی طرح مجید امجد اور منیر نیازی صاحب بھی البتہ جون ایلیا صاحب کو پچھلے دنوں نوجوانوں کے ایک حلقے نے عوام میں متعارف کروانا شروع کیا ہے۔ حبیب جالب تو ویسے بھی عوامی شاعر تھے جن کے کچھ اشعار کو آج کل پاپولسٹ موقع پرست سیاستدان استعمال کرتے ہیں یا ہندوستان کی بنیاد پرست ہندوتوا دوست حکومت کے خلاف سیاسی طور پر فعال طلباء۔
عوام میں کسی شاعر کی شہرت اور پذیرائی صرف اور صرف اس کی شاعری کی نوع اور انداز کے سبب آج کے دور میں ہونا کوئی اتنا آسان نہیں کیونکہ نہ تو کوئی اسداللہ خان غالب جیسا غزل گو ہے اور نہ ہی انیسویں صدی کا وسط۔ یوں پاکستان میں دو شاعر اپنی شاعری کے کمال اور اپنے مداحوں کی فعالیت کے باعث مقبول ہوئے یعنی علامہ اقبال اور فیض احمد فیض جن کے کچھ اشعار اپنے چاہنے والے حلقے کے مدمقابل حلقے کے ایک حصے کے اذہان کی بھی کسی حد تک آبیاری کرنے لگے۔
اقبال جس عہد میں تھے تب صارفین کا سماج تھا ہی نہیں، ہندوستان کی آزادی اور برصغیر کے مسلمانوں کے تشخص کی تصدیق کے سبب ان کے اشعار زبان زد عام ہوئے۔ ان کی مسلمان دوستی کی وجہ سے سیکیولر ہندوستان انہیں اپنا قومی شاعر نہیں بنا سکتا تھا۔ یوں بھی وہ مسلم لیگ میں شامل تھے چنانچہ ان کی شاعری اور ان کی عظمت کا پرچم پاکستان کی حکومت نے بلند کیے رکھنے کا عہد کیا۔
فیض صاحب اپنی چند ایک نظموں کے علاوہ باقاعدہ رومانی شاعر تھے مگر ان کا رومان اشتراکی انقلاب کے ساتھ وابستہ تھا چنانچہ پاکستان میں بائیں بازو کے سیاسی کارکنوں میں ان کی مقبولیت اور پذیرائی ہونا لازمی تھی۔ فیض صاحب کی وفات کے بعد 1980 کی دہائی کے اواخر میں ان کے نام سے منسوب امن میلہ کی ابتدا کی گئی جو دو تین برس لاہور کے باغ جناح میں واقع اوپن ایر تھیٹر میں ہوتا رہا پھر فیض صاحب کی بیٹیوں نے یہ میلہ فیض صاحب کے گاوں کالا قادر میں منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ وہاں بھلا کون جاتا چنانچہ میلہ نہ ادھر ہوا نہ ادھر۔
پھر فیض صاحب کے نواسے بڑے ہو گئے ۔ ان کے صد سالہ یوم پیدائش کو ان کے نواسوں نے اپنی والداوں کے ساتھ مل کر کمرشلائز کر دیا۔ اس طرح گذشتہ کئی برس سے پاکستان میں لاہور میں سہ روزہ اور ایک دوسری تنظیم لندن میں ایک روزہ میلہ کا انعقاد کرتی چلی آ رہی ہے۔ پاکستان میں یہ سہ روزہ میلہ فیض صاحب کی شاعری اور ان کے آدرش سے کم البتہ فیض کے نام کو مقبول رکھے جانے اور عام لوگوں کو تفریح فراہم کرنے کا ذریعہ زیادہ رہا ہے۔ اس بار بائیں بازو کے کارکنوں اور فرخ سہیل گوئندی و فاروق طارق نے اس میلہ کو پہلے والے مقام پر اسی عوامی انداز میں شروع کرانے کا عزم کیا اور کامیاب رہے۔
فیض امن میلہ مقررہ وقت سے کچھ دیر بعد بلکہ پروگرام میں دیے ایک حصے کو حذف کرکے طلباء کے مذاکرے سے شروع ہوا۔ ہم کچھ دوست جب پنڈال سے نکل رہے تھے تو ایک نوجوان تقریر کر رہا تھا۔ اصطلاحات وہی استعمال کر رہا تھا جو تب جب ہم جوان ہوا کرتے تھے، برتا کرتے تھے جیسے پرولتاریہ، انقلاب وغیرہ وغیرہ۔ میں اوپن ایر تھیٹر سے زینوں پر نیچے اترتا ہوا خود کو اور شمعون سلیم کو یاد کر رہا تھا جب ہم یہی باتیں کیا کرتے تھے اور ایسا ہی خواب دیکھا کرتے تھے انقلاب کا۔ اب نہ پرولتاریہ اپنی روایتی شکل میں موجود ہے ، کم از کم صنعتی طور پر ترقی یافتہ ملکوں میں اور نہ ہی کوئی انقلاب آنے کو ہے کیونکہ دنیا میں کوئی انقلاب بیرونی عوامل اور بیرونی مدد کے بغیر واقع نہیں ہوا تھا۔ آج جنہیں انقلاب جانا گیا وہ نراج ثابت ہوئے جیسے لیبیا، عراق، مراکش، افغانستان، شام وجہ یہ کہ کنزیومر سوسائٹی کے جلو میں بیرونی طاقتوں کے عزائم بھی مارکیٹ سے منسلک ہو گئے ہیں۔
جب میں یہ بات کر رہا تھا تو زاہد کاظمی بولے، اتنے عرصہ بعد کم از کم خواب ہی بدل لیے جانے چاہییں۔ بات دل کو لگی مگر شام کو جب ہم پھر سے پنڈال میں ثقافتی پروگرام دیکھنے لوٹے تو ایک بار پھر ہمیں وہی پرانے نعرے سننے کو ملے کہ فلاں کے خون سے ایشیا سرخ ہے۔ انقلاب انقلاب مگر کس نظریے پر مبنی انقلاب اور کیسے۔ کسی کو اس کی خبر نہ تھی بس یہی کہ جب لال لال لہرائے گا تو ۔۔۔۔۔ کوئی نہیں جانتا کہ سوویت یونین سے لہراتا لال نہ صرف اتر گیا بلکہ سوویت یونین تحلیل کر گیا۔ چین کا لال جھنڈا وہاں کی مطلق العنان حکومت کا نشان ہے جو ایک طرف باقاعدہ سرمایہ داری میں ملوث ہے۔ اگر کوئی کیوبا کی بات کرے تو وہاں نظریہ ڈانواڈول ہے۔ کیا پھر شمالی کوریا کی بات کریں گے جہاں لوگ بدحال ہوتے ہوئے بھی اپنے حکمران کو باقاعدہ دیوتا سمجھتے ہیں۔
مجھے نوجوانوں کے ساتھ چند منٹ ناستلجیا پر منحصر نعرے لگا کے عارضی طمانیت کا احساس ہوا مگر میں کس کو کیسے سمجھاوں کہ خواب بدل ڈالو۔ وقت ضائع مت کرو۔ عقلیت پرستی اپناو۔ جذباتیت کو تج ڈالو۔۔۔۔ میلہ اپنی جگہ مگر مقصد آج والا اپناو یعنی جمہوریت کا تسلسل اور طاغوت سے نجات۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author