نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بکری چور گینگ، سے حاضر "سروس” معززین تک||حیدر جاوید سید

ضمنی سوال یہ ہے کہ ان مظاہروں کی ضرورت طالبہ کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد کیوں آن پڑی؟ ذرائع ابلاغ سے متعلق لوگ تو ضرورت کا پس منظر بخوبی سمجھتے ہیں خیر چھوڑیئے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محکمہ پولیس میں خدمات سرانجام دینے والے عزیزم کامران احمد قمر سے غائبانہ تعارف اتناہی ہے کہ وہ ہمارے محبوب شاعر اصغر گورمانی کے دوست ہیں۔ شاعر بھی ہیں اور نثرنگار بھی۔
ان کی شاعری پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوسکا البتہ نثر پڑھی اور خوب داد دی۔
لیہ پولیس والے معاملے پر ان کی پہلی تحریر ایک ویب سائٹ پر پڑھی تھی اس کا تذکرہ گزشتہ کالم میں کرچکا۔ منگل کے روز انہوں نے ایک خط میں ہمیں یاد کیا۔ وہ خط چونکہ انہوں نے فیس بک پر لگادیا ہے اس لئے اس کے مندرجات پر یہاں کیا عرض کروں ، ان کی خدمت میں عرض کیا تھاکہ آپ کی تحریر شاعرانہ تجلی کا اعلیٰ شاہکار ہے البتہ اس خط میں اُن سوالات کے جواب نہیں ہیں ، جو اٹھائے گئے تھے۔
عزیزم کا خط واقعی اردو اب کا شہ پارہ ہے۔ طالب علم کو توقع نہیں تھی کہ پولیس کی کالی وردی میں ایسی اُجلی تحریر لکھنے والا بھی ہوسکتا ہے۔ پولیس والا شاعر ہوسکتا ہے کیوں نہیں ہمارے ایک اور دوست فضل عباس ظفر شاعر ہیں وہ بھی شاعری کرتے ہیں اور سرائیکی وسیب میں خاصے معروف ہیں۔
کامران احمد قمر کی نثر ان کے وسیع مطالعے سے خصوصاً کلاسیکلی ادب سے لگائو کا زندہ ثبوت ہے۔ مختصراً یہ کہ ایک ویب سائٹ پر شائع تحریر اور ہمارے لئے لکھے گئے خط میں انہوں نے اپنے محکمہ کا دفاع کیا۔
ان کے خیال میں طالبہ کی ویویڈ اور بیان کو ایک خاص رنگ دے کر پیش کیا جارہا ہے۔ سادہ لفظوں میں یہ کہ عورت کارڈ کھیلنے کی کوشش۔ دو باتیں وہی ہیں جو لیہ کی ڈی پی او اور پولیس کیلئے ہمیشہ حاضر سروس معززین ، اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی کے بارے میں کہتے ہیں۔
یہ کالم لکھتے وقت ہمارے سامنے چند ایف آئی آرز اور ویڈیوز ہیں۔ ویڈیوز میں متاثرہ خاندان (پولیس کے مطابق بکری چوری) کا موقف ہے۔ وہ خاندان کہتا ہے کہ بھیڑ بکریوں کا کاروبار ہمارا خاندانی کاروبار ہے۔ ویڈیو بیانات میں طالبہ کے والد اور والدہ نے تقریباً وہی باتیں کہی ہیں جو طالبہ اپنے بیان میں کہہ چکی ہے ۔ گزشتہ روز لیہ کے ایک مقامی اخبار نے ’’انسداد بکری چور‘‘ ایڈیشن خاصے اہتمام سے شائع کیا۔
بکری چوروں کے خلاف ’’دبنگ کارروائی‘‘ پر ڈی پی او صاحبہ کی تحسین کی گئی۔ ایسا لگتاہے کہ لیہ کا سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا جو اب حل ہوا ہے۔ تعریف و تحسین کے اشتہارات شائع کروانے والوں میں معززین شہر و ضلع شامل ہیں۔
جب اتنے سارے معززین کہہ رہے ہوں کہ بکری چوروں کے خلاف ’’دبنگ‘‘ کارروائی کی گئی ہے اور ہم اس پر سلام پیش کرتے ہیں ، تو ہم ایسے عام شہریوں کو معززین کے موقف کا احترام کرنا چاہیے، کیونکہ ’’شہری
اورضلعی‘‘ معززین کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ جھوٹ بولیں اور پھر جھوٹ کی تشہیر پر پیسے بھی خرچ کریں ، البتہ اس خصوصی اشاعت اور اشتہارات کی ضرورت کیوں پڑ گئی یہ سوال ہے۔
دو دن قبل کے کالم میں عرض کرچکا کہ اس سارے معاملے کی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہئے تاکہ اصل بات سامنے آئے۔ جس قسم کے سماجی ماحول میں ہم اور آپ جی رہے ہیں اس میں پولیس سے پنگاہ لینے میں لوگ احتیاط کرتے ہیں ایسے میں کوئی طالبہ کیوں پھڈہ مول لے گی وہ بھی دیہاتی علاقے سے تعلق رکھنے والی۔
بہرطور اب بھی یہ عرض ہے کہ اس سارے معاملے کی آزادانہ تحقیقات بہت ضروری ہیں بالخصوص بکری چور گینگ کے خلاف ہونے والی دبنگ کارروائی کے بعد ڈی پی او صاحبہ کے حق میں معززین کی اشتہاری گواہیاں تو اس امر کی متقاضی ہیں کہ تحقیقات ہوں تاکہ معززین "سرخرو” ہوسکیں۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ڈی پی او لیہ ایک خاتون ہیں اس لئے انہیں نشانہ بنایا جارہا ہے تو اس سے اتفاق نہیں۔ اسی طرح اس بات سے بھی متفق نہیں ہوں کہ طالبہ کےبیان کی آڑ میں عورت کارڈ کھیلا جارہا ہے۔
میرے خیال میں اس کالم میں پولیس کے موقف (مقدمات کا ریکارڈ) کی اشاعت کے بعد معاملہ ختم ہوگیا تھا انصاف جانے اور عوام جانیں۔
مگر بکری چور گینگ کے خلاف دبنگ کارروائی کے حق میں معززین کے اشتہارات دیکھ کر احساس ہواہے کہ معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں ہے کیونکہ افسر کسی محکمے کے ہوں وہ آتے جاتے رہتے ہیں۔ معززین تو مقامی ہوتے ہیں یہ افسروں کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتے۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ رائے بھی موجود ہے کہ پولیس کی ساری کارروائیاں حکمران جماعت کے ایک مقامی بااثر شخص کے ایما پر ہیں اس بااثر شخص اور متاثرہ خاندان میں کیا دشمنی ہے کوئی کاروباری لین دین ہے یا ان کی ’’دبنگ سیاسی حیثیت‘‘ سے انکار کا جرم سرزد ہوا ہے۔
اس کے جواب میں طالبہ کی والدہ کہتی ہیں کہ ہم نے ان (حکمران جماعت کی بااثر شخصیت) کے کہنے پر ووٹ نہیں دیئے اس لئے وہ ہمارے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ ہم اگر اپنے چار اور بغور دیکھیں تو ایسے "دبنگ” سیاسی کردار گلی گلی مل جاتے ہیں جن کی جیبوں میں ذات برادری اور گلی محلہ کے ووٹ ہوتے ہیں۔
ان ووٹوں کی وجہ سے ہی چودھراہٹ قائم رہتی اور چلتی دوڑتی ہے۔ جیبوں میں ووٹوں کے ساتھ اگر خاندانی حیثیت بھی ہو تو مخالف یا انکار کرنے والا انہیں دھرتی پر ناسور لگتا ہے۔
اچھا ویسے ایک سوال ہے اس سارے معاملے میں پولیس کے خلاف کچھ اور مظاہرے بھی ہوئے تھے ان مظاہرین کا موقف تھا کہ پولیس بکری چوروں کا دفاع کررہی ہے، شناخت کیئے جانے کے باوجود ہماری بکریاں ہمیں نہیں دی جارہیں۔ بکری چور "دبنگ” کارروائی میں پکڑے گئے چوری کی بکریاں بھی برآمد ہوئیں۔ بکریوں کی شناخت پریڈ ہوگئی پھر مالکانِ بکریاں مظاہرے پر کیوں مجبور ہوئے؟
اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ ان دو تین مظاہروں کا بطور خاص اہتمام کیا گیا یہ اہتمام مظاہروں کی ریکارڈنگ تک محدود نہیں تھا بلکہ ذرائعابلاغ میں نشرواشاعت کے مرحلے بھی "طے” کروائے گئے۔
ضمنی سوال یہ ہے کہ ان مظاہروں کی ضرورت طالبہ کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد کیوں آن پڑی؟ ذرائع ابلاغ سے متعلق لوگ تو ضرورت کا پس منظر بخوبی سمجھتے ہیں خیر چھوڑیئے۔
جب ڈیڑھ دو درجن معززین جن میں ڈاکٹر،وکیل، سابق کونسلر،حاضر لوکل سیاستدان وغیرہ وغیرہ شامل ہوں اور سبھی یک زبان و اشتہار یہ کہہ رہے ہوں کہ بکری چور گینگ کے خلاف دبنگ کارروائی کئے جانے پر ہم مبارکباد پیش کرتے ہیں تو ہمیں بھی ان معززین کی بات مان لینی چاہیے
اور دل میں اس خیال فاسد کو بالکل بھی داخل نہیں ہونے دینا چاہیے کہ ان معززین کا تھانوں کچہریوں اور پولیس کے دفاتر سے ’’دور دور‘‘ کا بھی کوئی تعلق رہا ہوگا۔
مکرر عرض ہے معززین کے اشتہارات، پولیس کا موقف، طالبہ اور اس کے والدین کے ویڈیو بیان اور حکمران جماعت کی مقامی بااثر شخصیت کا کردار، اور ایک کالم نگار کا یہ لکھنا کہ
” پہلے واسطہ جن سے بھی پڑا وہ الگ بات ہے اب کچھ مختلف قسم کی پولیس افسر سے واسط پڑا ہے”
یہ وہ ساری باتیں ہیں جو اس امر کی متقاضی ہیں کہ اس بکری چوری گینگ کے خلاف ہوئے "دبنگ آپریشن” کی غیرجانبدارانہ تحقیقات ہوں تاکہ حقیقی متاثرین کو انصاف ملے اور معززین کا اقبال مزید "بلند” ہو۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author