اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پیکا آرڈیننس کے سیکشن 20 کو کیوں نہ کالعدم قرار دیا جائے؟چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ

پی ایف یو جے کی جانب سے عادل عزیز قاضی ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 17 فروری کو سینیٹ کا سیشن ختم ہوا اور 18 فروری کو قومی اسمبلی کا اجلاس تھا، اجلاس کو صرف اس لیے ملتوی کیا گیا کہ یہ آرڈیننس لایا جا سکے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیکا آرڈیننس کے خلاف  درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے  ریمارکس دیئے ہیں کہ آرڈیننس کے ذریعے ایکٹ کو مزید ڈریکونین بنا دیا گیا ہے  پیکا آرڈیننس کے سیکشن 20 کو کیوں نہ کالعدم قرار دیا جائے؟

اسلام آبا د ہائیکوٹ میں  ایف آئی اے اختیارات اور پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک سیاسی ورکر نے پبلک آفس ہولڈر کے خلاف تقریر کی  اور6ماہ جیل میں رہا۔قانون پبلک آفس ہولڈرز کے تحفظ اور آزادی اظہار کو دبانے کیلئے استعمال ہو رہا ہے۔ آرڈیننس کے ذریعے  ایکٹ کو مزید ڈریکونین بنا دیا گیا ہے واحد سوال یہ ہے کہ سیکشن 20 کو کیوں نہ کالعدم قرار دیا جائے؟

چیف جسٹس ہائیکورٹ نے ریمارکس میں کہا ہے کہ اگر حکومت کو پرائیویٹ لوگوں کی ہتک کا اتنا خیال ہے تو پبلک آفس ہولڈرز کو نکال دے۔مجھے چیف جسٹس ہوتے ہوئے تنقید سے نہیں گھبرانا چاہیے۔ہر پبلک آفس ہولڈر کی ساکھ اس کے فیصلوں اور اسکے اعمال سے ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت کافی عرصے سے اس معاملے پر تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہےسیاسی جماعتیں اور رہنما سوشل میڈیا پر ہونے والے اقدامات کے خود ذمہ دار ہیں۔ جب آپ خود یہ چاہتے ہیں تو پھر تنقید سے کیوں ڈرتے ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا پر چلنے والی چیزوں کی ذمہ دار ہیں۔اداروں نے بھی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بنا رکھے ہیں۔اداروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کیوں ہونے چاہئیں۔پھر آپ اسی سوشل میڈیا کے خلاف قانون لے آتے ہیں۔یہی سیاسی جماعتیں اپنی سوشل میڈیا ٹیمز سے یہ سب کراتے ہیں۔پھر سوشل میڈیا پر الزام کیوں لگایا جا رہا ہے۔میرے خیال میں صرف جماعت اسلامی اس کا حصہ نہیں ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ پوری دنیا میں طے ہے کہ آزادی اظہار پر کوئی کمپرومائز نہیں ہو سکتا۔اداروں کے بنیادی حقوق یا ساکھ نہیں ہوتی، وہ ہتک عزت میں کیسے آ سکتے ہیں۔ جس طرح لاہور سے دو صحافیوں کو اٹھایا گیا اسکی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔پھر آپ بیان حلفی دیں کہ ان آرڈیننسز کے تحت کارروائیاں نہیں کی جائیگی۔

انہوں نے کہا ہے کہ اس آرڈیننس میں پبلک باڈیز کی ساکھ بھی بچانے کی کوشش کی گئی ہے۔آپ نے تو نیچرل پرسن کی تعریف کو بھی آرڈیننس میں تبدیل کر دیا ہے۔اس عدالت کو عوام کے اعتماد کی پرواہ ہے، تنقید کی کوئی پرواہ نہیں۔ یہ عدالت نہیں چاہے گی کہ غلط تنقید پر بھی کسی کو جیل بھیج دیا جائے۔

انہوں ریمارکس دیے ہیں کہ جتنا نقصان نیب اور اسکے قانون نے پہنچایا ہے اس کی تو کوئی مثال نہیں۔پبلک باڈیر کا کونسا بنیادی حق ہے، اس ہائیکورٹ کا کونسا بنیادی حق ہے؟جتنی بھی غلط تنقید ہو اس عدالت کو تو گھبرانا ہی نہیں چاہیے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ آرڈیننس آئین کے آرٹیکل 19 سے متصادم ہے، عدالت یہ پوچھ رہی ہے کیوں نہ اس قانون کو کالعدم کر دیں؟  عدالت نے کیس کی سماعت 10مارچ تک ملتوی کردی ۔

اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکومت کو پریوینشن الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) کی سیکشن 20 تحت گرفتاریاں نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ پی ایف یو جے کی جانب سے پیکا آرڈیننس کے خلاف دائر درخواستوں کو یکجا کرکے ان پر سماعت کی

وکلا نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 17 فروری کو سینیٹ کا سیشن ختم ہوا اور 18 فروری کو قومی اسمبلی کا اجلاس تھا، اجلاس کو صرف اس لیے ملتوی کیا گیا کہ یہ آرڈیننس لایا جا سکے۔

وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ایسے کیا حالات تھے جن کی بنیاد پر یہ آرڈیننس جاری کرنے میں جلدی تھی
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے پہلے ہی ایس او پیز جمع کرا چکی ہے، ایس او پیزکے مطابق سیکشن 20 کے تحت کسی شکایت پر گرفتاری نہ کی جائے، ایس او پیز پر عمل نہ ہوا تو ڈی جی ایف آئی اے اور سیکرٹری داخلہ ذمہ دار ہوں گے۔

عدالت نے پیکا ایکٹ میں ترمیم کے خلاف پی ایف یو جے کی درخواست پر صدارتی آرڈی نینس کے ذریعے ترمیم کے خلاف درخواست پر اٹارنی جنرل کو معاونت کے لیے نوٹس جاری کر دیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عوامی نمائندے کے لیے تو ہتک عزت قانون ہونا ہی نہیں چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ زمبابوےاوریوگنڈابھی ہتک عزت کوفوجداری قانون سےنکال چکے۔

وکیل پی ایف یوجے عادل عزیز نے کہا کہ جو خودکو عوامی نمائندہ کہتا ہے وہ بھی تنقید سے نہ گھبرائے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیکا ایکٹ میں ترمیم کے خلاف پی ایف یو جےکی درخواست پر سماعت کل تک  ملتوی  کر دی۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں  آن لائن نیوز ایجنسی اور جناح اخبارکے ایڈیٹر انچیف محسن بیگ کو ٹی وی پروگرام میں بولنے پر وفاقی وزیر مراد سعید کی شکایت پر گرفتار کیا گیا.

محسن بیگ کے گھر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے چھاپہ مارا تھا،محسن بیگ حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتے تھے

پولیس کے مطابق محسن بیگ کے خلاف دہشتگردی، اقدام قتل، حبس بے جا سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج ہے.

اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اخباری مالک اور تجزیہ کار محسن بیگ کو تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا ہے۔

بدھ کو اسلام آباد پولیس کے تھانہ مارگلہ کے اہلکاروں نے محسن بیگ کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کیا۔

پولیس اہلکاروں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو کمرہ عدالت میں جانے سے روک دیا اور عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے نے ملزم کو رہائش گاہ سے گرفتار کرنے کے لیے چھاپہ مارا تھا۔

محسن بیگ نے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے باہر پولیس حراست میں میڈیا کو بتایا کہ صبح سویا ہوا تھا، یہ ڈاکوؤں کی طرح گھر میں داخل ہوئے۔

محسن بیگ نے بتایا کہ بغیر وردی گھر میں آئے، گھر میں فیملی ہے۔ تھانے میں ایف آئی اے والوں نے تشدد کیا، جبکہ میں پولیس کسٹڈی میں تھا۔

محسن بیگ نے کہا کہ ایف آئی اے والوں نے تشدد سے میری ناک، پسلیاں توڑی ہیں، میرا میڈیکل کرا لیں۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ محسن بیگ کی گرفتاری سے عمران خان کی طاقت نہیں بلکہ کمزوری ظاہر ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اتنے کمزور ہیں کہ وہ خود پر تنقید سے ڈرتے ہیں کہ کہیں عوام ان کے سچ سے واقف نہ ہو جائیں۔

%d bloggers like this: