۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان اپنے علم و ہنر سے معاشرے میں پہچانا جاتا ہے مگر انسان کی شناخت کی اصل بنیاد اس کا علم و فن ہر گز نہیں ہوتا بلکہ اس کا اخلاق و کردار اس کی اصل پہچان ہوتا ہے کیونکہ انسان کی حقیقی عظمت کا تعین اس کے معاملات، زندگی کے طور طریقے اور اس کے عمل سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ اگر اس کے پاس علم کی درجنوں ڈگریاں موجود ہوں مگر اس کے اخلاق و کردار، انداز و اطوار، عادات و خصائل اور دیگر معاملات زندگی درست نہیں تو ایسے شخص کے لئے علم و فن کا اعلیٰ ترین مقام حاصل کرنا بے معنی ہے۔ اگر ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص آپ کے سامنے وقتاً فوقتاً تھوک رہا ہو، اس کے رہنے کی جگہ گندی ہو، سارا گھر بکھرا پڑا ہو تو آپ ایسے شخص کے بارے میں محض تعلیمی قابلیت کی وجہ سے اس کی عزت نہیں کر پائیں گے۔ یہی مثال عالمی سطح پر قوموں کی ہے۔ قوموں کے کردار عالمی برادری میں ان کی اہمیت کا باعث بنتے ہیں۔
مہذب قومیں اپنے اردگرد کے ماحول سے محبت کرتی ہیں اور کسی بھی طرح اپنے معاشرے کو آلودہ نہیں ہونے دیتیں۔ معاشرتی شعور اور تعلیمی نصاب بچوں میں آگاہی پیدا کرنے کے بہترین ذرائع ہیں مگر ہمارے ہاں بچوں کو ڈنڈا پکڑا کر کسی بھی جلوس میں بھیج دیتے ہیں مگر افسوس کہ قومی سطح تربیت کا باقاعدہ کوئی انتظام نہیں۔
پہلی مرتبہ جاپان جانے والے وہاں صفائی کی صورتحال دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں۔ کیونکہ گلیوں میں نہ تو کوڑے دان ہیں اور نہ ہی صفائی کرنے وا لے جھاڑو لگا رہے ہوتے ہیں۔
جاپان کے رہائشی خود اپنے ملک کو ذمہ داری کے ساتھ صاف ستھرا رکھتے ہیں۔ ہیروشیما پریفیکچر کی حکومت کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر مائیکو ایوانے کہتے ہیں کہ ’پرائمری کلاس سے لے کر ہائی سکول تک 12 برسوں میں طالب علموں کے لیے صفائی روز کا معمول ہے۔ جاپانی بچے ہر ماہ ایک بار رضاکارانہ طور پر اپنے سکول کی قریبی گلیوں کی صفائی کرتے ہیں۔
جب طالبعلم سکول آتے ہیں تو انھیں اپنے جوتے لاکر میں رکھ کر ٹرینر پہننے ہوتے ہیں۔ گھروں میں بھی لوگ گلی میں پہنے جانے والے جوتوں کو گھر کے سامنے والے حصے میں اتار دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ گھروں میں جو لوگ کام کے لیے آتے ہیں وہ بھی اپنے جوتے اتار کر جرابوں پر کچھ پہن لیتے ہیں۔ جب سکول کے بچے بڑے ہوتے ہیں ان کا یہ خیال پختہ ہو چکا ہوتا ہے کہ کلاس روم کے علاوہ ان کا پڑوس، ان کا شہر اور ان کا ملک بھی ان کی ذمہ داری ہے۔
محلے دار باقاعدگی سے اپنی گلیوں کی صفائی کے ایونٹ کا انتظام کرتے ہیں حالانکہ جاپان کی گلیاں عام طور پر بہت صاف ہوتی ہیں اور لوگ کوڑا کرکٹ گلی میں پھینکنے کی بجائے گھر لے آتے ہیں۔ حتیٰ کہ جاپان کی اے ٹی ایم مشینوں سے ایسے صاف ستھرے نوٹ نکلتے ہیں جیسے کپڑوں پر کلف لگی ہو۔ جاپانی نوٹ کسی شخص کے ہاتھ میں نہیں تھماتے۔ دکانوں، ہوٹلوں حتیٰ کے ٹیکسیوں میں بھی جب ادائیگی کی جاتی ہے تو کرنسی نوٹس کو ایک ٹرے میں رکھا جاتا ہے اور وہاں سے دوسرا شخص نوٹ اٹھاتا ہے۔
جاپان میں لوگ نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی صحت کے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں، جراثیم اور بیکٹریا کے بارے میں بہت تشویش پائی جاتی ہے۔ جب لوگوں کو زکام ہو جاتا ہے تو وہ سرجیکل ماسک پہنتے ہیں تاکہ دوسرے لوگ اس سے متاثر نہ ہو سکیں۔ اس طرح نہ صرف دوسرے لوگ زکام سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ علاج پر اٹھنے والے اخراجات اور وقت دونوں بچ جاتے ہیں۔
مائیکو ایوانے کہتے ہیں کہ ہم جاپانیوں کو اس بات کا بہت خیال رہتا ہے کہ لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور اگر ہم نے صفائی نہ کی تو لوگ کیا کہیں گے۔ ’ہم نہیں چاہتے کہ لوگ سوچیں کہ ہم برے لوگ ہیں اور ہماری اتنی بھی تعلیم و تربیت نہیں ہے کہ ہم اپنی جگہ کو صاف کر لیں۔ ‘
کچھ عرصہ پہلے شنکسن ٹرین کی صفائی کی سات منٹ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل تھی۔ جاپان کی فٹ بال ٹیم جب 2014 میں برازیل میں ہونے والے ورلڈ کپ میں حصہ لینے گئی تو وہ صفائی کے حوالے سے جاپانی رویے کی عکاس تھی۔ جب ایک میچ کے بعد جاپانی ٹیم کے کھلاڑی سٹیڈیم میں کوڑا اٹھانے کے لیے رکے تو تماشائی حیران رہ گئے۔ جاپانی کھلاڑی اپنے ڈریسنگ روم کو بھی اتنا صاف رکھتے تھے کہ فیفا کے جنرل کواڈنیٹر پریسلا جینسن نے کچھ اس طرح سے ٹویٹ کیا
’دوسری ٹیموں کے لیے کیا بہترین مثال ہے۔ ‘
اسی طرح کے مناظر جاپان کے میوزک فیسٹیول میں بھی دیکھے گئے۔ فیوجی راک فیسٹیول جاپان کا سب سے بڑا موسیقی میلہ ہے۔ اس میلے کے شرکا اپنا کوڑا کرکٹ اس وقت تک اپنے پاس رکھتے ہیں جب تک انہیں کوڑے دان مل نہیں جاتا۔ سگریٹ نوشوں سے کہا جاتا ہے کہ اپنی ایش ٹرے ساتھ لے کر آئیں اور ایسی جگہ سگریٹ نوشی کریں جس سے دوسرے متاثر نہ ہوں۔
سعودی عرب کے شہر جدہ میں 500 سے زیادہ پارک ہیں۔ جہاں سبزہ زار ہیں۔ سی فرنٹ پر بھی چوبیس گھنٹے صفائی کے انتظامات ہیں۔ میونسپلٹی نے پارکوں اور سی فرنٹ پر راہداریوں اور بینچوں کا انتظام کر رکھا ہے۔ غیرمعمولی صفائی کا بندوبست کیا گیا ہے۔ کورونا کے دوران ایسے تمام مقامات جو وائرس سے آلودہ ہوسکتے تھے انہیں سینیٹائز کر دیا گیا۔ اور سب سے اہم بات کہ گھر سے باہر جاتے وقت آپ فیس ماسک بھول جائیں یا خراب ہو جائے تو ہر جگہ چاہے وہ شاپنگ مال ہے، ہسپتال ہے، پارک ہے الغرض ہر مقام پر ہینڈ سینیٹاییزر کے ساتھ ساتھ فیس ماسک مفت مہیا ہوتے ہیں اور شاپنگ کے لئے پلاسٹک دستانے بھی۔
پارک جانے والوں میں کورونا وبا سے بچاؤ کی آگہی باقاعدہ نظر آتی ہے۔ سب ماسک پہنے ہوئے ہوتے ہیں۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ سماجی فاصلے کی پابندی بڑے احساس کے ساتھ کی جاتی ہے۔ بچے بھی اس سلسلے میں پیچھے نہیں رہتے۔ کئی ماہ تک گھروں میں رہنے کے دوران بچوں میں کورونا وبا سے بچاؤ کا شعور بڑھ گیا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر وزارت صحت اور امن و عامہ کی جانب سے ٹیکسٹ میسج موصول ہوتے ہیں کہ کس طرح انفرادی سطح پر حفظان صحت کے اصولوں پر عمل سے ہم بیماری کے پھیلاؤ کو روک سکتے ہیں اور صحت مند معاشرے میں افراد کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔
یہ بات بڑی اہم ہے کہ بطور انسان ہمارے ہونے یا نہ ہونے سے کتنے انسانوں کو فرق پڑتا ہے۔ کتنے انسانوں کا فائدہ ہوتا ہے اور نہ ہونے سے کتنے انسانوں کا نقصان یا پھر نہ ہونے سے کتنے انسانوں کا فائدہ ہوتا ہے۔ یہ جاننے کے بعد ہمیں اپنی اوقات کے بارے میں کوئی غلط فہمی یا خوش فہمی نہیں ہوتی۔ انسان کو تمام جانداروں میں اشرف المخلوقات اس لئے کہا گیا ہے کہ اسے صرف زندگی ہی عطا نہیں کی گئی بلکہ اسے احسن طریقے سے زندگی گزارنے کے لئے شعور جیسی نعمت سے بھی نوازا گیا ہے۔ زندگی صرف سانس لینے، کھانے پینے، سونے جاگنے کا نام نہیں۔ سانس تو ہم سب لیتے ہیں لیکن حقیقت میں زندگی صرف انہی کو ملتی ہے جنہیں زندگی جیسی انمول نعمت کو سلیقے اور قرینے سے بسر کرنے کا شعور بھی ہے۔ یہ زندگی کا شعور ہی ہے جو انسانوں کو فرش سے اٹھا کر عرش پر پہنچا دیتا ہے۔
_
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر