اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

” کوہ خیسور تیرے ویران قلعے ” ( تیسری قسط )||رمیض حبیب

آج ان مندروں کے روشن دانوں میں چمگادڑوں نے گھونسلے بنا رکھے لیکن یہاں پر بھی کبھی قہقہے گونجاکرتے تھے ان عمارتوں کے بے چراغ طاقچوں میں بھی کبھی سرمئی شام کےسائے گہرے پڑتے ہی مٹی کے دیپ جل اٹھا کرتے تھے۔

 رمیض حبیب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہندو دھرم کے ماننے والے قلعہ ٹل اوٹ اور بل اوٹ کو دیوتوں کا کوٹ پکارتے ہیں جب کے مقامی مسلمان انکو کافروں کا کوٹ کہہ کر پکارتے ہیں۔

ہندوؤں کے مطابق زمانہ قبل از قدیم میں کورؤں اور پانڈوں کے درمیان ایک بہت بڑی خونریز جنگ ہوئی تھی ” مہا بھارت ” کہا جاتا ہے۔ اس جنگ میں پانڈو فتح یاب ہوئے اور کورؤں کا نام و نشان مٹ گیا تھا یوں پانڈو پورے خطے کے بلاشریک حکمران بن گئے تھے۔

روایت ہے کہ اسی عہد میں پانڈو قبیلے کے کچھ افراد دریائے سندھ کے کنارے کوہ خیسور کی پہاڑی پر آکر آباد ہو گئے تھے اسی لیے کافر کوٹ کو ” دیوتاؤں کا کوٹ ” بھی کہا جانے لگا۔

بل اوٹ اور ٹل اوٹ کے قلعوں کی دفاعی پوزیشن کو مستحکم کرنے کیلئے دونوں قلعوں کے درمیان زمینی رابطے کے علاوہ مواصلاتی رابطہ دن کو نقارے بجا کر اور کو قلعوں کی برجیوں اور دیواروں پر روشنی جلا کر بحال رکھا جاتا تھا۔

ڈاکٹر لیاقت علی اپنی کتاب
” تاریخ میانوالی ” میں لکھتے ہیں
ٹل اوٹ قلعے کے صدر دروازے کے سامنے چند ایک قبریں ہیں جو قلعے کے بھاری بھر کم پتھروں سے بنائی گئ ہیں ان قبروں سے متصل ایک مسجد ہے ۔ جسکی چوڑائی زیادہ نہیں قبلہ کی سمت مصلیٰ بنایا گیا ہے یہ مسجد سطح زمین سے تین چار فٹ بلند ہے ۔ جو قلعے کے اکھڑے ہوئے پتھروں سے بنائی گئ ہے۔ راجہ ٹل کی دادالسلطنت میں واقع قلعہ ٹل اوٹ کو دریائے کرم سے نکال کر پانی مہیا کیا جاتا تھا۔

نور احمد آفریدی کی کتاب تاریخ ملتان جلد اول میں مزکور ہے کہ حضرت امیر معاویہ رض کے حکم سے اس شہر پر حملہ کیا گیا۔

اس طرح ابن خلدون طبری سوداہلیت ڈاؤسن اپنی تصانیف میں لکھتے ہیں۔ کہ مہلب ابن ابی صفرہ رض کے لشکر نے اس پر حملہ کیا۔ محاصرے کے دوران نہر کا رخ موڑ کر پانی بند کر دیا اور فتح پائی ۔ 1 اصحابی رسول کی قبر مبارک اور مسجد کی موجودگی اس خیال کو نقوبت دیتی ہے کہ حملہ آور واقع مسلمان تھے۔

راجہ ٹل اپنے زمانے کا نا قابل تسخیر حکمران تھا وہ اپنے جاہ جلال میں لاثانی بادشاہ تھا اگرچہ حملہ آوروں نے صدیوں پہلے ان قلعوں کا نام و نشان مٹا ڈالا تھا لیکن جامنی پہاروں پر بکھری خستہ حال بھربھری اینٹوں کی شکل میں کٹنے شانوں والے یہ ویران مندر آج بھی یہی چغلی کھا رہے ہیں کہ یہ کبھی کسی کے دل کا ڈیرہ ہوا کرتے تھے۔

 

کھردری اینٹوں کی زمین پر قائم کمرہ نما مندر جن کے اندر ایک عجیب سی تاریکی اور وحشت کا راج ہے کسی زمانے میں یہاں پر راج کیا کرتا تھا۔

آج ان مندروں کے روشن دانوں میں چمگادڑوں نے گھونسلے بنا رکھے لیکن یہاں پر بھی کبھی قہقہے گونجاکرتے تھے ان عمارتوں کے بے چراغ طاقچوں میں بھی کبھی سرمئی شام کےسائے گہرے پڑتے ہی مٹی کے دیپ جل اٹھا کرتے تھے۔

اردگرد بکھری ٹھیکریوں کے بیچ سر جھکائے کھڑے ان ننھے پوجا گھروں کے کسی کونے میں اپنے بھولے چہرےپر بڑی بڑی سرمگیں آنکھوں اور لبوں پر دیوتاؤں کی مسکراہٹ بکھیرے یہاں کے باسیوں کا بھگوان کرشن جی اپنی بنسی اٹھائے کہیں کھڑا نظر آتا تھا۔

 

رمیض حبیب کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: