دسمبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پیکا آرڈیننس اور سوئس لیکس||حیدر جاوید سید

پچھلے کم از کم 45 برسوں کی تاریخ میں دو جہادوں اور فرقہ پرستی کی لہر (اس میں تنظیموں کا بننا، عسکریت پسندی کے پھیلائو سے لگی آگ، کے نتائج بھی شامل ہیں ) یہ تین مواقع چند سو افراد کو مالدار بنانے میں معاون بنے اور ہزارہار خاندان ان تین مراحل میں بری طرح متاثر ہوئے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیکہ ارے معاف کیجئے گا پیکا آرڈیننس کے شوروغل میں ’’سوئس لیکس‘‘ دب کر رہ گئی۔ اس بار دھوم دھڑکا ہوا، نہ چیختے چلاتے پروگرام، پگڑیاں اچھلیں نہ چور چور ڈاکو ڈاکو اور لٹیرے لٹیرے کی صدائیں بلند ہوئیں۔
وجہ کیا ہے، بہت سادہ۔ کیا میں یہ وجہ لکھ سکتا ہوں؟
پچھلے چند گھنٹے یہی سوچتے ہوئے گزرگئے۔ فقیر راحموں نے مشورہ دیا دو دن قبل کی شام میں منعقدہ ایک مجلس آرائی پر لکھ لو جب 2نوجوان دوست پارا چنار سے طویل مسافت طے کرکے تمہیں ملنے آئے تھے۔ پتہ نہیں اس مشورے پر یہ کیوں محسوس ہوا کہ فقیر راحموں نے ہماری شہادت کے پیسے ’’پکڑ‘‘ رکھے ہیں۔
چلیں کسی آئندہ کالم میں پچھلے دنوں منعقد ہونے والی دو محفلوں کا تذکرہ کریں گے فی الوقت تو یہ ہے کہ بات کس پر کی جائے پیکہ معاف کیجے گا پیکا آرڈیننس پر یا سوئس لیکس پر؟ پیکا آرڈیننس کی تعریف میں جو نوجوان محبینِ فواد چودھری کہہ رہے ہیں کہ وفاقی وزیر اطلاعات نے اس حوالے سے مشاورت کرنے اور آرا سے آگاہی کے لئے کوشش کی مگر ناکام رہے۔
ان کا یہ دعویٰ بے بنیاد ہے۔ درباریوں کا کام یہی ہوتا ہے کہ بادشاہ سلامت کو اگر کدو پسند ہیں تو تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے جائیں۔ مسور کی دال پسند نہیں تو اس کی ہزار خرابیاں بیان کی جائیں۔ خیر شاہوں کے درباروں میں یہی ہوتاہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس پیکا آرڈیننس کے مسودے کے لئے صحافتی شعبہ کی کسی بھی تنظیم سے کسی بھی سطح پر کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ ایسا ہی جناب نوازشریف کے دور میں اُس وقت (سال 2016ء میں) ہوا تھا جب یہ قانون قومی اسمبلی نے منظور کیا تھا تب بھی صحافتی تنظیموں نے احتجاج کیا تھا کہ حکومت نے مشاورت کی بجائے من پسند قوانین مسلط کردیئے ہیں ، البتہ الیکٹرانک جرائم کے قانون 2016ء کی منظوری کی سفارش قومی اسمبلی کی اس قائمہ کمیٹی نے کی تھی جس میں تمام پارلیمانی گروپوں کی نمائندگی تھی۔ ہماری محبوب پیپلزپارٹی بھی اس قانون کے حق میں تھی، دکھاوے کا احتجاج بھی نہیں کیا گیا۔ چند چھوٹے چھوٹے مظاہرے ہوئے اور دو تین کالم ضرور لکھے گئے اس وقت پھر لمبی خاموشی چھاگئی۔
اچھا اب جعلی خبر کی تعریف کیا ہوگی؟
مثال کے طور پر ایک وقت میں ہمارے موجودہ وزیراعظم ڈی چوک پر کھڑے کہہ رہے ہوتے تھے کہ ملک میں 12ارب روپے کی روزانہ کرپشن ہوتی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ سیاستدانوں کے لوٹے ہوئے دو سو ارب ڈالر بیرون ملک پڑے ہیں
پھر ایک دن وفاقی وزیر خزانہ (اس وقت وزیر خزانہ تھے) اسد عمر نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ "2سو ارب ڈالر والی بات تو بس جلسوں کو گرمانے کے لئے تھی”۔
12ارب کی روزانہ کرپشن کبھی ثابت نہیں کی گئی۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ جھوٹ کی طومار سے ماحول کو گرمانے، جہاز دوڑانے، سیاسی عمل کو گالی بنادینے والے آج سچ کا سامنا کرنے سے گھبرارہے ہیں تو یہ غلط نہیں ہوگا۔
دوسری بات یہ ہے کہ کیا آج اگر جناح صاحب حیات ہوتے تو کوئٹہ سٹاف کالج میں کی گئی ان کی تقریر کا کیا مطلب لیا جاتا اور یہ کہ کیا تقریر پیکا آرڈیننس کی زد میں نہ آتی؟
وہی تقریر جس میں جناب قائداعظم محمدعلی جناح نے دستور سے وفاداری پر زور دیتے ہوئے کہا تھا
’’آپ کا کام حکومت کے احکامات پر عمل کرنا ہے یہ آپ کے فرائض کاحصہ ہے‘‘۔
مطلب یہ آپ حکومت کو ہدایات نہیں دے سکتے۔ عین ممکن ہے آپ مجھ سے اختلاف کریں لیکن اس ملک میں جناح صاحب کی وفات کے بعد ہر الٹا کام ہوا، سادہ لفظوں میں یہ کہ ان کی 11اگست 1947ء والی تقریر دستور اور ریاست کا بیانیہ نہیں بن سکی بلکہ ہم سب نے مل کر اس کا کچومر نکالا۔
سٹاف کالج کوئٹہ والی تقریر سے اس کی روح کے مطابق رہنمائی لینے کی بجائے یکسر الٹ عمل ہوا۔
وہ دوست جو پیکا آرڈیننس پر بات کرتے ہوئے یہ سمجھارہے ہیں کہ دنیا بھر میں ایسے قوانین موجود ہیں وہ ٹھنڈے دل سے غوروفکر کے بعد ہمیں یہ ضرور بتائیں کہ دنیا بھر میں جھوٹ کو مقدسات کے طور پر پیش کرنے میں ذرائع ابلاغ کے بڑے حصے نے ’’کسی‘‘ کے حکم پر اپنے ہی لوگوں کو کب گمراہ کیا؟
اصل میں ہم اپنی رائے کو سچ اور دوسرے کی وضاحت کو جھوٹ سمجھنے کے عادی ہیں۔ ہمیں وہ لوگ بھی دیانتداری کے بھاشن دیتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں جنہوں نے کالادھن سفید کرنے کے قانون سے اپنے اپنے وفت پر فائدہ اٹھایا ہوتا ہے۔
اطلاعات کے شعبہ کی تنظیموں سے مشاورت کے بغیر نافذ کئے جانے والے پیکہ بارِدیگر معاف کیجئے گا پیکا آرڈیننس کا مقصد محض جعلی یعنی جھوٹی خبر پر گرفت کرنا نہیں، آرڈیننس کا پورا مسودہ پڑھ لیجئے یہ توہین مقدسات جیسے قانون کے مساوی قانون ہے۔
اب آیئے اس سوئس لیکس کی طرف، ایک بڑے میڈیا گروپ نے جو ہمیشہ ایسی لیکس کی اشاعت اور اس پر بحثوں کو آگے بڑھانے میں پیش پیش ہوتا ہے، سوئس لیکس پر یوں خاموشی اختیار کی کہ صفحہ اول پر غیرنمائیاں انداز میں2 کالمی خبر لگاکر حقِ صحافت ادا کردیا۔
آپ جانتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ سوئس لیکس کے ایک "خاموش مجاہد” کے خاندان سے اس میڈیا ہائوس کے مالکان کی تازہ تازہ رشتہ داری ہے۔ اب آزادی صحافت رشتہ داری کے تیل میں ڈوب کر مرگئی۔
سوئس لیکس کے مطابق سوئس بینکوں میں غیرملکیوں کے 100ارب ڈالر پڑے ہیں۔پاکستان سے جن افراد کے نام سوئس لیکس میں آئے ہیں ان میں افغان جہاد کے معمار کہلانے والے جنرل اختر عبدالرحمن مرحوم کا نام بھی شامل ہے اور واپڈا کے ایک سابق چیئرمین جنرل زاہد علی اکبر کا بھی۔
کل 18ہزار اکائونٹس کا ریکارڈ لیک ہوا ہے۔ بعض پاکستانی اخبارات کے مطابق مرحوم اختر عبدالرحمن کے خاندان نے او سی سی آر پی کی رپورٹ کو مسترد کردیا ہے۔ اچھی بات ہے رپورٹ مسترد کردی گئی مگر کیا رپورٹ مسترد کردینے سے سوئس بینک میں کھولے گئے اکائونٹ کی تفصیل (تاریخ اور رقم) بھی مسترد ہوجائے گی؟
سوئس لیکس کی اشاعت پر نیوز ویک کی وہ سٹوری یاد آگئی جو سال 1986ء کی کسی اشاعت میں شائع ہوئی تھی اس میں اس وقت کی دنیا کے سات امیر ترین جرنیلوں کے نام تھے۔ جنرل فضل حق ( موصوف صوبہ سرحد اب خیبر پختونخوا کے گورنر اور وزیراعلیٰ رہ چکے ) کا نام بھی تھا اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد تب بعض محکموں کے اہلکار لاہور کی اخبار مارکیٹ اور بک سٹالوں پر نیوز ویک کا شمارہ تلاش کرتے اور لے جاتے پائے گئے تھے۔
افغانستان میں لڑی گئی سوویت امریکہ جنگ جسے پاکستان سمیت مسلم اور مسیحی دنیا میں جہاد افغانستان کا نام دیا گیا تھا، ایک جہادی جنگی تجارت تھی اس کاروبار میں پیارے کن کے دنیا سے رخصت ہوئے اور مالدار کون کون لوگ ہوئے یہ کبھی بھی راز نہیں رہا۔
نرم سے نرم الفاظ میں یہ کہ وہ جہاد اصل میں ہماری ریاستی تجارت تھی۔ ریاستی تجارت اس لئے کہ اس وقت کی حکومت اس جہادی کاروبار کی پشت بان تھی۔
جہاد افغانستان سے جنیوا معاہدہ تک کے درمیانی برسوں میں ہی نہیں بلکہ بعد میں برپا ہوئی خان جنگی کے سالوں میں بھی جہادی کاروبار خوب پھلا پھولا۔
اچھا صرف افغان جہاد ہی کیوں یہ کشمیری جہاد بھی ہمارے ہاں اچھا خاصا منفعت بخش کاروبار رہا۔ اس تجارت کو ہر دو مواقع پر ’’جہاد‘‘ کا نام دینے کا مقصد یہی تھا کہ اعتراض کرنے والوں کو اسلام دشمن قرار دیا جائے۔ اور ایسا ہی ہوا۔
پچھلے کم از کم 45 برسوں کی تاریخ میں دو جہادوں اور فرقہ پرستی کی لہر (اس میں تنظیموں کا بننا، عسکریت پسندی کے پھیلائو سے لگی آگ، کے نتائج بھی شامل ہیں ) یہ تین مواقع چند سو افراد کو مالدار بنانے میں معاون بنے اور ہزارہار خاندان ان تین مراحل میں بری طرح متاثر ہوئے۔
حرف آخر یہ ہے کہ صحافتی تنظیموں نے پیکا آرڈیننس کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ مجھ قلم مزدور کے نزدیک یہ موقف اور احتجاج کا اعلان درست ہے۔ اہل صحافت کو پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author