دسمبر 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پیپلزپارٹی کا "عوامی مارچ” اور 38 مطالبات||حیدر جاوید سید

عوامی مارچ کے 38 مطالبات میں شہری معاشی مساوات کے ساتھ آزادی اظہار، بلاامتیاز انصاف کی فراہمی، اداروں اور محکموں کے دستوری فرائض اور حدود۔ مختلف حوالوں سے مزید قانون سازی اور دستور کی بہرصورت بالادستی کی بات کی گئی ہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار کی دوپہر کراچی سے شروع ہوا پیپلزپارٹی کا عوامی مارچ اسلام آباد کی طرف رواں دواں ہے۔ کامیابی و ناکامی کے دعوئوں سے آگے خلق خدا کی آنکھیں بھی ہیں اور انہیں سب دیکھائی دے رہا ہے۔ عوامی مارچ کے آغاز سے قبل پیپلزپارٹی نے 38 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ عوامی مارچ کرنے کے مقصد یعنی مطالبات کو حکومت اور عوام کے سامنے رکھ دیا ہے۔
سیاسی جماعت جب حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کا ڈول ڈالتی ہے تو وہ کم از کم اپنے مقاصد عوام کے سامنے ضرور رکھتی ہے۔ احتجاجی تحریک کی جوشیلی تقریریں اپنی جگہ، اصل بات یہی ہوتی ہے کہ تحریک کے مطالبات کیا ہیں اور مقاصد کیا۔

پیپلزپارٹی کے 38نکاتی اعلامیہ عوامی مارچ کے مطابق
ملک میں ہر سطح پر آزادانہ و منصفانہ اور ایماندارانہ انتخابات کروائے جائیں۔ امور مملکت 1973ء کے آئین کی روح کے مطابق چلائے جائیں۔ 1973ء کے آئین میں وضع کئے گئے مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات کی طے شدہ حدود کی پاسداری کی جائے۔ تمام اداروں پر فرض ہے کہ وہ آئین میں طے شدہ حدود و اختیارات کے مطابق کام کریں اور دستور کی پاسداری کریں۔ پارلیمانی کمیٹیوں کے سسٹم کے استحکام اور عمل کو مزید پائیدار بنایا جائے۔
اعلیٰ عدلیہ کی تقرری کے سلسلے میں 1973ء کے دستور میں پارلیمانی کمیٹی کے وضع کردہ کردار کو مزید بہتر بنانے کے لئے ازسونو جائزہ لیا جائے۔ آزادانہ انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی دستوری اتھارٹی کا ہر سطح پر احترام کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ الیکشن کمیشن حقیقی معنوں میں آزاد ہو۔ ملک میں ہر سطح پر قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے۔ عدلیہ داخلی اور اجتماعی احتساب کو یقینی بناسکتی ہے۔
ملک بھر کے مزدوروں کو سندھ کی طرز پر یونین سازی کا حق دیا جائے۔ طلبہ یونینوں کے قیام کے لئے طلباء کے جمہوری حق کا احترام کیا جائے۔ طالب علموں کی فلاح و بہبود کے امور میں طلبا یونینوں کے حق کو تسلیم کیا جائے۔ آزادی اظہار کو یقینی بنایا جائے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں باضابطہ اور بے ضابطہ سنسر شپ کا فوری طور پر خاتمہ کیاجائے۔
میڈیا کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پیمرا کی آزادی کے لئے قانون سازی کی جائے۔ سائبر کرائم قانون کی تمام غیرمنصفانہ اور جابرانہ دفعات کا فوری خاتمہ کیا جائے۔ تمام پبلک اداروں میں ڈیٹا کے تحفظ کے لئے نئی قانون سازی کی جائے۔
تمام مستحق مردوخواتین کیلئے بینظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام کی توسیع اور اس میں اصلاح کو یقینی بنایا جائے۔ مساوات کمیشن قائم کیا جائے جو صوبوں کی مشاورت سے خواتین اور اقلیتی برادریوں کے لئے منصفانہ اجرت اور روزگار کی پالیسی مرتب کرے۔ خواتین پر گھریلو تشدد، تیزاب کے حملوں اور انہیں جنسی طور پر ہراساں کرنے کے قوانن پر سختی کے ساتھ عمل کو یقینی بنایا جائے۔
تمام پبلک مقامات، پبلک ٹرانسپورٹ اور عوامی سہولیات میں خواتین، بچوں اور خصوصی افراد کے لئے احترام اور سہولت کو بہرطور یقینی بنانے کے ساتھ انحراف کرنے والوں کا محاسبہ کیا جائے۔
16سال کی عمر کے بچوں کیلئے آئین میں دی گئی شق کے مطابق لازمی تعلیم کو ایک مقررہ مدت کے اندر اندر یقینی بنایا جائے۔ قابل استطاعت صحت و علاج معالجے کے حقوق کی فراہمی کو سرکاری اور منظور شدہ نجی ہسپتالوں کے نیٹ ورک کے ذریعے یقینی بنایا جائے۔
خواتین کے لئے جنہیں زچہ و بچہ کے سلسلے کی مفت خدمات اور نقد معاوضے کی ضرورت ہے، ایک مقررہ مدت کے اندر ان کے حقوق کی فراہمی کا قانون وضع کیا جائے (یاد رہے کہ سندھ میں یہ قانون پہلے سے موجود ہے)
غیرمسلم مذہبی برادریوں کے مردوزن اور کم عمر بچیوں کی جبری مذہب تبدلی کی روک تھام کے لئے موثر قانون سازی کی جائے اور عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جائے۔
صوبائی خودمختاری اور اٹھارویں ترمیم اور آئین کی دوسری شقوں کے تحت دیئے گئے صوبائی حقوق مثلاً نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے مقررہ آئینی مدت میں اجراء و گارنٹی دی جائے۔

بلوچستان کے عوام کے لئے پاکستان کے آئین کے اندر دیئے گئے حقوق کی یقینی فراہمی اور ان کی فیصلہ سازی کی آزادی کو یقینی بنانے کے لئے قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔
دہشت گردی کے مقدمات کے علاوہ سیاسی بنیادوں پر گرفتار تمام افراد کو رہا کیا جائے۔ سیاسی گفت و شنید کے ذریعے بلوچوں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔
دستور کے آرٹیکل 158کے تحت تیل اور گیس پیدا کرنے والوں صوبوں کی ضروریات کو بہرصورت مقدم سمجھا جائے۔ پرتشدد انتہا پسندی کے فروغ کی بیخ کنی کے لئے نیشنل ایکشن پلان پر عمل کیا جائے۔
جنوبی پنجاب (سرائیکی وسیب) کے عوام کی شناخت اور ان کی خواہشات کے مطابق نئے صوبے کا قیام عمل میں لایا جائے اور وسیب کے نظرانداز شدہ پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لئے موثر پروگرام شروع کئے جائیں۔
گلگت و بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے لئے مالیاتی خودمختاری کے ساتھ انہیں اپنے وسائل اور محصولات سے استفادہ کرنے کا حق دیا جائے۔ ملک بھر کے مزدوروں کو قابل گزارہ اجرت کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے۔ تمام محنت کشوں بشمول ان مزدوروں کے جو معیشت کے ان نارمل شعبوں میں کنٹریکٹ لیبر، گھروں میں کام کرنے والے اور کھیت مزدوروں کے لئے سوشل سکیورٹی لازمی قرار دی جائے۔
زرعی شعبے کے مزدوروں اور چھوٹے کسانوں پر لیبر قوانین، کم سے کم اجرت، سوشل سکیورٹی اور کام کرنے کےاوقات کے قوانین کا اطلاق کیا جائے۔ سندھ کی طرز پر ملک میں محنت کش خواتین اور کھیت مزدوروں کی رجسٹریشن کی جائے اور ان کے قانونی حقوق کا تحفظ کیا جائے۔
زرعی اجناس کی قیمتوں اور ان پر سبسڈی کے لئے ایک نیا فریم ورک تشکیل دیا جائے جس سے ملکی سطح پر غذائی تحفظ کے حق کی پاسداری کے ساتھ دیہی اور شہری آبادیوں کے لئے یکساں آمدنی کے مواقع یقینی بنائے جائیں۔ غریب طبقات کے لئے رہائشی سہولتوں کی فراہمی کے حوالے سے ریاست اپنے فرائض پورے کرے۔
کرایہ داروں اور غریب طبقات کی جبری بے دخلی کے خلاف قانون سازی کی جائے۔ ملک بھر میں کچی آبادیوں اور انتہائی پسماندہ آبادیوں کو قانونی حیثیت دینے کے ساتھ ان میں بنیادی سہولتوں کی کم سے کم وقت میں فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
قارئین کرام!
بالائی سطور میں پیپلزپارٹی کے عوامی مارچ کے 38 مطالبات (چارٹر آف ڈیمانڈ) شق وار لکھنے کا مقصد مکرر عرض کئے دیتا ہوں سیاسی عمل میں شریک جماعتوں میں سے کسی کو بھی معروضی حالات اور عوامی مسائل کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ پیپلزپارٹی یا کوئی بھی دوسری جماعت جب حکومت مخالف تحریک شروع کرتی ہے تو اس پر فرض ہے کہ وہ عوام کو بتائے کہ اس کی نظر میں عوام کے مختلف طبقات کو مزید کیا ملنا چاہیے۔

عوامی مارچ کے 38 مطالبات میں شہری معاشی مساوات کے ساتھ آزادی اظہار، بلاامتیاز انصاف کی فراہمی، اداروں اور محکموں کے دستوری فرائض اور حدود۔ مختلف حوالوں سے مزید قانون سازی اور دستور کی بہرصورت بالادستی کی بات کی گئی ہے۔
یہ وہ تمام نکات ہیں جن کے حوالے سے حیل و حجت درست نہیں یہ خواص کا نہیں عوام کا ملک ہے۔ طبقاتی امتیازات اور موجود خلیج کی وجہ سے لوگ بے یقینی کا شکار ہیں۔ مہنگائی کے مقابلہ میں آمدنی کم ہے۔
بیروزگاری اور دوسرے مسائل سے صرف نظر ممکن نہیں۔ جبری مذہب کی تبدیلی کی قانونی طور پر حوصلہ شکنی لازمی ہے۔ لازمی تعلیم کی دستوری ہدایت سے انحراف پر متوجہ کیا گیا ہے۔ وسائل پر سب کا مساوی حق ہے مگر تقدم ان صوبوں کو ہے جن کے وسائل ہیں۔ موجودہ حالات میں اس سے بہتر عوامی چارٹر آف ڈیمانڈ اور کیا ہوگا۔
پیپلزپارٹی سے لاکھ اختلاف کیجئے مگر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کا 38 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ عوامی نبض شناسی کے ساتھ اس امر کا بھی ثبوت ہے کہ سیاسی جماعت کیسے سوچتی ہے اور کیسے اپنے پروگرام عوام کے سامنے رکھتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author