مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرسوں کے پھول اور زرد سانسیں ||گلزار احمد

زیست خان عورت کی جذباتی دنیا کو لفظوں کا پیراہن پہنا کر پیش کر دیتی ہے۔اس کے خیال میں عورت کی بہاریں بھی بلبل کے نغموں کی منتظر رہتی ہیں۔ یہ تو بیری کا سرسبز و شاداب درخت ہے جس میں بہار آتے ہی اس کی شاخیں کنکروں کی زد میں آ جاتی ہی

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آجکل پھاگن کا مہینہ آ پہنچا اور سرسوں کےحسین پھولوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتی ہوا بدلتے موسم کا سندیسہ دے تو انسان کو فطرت کی اداؤں پر بھلا کیوں پیار نہ آئے ۔
پودے جھوم جھوم کر موسم کا خیرمقدم کرتے ہیں۔کلیاں اور غنچے چٹک چٹک کر خوشبو بکھیرتے ہیں سرسوں کے پھول سونے جیسی رنگت لیے اپنی آن بان دکھاتے ہیں۔ میں نے زندگی میں اپنے تعلیم کے بیشتر امتحانوں کی تیاری سرسوں کے پھولوں کے پاس بیٹھ کر کی ہے کیونکہ بسنتی پھول اور امتحانوں کا سالوں سے ایک ہی موسم ہے۔۔مجھے زرد پھولوں سے عشق ہے اور ان پھولوں کے موسم میں کھیت کھلیان میرا مسکن بنتے ہیں۔ مجھے کچھ روز پہلے زیست خان کی شاعری کی کتاب زرد سانسیں ملی تو میں عجیب دنیا میں کھو گیا ۔میں نے تہیہ کیا کہ اس کتاب کو سرسوں کے پھولوں کی خوشبو میں بیٹھ کے پڑھنا چاہیے۔
زیست خان ڈیرہ ڈویژن کے خوبصورت ضلع ٹانک کی باسی ایک تخلیقی شاعرہ ہیں جس نے ماسٹر تو انگلش لٹریچر میں کر رکھا ہے مگر شاعری اردو زبان میں کرتی ہیں۔ قدرتی بات ہے keats اور ورزڈزورتھ کی شاعری کو پڑھنے والی زیست کا ذھنی کینویس بڑا وسیع ہو گا اور اس کی اردو شاعری میں وہ عکس نظر آتا ہے۔یہ ایک اتفاق کہیے کہ جب یہ شاعری لکھی جا رہی تھی اس وقت ہمارے علاقے خودکش حملوں۔بم دھماکوں اور ڈرون حملوں کے زد میں تھے۔ہر طرف بارود و لہو کی فضا تھی ان حالات کو دیکھ کر ایک حساس دل و دماغ کی شاعرہ کا متاثر ہونا لازمی تھا ۔تو سماج کے یہ دکھ ان کی شاعری میں سمٹ گیے اور اس نے اپنے کلام میں مہذب دنیا کی اخلاقی اقدار کو چیلنج کر دیا۔ خود ہمارے سماجی رویوں میں عورت کا جو مقام ہے اس سے بغاوت بھی نوک قلم پر آ گئی تو زیست خان نے بڑے بولڈ طریقے سے بیان کر دی۔ ہمارا معاشرہ پیار محبت کے مقدس رشتوں کو جس منافقت سے پامال کرتا ہے زیست خان نے اس کو ایکسپوز کرنے میں کوئ ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ جھوٹ ۔فریب ۔دھوکہ۔ بے حسی ۔بے وفائی اور انا کے پہاڑ زیست خان کے لفظوں کی سونامی میں خس و خاشاک کی طرح بہتے نظر آتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں عورت کو ایک کھلونا بنا دیا گیا اس لیے زیست خان کا خیال ہے کہ عورت پیدا نہیں ہوتی ۔۔بنا دی جاتی ہے۔ زیست خان کے نزدیک عورت زندہ ہو کر بھی مری ہوتی ہے کیونکہ اس کے خوابوں کو ریزہ ریزہ کر دیا جاتا ہے اس کو سنا نہیں جاتا بلکہ دوسرے درجے پر رکھا جاتا ہےوہ کہتی ہے۔۔۔۔وہ زندہ ہو کر بھی کب زندہ رہتے ہیں جن کے خواب مر جاتے ہیں۔
زیست خان عورت کی جذباتی دنیا کو لفظوں کا پیراہن پہنا کر پیش کر دیتی ہے۔اس کے خیال میں عورت کی بہاریں بھی بلبل کے نغموں کی منتظر رہتی ہیں۔ یہ تو بیری کا سرسبز و شاداب درخت ہے جس میں بہار آتے ہی اس کی شاخیں کنکروں کی زد میں آ جاتی ہیں مگر صحرا میں کھلتی بعض بیریاں ایسی بھی ہیں جن کی طرف کئی بہاریں گزرنے کے باوجود بھی کوئی کنکر نہیں آتا۔ کسی شاعرہ نے کیا خوب کہا تھا؎
اِس آس سے تپتے ہوئے صحرا میں کھڑی ہوں۔
گزرے گا کسی ابر کا سایہ میرے سر سے۔۔
زیست خان ہمارے وسیب کی ایک توانا اور میچور آواز ہےجس کے کلام میں عورت کی للکار دکھائ دیتی ہے۔

%d bloggers like this: