حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی کبھی نہیں بلکہ اب تو ایسا لگ رہا ہے کہ ایک خاص مقصد کے طور پر بوئی گئی انتہا پسندی کی فصل کاٹتے بڑھاتے ہم جس بند گلی میں آن پھنسے ہیں اس سے نکلنے کی صورت اس لئے نہیں بن رہی کہ اس قیادت کا فقدان ہے جو لوگوں کا ان کے اپنے ہونے پر یقین پختہ کروا سکے ،
ہر گزرنے والے دن کے ساتھ متشدد رویوں کا پروان چڑھتے چلے جانا خطرے کی گھنٹی نہیں بلکہ گھڑیال کا شور ہے مگر اس کا کیا کریں کہ یہ شور ان بے ہنگم آوازوں میں دب جاتا ہے جو انتہا پسندی کے رزق سے پروان چڑھی ہیں ،
فقیر راحموں کا خیال ہے کہ "جب تک کوئی ایسا راہنما نہیں ملتا جو سیکولر جمہوریت کی طرف اس سماج کی راہنمائی کرے اس وقت تک اصلاح احوال مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے ”
ایک کے بعد ایک المیہ دستک دیتا خون رُلاتا ہے کچھ وقت کیلئے اچھی اچھی باتیں بھی ہوتی ہیں پھر وہی ڈھاک کے تین پات کے مصداق صورتحال بن جاتی ہے،
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کے اس مٹی کے "اصل ” سے کٹنے کی سزائیں بھگت رہے ہیں ہم سبھی اصل تو علم ایثار محبت تھا ہم نے ان کی جگہ نفرت فتوے اور حقارت کو دیدی ،
چند دن قبل سرائیکی وسیب کے تاریخی قصبے تلمبہ کے نواح میں مقدس اوراق کی مبینہ توہین کے الزام میں ایک ذہنی معذور شخص کا جس بے رحمی اور سفاکیت سے ہجوم نے قتل کیا اس کی مذمت کرتے ہوئے گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان یہ کہہ رہے تھے کہ
’’ہجوم کے ہاتھوں قتل کے واقعات کو سختی سے کچل دیں گے‘‘۔ اس سے قبل ان کے مشیر مذہبی ہم آہنگی مولانا طاہر اشرفی نے اپنے دورہ خانیوال کے موقع پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’دعویدار ، وکیل، منصف اور خود ہی جلاد بن جانے کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی ، یہ ایک ملک ہے اور اس کا قانون بھی موجود ہے ‘‘۔
مشیر موصوف پتہ نہیں کس چیز کو قانون کہہ رہے تھے ورنہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ اس ملک میں قانون کی اوقات کیا ہے پھر بھی مان لیتے ہیں کہ وزیراعظم اور ان کے مشیر مذہبی ہم آہنگی کی باتیں اپنی جگہ بجا طور پر درست ہیں۔
لیکن اس طرح کی باتیں تو کچھ عرصہ قبل سانحہ سیالکوٹ کے بعد بھی کی گئی تھیں پھر ان پر عمل کیوں نہیں ہوا؟ (صرف ایک سانحہ سیالکوٹ کیا ہم ہر سانحہ کے بعد اس طرح کی باتوں کا دستر خوان بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں) یہ وہ بنیادی سوال ہے جسے ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا ہے۔
انتہا پسندی سے بنے ماحول اور ’’سٹریٹ جسٹس‘‘ پر موثر ترین رائے وفاقی وزیر اطلاعات فواد حسین چودھری کی ہے ان کے خیال میں ’’جب تک نظام تعلیم کی بنیاد انسان دوستی پر نہیں رکھی جاتی انتہا پسندی کا علاج ممکن نہیں اور یہ کہ قانون اور نظام عدل کو حقیقی طاقت دینا ہوگی‘‘۔
قانون اور نظام عدل پر اب کیا بات کریں البتہ نظام تعلیم کا ہمارے یہاں معاملہ یہ ہے کہ یکساں نظام اور یکساں نصاب تعلیم کے نام پر سیاست کرنے والوں نے کبھی بھی اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا کہ جس نظام اور نصاب میں مقامیت، مقامی تاریخ و تمدن اور سماجی روایات کی جگہ خوابوں کی تجارت پر زور دیا جائے اس سے کوئی بڑی تبدیلی ممکن ہی نہیں۔
یہ بھی المیہ ہے کہ ہمارے ہاں نظام تعلیم اور یکساں نصاب تعلیم ہر دو کے لئے رہنمائی اُن سے لی جاتی ہے جو معاشرے میں انتہا پسندی کے بڑھاوے کے ذمہ دار ہیں
حالانکہ راہنمائی ان اہل دانش سے لی جانی چاہئے جو شرف انسانی پر یقین رکھتے ہیں ، ثانیاً یہ کہ حال ہی میں یکساں نصاب تعلیم کے حوالے سے مختلف طبقات کے تحفظات کو کسی سطح پر بھی زیرغور نہیں لایا گیا۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یکساں نصاب تعلیم کے نام پر ایک مخصوص سوچ کو مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو اس اعتبار سے کسی بھی طرح درست نہیں کہ پاکستانی فیڈریشن مختلف الخیال طبقات اور اقوام پر مشتمل ہے۔ نظام تعلیم ہو، نصاب تعلیم یا نظام حکومت، تینوں میں بہرصورت یہ مدنظر رکھا جانا ازبس ضروری ہوتا ہے کہ کسی ایک طبقے یا قوم کی بالادستی قائم نہ ہونے پائے تاکہ دیگر طبقات اور اقوام تحفظات کا شکار نہ ہوں۔
تلمبہ کے نواح میں پیش آنے والے حالیہ افسوسناک واقعہ کا ایک پہلو یہ بھی سامنے آرہا ہے کہ جس مسجد میں یہ واقعہ پیش آیا اس پر ایک اور مقامی مساجد کے ذمہ داران قبضہ کرنے کے خواہش مند ہیں، کہا جارہا ہے کہ چونکہ یہ مسجد برلب سڑک ہے اس لئے کچھ لوگ اسے اپنا مرکز بنانے کے لئے کافی عرصہ سے کوشاں ہیں مگر مسجد بنانے والا خاندان اس پر راضی نہیں۔ حالیہ سانحہ کی دیگر وجوہات اور ظاہری الزام کے ساتھ یہ بات بھی سامنے آئی ہے تو لازمی ہے کہ تحقیقات کے دوران اسے بھی سامنے رکھا جائے تاکہ اصل حقائق مزید دوچند ہوسکیں۔
بلاشبہ حالیہ واقعہ نے ایک بار پھر اس رائے کی اہمیت بڑھادی ہے کہ ’’اگر انتہا پسندی اور سٹریٹ جسٹس‘‘ کی سنجیدگی کے ساتھ حوصلہ شکنی نہ کی گئی تو بگاڑ مزید بڑھے گا۔
افسوس اس بات پر ہے کہ کسی بھی المناک واقعہ کے رونما ہونے کے بعد ہر سطح پر اس کی مذمت کی جاتی ہے۔ اسے انسانیت اور اسلام کے خلاف سازش بھی قرار بھی دیا جاتا ہے مگر کبھی بھی اس امر کو مدنظر رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ دستور پاکستان میں دی گئی شہری و مذہبی آزادیوں سے متصادم نظریہ کی ترویج اور تنظیم سازی کیسے ہوپائی ہے؟
معاشرے میں موجود انتہا پسندی کی ذمہ داری تیسرے فوجی حکمران کے عہد کے معاملات پر ڈال کر یکسر بری الذمہ نہیں ہوا جاسکتا۔
یہ بجا ہے کہ اُس دور میں ریاستی سطح پر انتہا پسندوں کی سرپرستی کی گئی مگر 1988ء سے اب تک کے درمیانی 33 برسوں کے دوران اقتدار میں آنے والی حکومتوں نے اصلاح احوال کے لئے اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کیوں برتی؟
آخر کب تک اپنے غیرذمہ دارانہ رویوں کا ملبہ ماضی کے ایک فوجی حکمران کی پالیسیوں اور عہد پر ڈال کر زمینی حقائق کو نظرانداز کیا جاتا رہے گا۔
اہل اقتدار ہوں، سیاسی جماعتیں یا فروہ وارانہ مذہبی عقائد پر تنظیم سازی کے ساتھ سرگرم عمل شخصیات سبھی کو ٹھنڈے دل سے سوچنا ہوگا کہ یہ انتہا پسندی اور سٹریٹ جسٹس معاشرے کو جس سمت دھکیل رہے ہیں اس کا انجام کیا ہوگا؟
یقیناً حکومت کو اپنی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری پوری کرنا ہوگی مگر کیا ذمہ داری صرف حکومت کی ہے؟
اس سوال کا جواب بہت سادہ ہے وہ یہ کہ تحمل و برداشت اور شرف انسانی کی نعمتوں سے مالامال معاشرے کی تشکیل کے لئے ہر شخص کو اپنے حصے کا کردار ادا کرنا چاہیے۔
یہ بھی کہ کسی المناک واقعہ کے ظہور کے بعد یہ کہہ دینا کافی نہیں ہوتا کہ ’’اگر فلاں واقعہ کے ذمہ داران کو سزا مل جاتی تو یہ سانحہ نہ ہونے پاتا‘‘۔
سوال یہ ہے کہ اُس فلاں واقعہ کے بعد کیا پاکستانی سماج کے لوگوں نے اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی شعوری کوشش کی؟
بدقسمتی سے نہیں کی جاتی اسی لئے اگلا واقعہ رونما ہوتا ہے۔ ہماری رائے میں اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ حکومت اور مختلف الخیال شخصیات مل بیٹھیں اور معاشرے کو انتہا پسندی کی دلدل سے نکالنے کے ساتھ سٹریٹ جسٹس کے بڑھتے ہوئے رجحان کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کریں تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہونے پائے۔
حرف آخر یہ ہے کہ حبس سے بنے ماحول میں جلنے کڑھنے کی بجائے محبتوں ایثار اور خودشناسی کے نغمے الاپنا ہوں گے تب جاکر کہیں سرمدی نغمہ ہماری شناخت بن پائے گا
سرمدی نغمہ جو انسان سازی کا درس اول ہے۔
ہر گزرنے والے دن کے ساتھ متشدد رویوں کا پروان چڑھتے چلے جانا خطرے کی گھنٹی نہیں بلکہ گھڑیال کا شور ہے مگر اس کا کیا کریں کہ یہ شور ان بے ہنگم آوازوں میں دب جاتا ہے جو انتہا پسندی کے رزق سے پروان چڑھی ہیں ،
فقیر راحموں کا خیال ہے کہ "جب تک کوئی ایسا راہنما نہیں ملتا جو سیکولر جمہوریت کی طرف اس سماج کی راہنمائی کرے اس وقت تک اصلاح احوال مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے ”
ایک کے بعد ایک المیہ دستک دیتا خون رُلاتا ہے کچھ وقت کیلئے اچھی اچھی باتیں بھی ہوتی ہیں پھر وہی ڈھاک کے تین پات کے مصداق صورتحال بن جاتی ہے،
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کے اس مٹی کے "اصل ” سے کٹنے کی سزائیں بھگت رہے ہیں ہم سبھی اصل تو علم ایثار محبت تھا ہم نے ان کی جگہ نفرت فتوے اور حقارت کو دیدی ،
چند دن قبل سرائیکی وسیب کے تاریخی قصبے تلمبہ کے نواح میں مقدس اوراق کی مبینہ توہین کے الزام میں ایک ذہنی معذور شخص کا جس بے رحمی اور سفاکیت سے ہجوم نے قتل کیا اس کی مذمت کرتے ہوئے گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان یہ کہہ رہے تھے کہ
’’ہجوم کے ہاتھوں قتل کے واقعات کو سختی سے کچل دیں گے‘‘۔ اس سے قبل ان کے مشیر مذہبی ہم آہنگی مولانا طاہر اشرفی نے اپنے دورہ خانیوال کے موقع پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’دعویدار ، وکیل، منصف اور خود ہی جلاد بن جانے کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی ، یہ ایک ملک ہے اور اس کا قانون بھی موجود ہے ‘‘۔
مشیر موصوف پتہ نہیں کس چیز کو قانون کہہ رہے تھے ورنہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ اس ملک میں قانون کی اوقات کیا ہے پھر بھی مان لیتے ہیں کہ وزیراعظم اور ان کے مشیر مذہبی ہم آہنگی کی باتیں اپنی جگہ بجا طور پر درست ہیں۔
لیکن اس طرح کی باتیں تو کچھ عرصہ قبل سانحہ سیالکوٹ کے بعد بھی کی گئی تھیں پھر ان پر عمل کیوں نہیں ہوا؟ (صرف ایک سانحہ سیالکوٹ کیا ہم ہر سانحہ کے بعد اس طرح کی باتوں کا دستر خوان بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں) یہ وہ بنیادی سوال ہے جسے ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا ہے۔
انتہا پسندی سے بنے ماحول اور ’’سٹریٹ جسٹس‘‘ پر موثر ترین رائے وفاقی وزیر اطلاعات فواد حسین چودھری کی ہے ان کے خیال میں ’’جب تک نظام تعلیم کی بنیاد انسان دوستی پر نہیں رکھی جاتی انتہا پسندی کا علاج ممکن نہیں اور یہ کہ قانون اور نظام عدل کو حقیقی طاقت دینا ہوگی‘‘۔
قانون اور نظام عدل پر اب کیا بات کریں البتہ نظام تعلیم کا ہمارے یہاں معاملہ یہ ہے کہ یکساں نظام اور یکساں نصاب تعلیم کے نام پر سیاست کرنے والوں نے کبھی بھی اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا کہ جس نظام اور نصاب میں مقامیت، مقامی تاریخ و تمدن اور سماجی روایات کی جگہ خوابوں کی تجارت پر زور دیا جائے اس سے کوئی بڑی تبدیلی ممکن ہی نہیں۔
یہ بھی المیہ ہے کہ ہمارے ہاں نظام تعلیم اور یکساں نصاب تعلیم ہر دو کے لئے رہنمائی اُن سے لی جاتی ہے جو معاشرے میں انتہا پسندی کے بڑھاوے کے ذمہ دار ہیں
حالانکہ راہنمائی ان اہل دانش سے لی جانی چاہئے جو شرف انسانی پر یقین رکھتے ہیں ، ثانیاً یہ کہ حال ہی میں یکساں نصاب تعلیم کے حوالے سے مختلف طبقات کے تحفظات کو کسی سطح پر بھی زیرغور نہیں لایا گیا۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یکساں نصاب تعلیم کے نام پر ایک مخصوص سوچ کو مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو اس اعتبار سے کسی بھی طرح درست نہیں کہ پاکستانی فیڈریشن مختلف الخیال طبقات اور اقوام پر مشتمل ہے۔ نظام تعلیم ہو، نصاب تعلیم یا نظام حکومت، تینوں میں بہرصورت یہ مدنظر رکھا جانا ازبس ضروری ہوتا ہے کہ کسی ایک طبقے یا قوم کی بالادستی قائم نہ ہونے پائے تاکہ دیگر طبقات اور اقوام تحفظات کا شکار نہ ہوں۔
تلمبہ کے نواح میں پیش آنے والے حالیہ افسوسناک واقعہ کا ایک پہلو یہ بھی سامنے آرہا ہے کہ جس مسجد میں یہ واقعہ پیش آیا اس پر ایک اور مقامی مساجد کے ذمہ داران قبضہ کرنے کے خواہش مند ہیں، کہا جارہا ہے کہ چونکہ یہ مسجد برلب سڑک ہے اس لئے کچھ لوگ اسے اپنا مرکز بنانے کے لئے کافی عرصہ سے کوشاں ہیں مگر مسجد بنانے والا خاندان اس پر راضی نہیں۔ حالیہ سانحہ کی دیگر وجوہات اور ظاہری الزام کے ساتھ یہ بات بھی سامنے آئی ہے تو لازمی ہے کہ تحقیقات کے دوران اسے بھی سامنے رکھا جائے تاکہ اصل حقائق مزید دوچند ہوسکیں۔
بلاشبہ حالیہ واقعہ نے ایک بار پھر اس رائے کی اہمیت بڑھادی ہے کہ ’’اگر انتہا پسندی اور سٹریٹ جسٹس‘‘ کی سنجیدگی کے ساتھ حوصلہ شکنی نہ کی گئی تو بگاڑ مزید بڑھے گا۔
افسوس اس بات پر ہے کہ کسی بھی المناک واقعہ کے رونما ہونے کے بعد ہر سطح پر اس کی مذمت کی جاتی ہے۔ اسے انسانیت اور اسلام کے خلاف سازش بھی قرار بھی دیا جاتا ہے مگر کبھی بھی اس امر کو مدنظر رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ دستور پاکستان میں دی گئی شہری و مذہبی آزادیوں سے متصادم نظریہ کی ترویج اور تنظیم سازی کیسے ہوپائی ہے؟
معاشرے میں موجود انتہا پسندی کی ذمہ داری تیسرے فوجی حکمران کے عہد کے معاملات پر ڈال کر یکسر بری الذمہ نہیں ہوا جاسکتا۔
یہ بجا ہے کہ اُس دور میں ریاستی سطح پر انتہا پسندوں کی سرپرستی کی گئی مگر 1988ء سے اب تک کے درمیانی 33 برسوں کے دوران اقتدار میں آنے والی حکومتوں نے اصلاح احوال کے لئے اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کیوں برتی؟
آخر کب تک اپنے غیرذمہ دارانہ رویوں کا ملبہ ماضی کے ایک فوجی حکمران کی پالیسیوں اور عہد پر ڈال کر زمینی حقائق کو نظرانداز کیا جاتا رہے گا۔
اہل اقتدار ہوں، سیاسی جماعتیں یا فروہ وارانہ مذہبی عقائد پر تنظیم سازی کے ساتھ سرگرم عمل شخصیات سبھی کو ٹھنڈے دل سے سوچنا ہوگا کہ یہ انتہا پسندی اور سٹریٹ جسٹس معاشرے کو جس سمت دھکیل رہے ہیں اس کا انجام کیا ہوگا؟
یقیناً حکومت کو اپنی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری پوری کرنا ہوگی مگر کیا ذمہ داری صرف حکومت کی ہے؟
اس سوال کا جواب بہت سادہ ہے وہ یہ کہ تحمل و برداشت اور شرف انسانی کی نعمتوں سے مالامال معاشرے کی تشکیل کے لئے ہر شخص کو اپنے حصے کا کردار ادا کرنا چاہیے۔
یہ بھی کہ کسی المناک واقعہ کے ظہور کے بعد یہ کہہ دینا کافی نہیں ہوتا کہ ’’اگر فلاں واقعہ کے ذمہ داران کو سزا مل جاتی تو یہ سانحہ نہ ہونے پاتا‘‘۔
سوال یہ ہے کہ اُس فلاں واقعہ کے بعد کیا پاکستانی سماج کے لوگوں نے اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی شعوری کوشش کی؟
بدقسمتی سے نہیں کی جاتی اسی لئے اگلا واقعہ رونما ہوتا ہے۔ ہماری رائے میں اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ حکومت اور مختلف الخیال شخصیات مل بیٹھیں اور معاشرے کو انتہا پسندی کی دلدل سے نکالنے کے ساتھ سٹریٹ جسٹس کے بڑھتے ہوئے رجحان کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کریں تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہونے پائے۔
حرف آخر یہ ہے کہ حبس سے بنے ماحول میں جلنے کڑھنے کی بجائے محبتوں ایثار اور خودشناسی کے نغمے الاپنا ہوں گے تب جاکر کہیں سرمدی نغمہ ہماری شناخت بن پائے گا
سرمدی نغمہ جو انسان سازی کا درس اول ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر