نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یہ لیہ ہے یا سرینگر؟||حیدر جاوید سید

لیہ میں ترقی پسند سوچ کے حامل محنت کشوں، طلبا اور سیاسی کارکنوں نے اپنی ذمہ داری کیوں پوری نہ کی یہ سوال میں اپنے ان دوستوں سے پوچھتا رہوں گا جو اس شہر کی علمی سیاسی اور سماجی دانش کا چہرہ سمجھے جاتے ہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چند دن قبل اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی کہ "لیہ میں پولیس گردی کا شکار ایک خاندان کی جواں سال صاحبزادی نے ڈی پی او سے جب یہ شکوہ کیا کہ پولیس نے چادر اور چاردیواری کے تحفظ کو پامال کرتے ہوئے خواتین پر تشدد کیا اور ان کی بکریاں اٹھاکر لے گئی ہے ” تو ڈی پی او نے جواب دیا ’’پولیس تمہیں تو اٹھاکر نہیں لے گئی نا‘‘۔
طالبہ اور ڈی پی او کے اس مکالمے کو طالبہ کے موقف کے طور پر ایک ویڈیو میں ریکارڈ کرکے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیا گیا۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ ڈی پی او کے حکم پر تھانہ کوٹ سلطان نے مذکورہ طالبہ کے 2بھائیوں کے خلاف 5جھوٹے مقدمات درج کرلئے۔ 5دن تک طالبہ کے بھائی پولیس تشدد اور خاندان ذہنی ٹارچر کا نشانہ بنا۔
اسلام آباد میں مقیم لیہ سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی روئف کلاسرا نے اتوار کو شائع ہونے والے اپنے کالم میں لیہ میں پولیس گردی کی تفصیلات رقم کیں۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ میں جب سرائیکی وسیب کو مقبوضہ سرائیکی وسیب لکھتا بولتا ہوں تو میرے بہت سارے دوست اس پر شدید ناراض ہوتے ہیں۔ یقین کیجئے خوشی یا سیاسی فائدے کے لئے نہیں یہ لکھتا بلکہ جب ہم سرائیکی وسیب میں تعینات ہونے والے ضلعی انتظامی یا پولیس افسر اور دیگر شعبوں کے افسران کا غیرانسانی رویہ دیکھتے سہتے ہیں تو ایسا ہی لگتا ہے کہ سرائیکی وسیب والے مقبوضہ علاقے کے باشندے ہیں۔
لیہ کے حالیہ واقعہ کی ابتدائی خبروں اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ویڈیو کے بعد ایک سرائیکی وسیب زادے کے طور پر پتہ نہیں مجھے یہ خوش فہمی کیوں تھی کہ وسیب کے چھوٹے شہروں میں تعلیم اور سیاسی شعور کے حوالے سے بہتر مقام کے حامل لیہ کے باشعور شہری سیاسی کارکن اور محنت کش اس پولیس گردی کے خلاف نہ صرف احتجاج کریں گے بلکہ اس وقت تک احتجاج کے مقام سے نہیں اٹھیں گے جب تک لیہ کو مقبوضہ علاقے کا ضلع سمجھ کر قابض سوچ کے حاملین کو پنجاب حکومت اس شہر سے واپس نہیں بلالیتی۔
روئف کلاسرا کے کالم نے میری خوش فہمی دور کردی۔
لیہ میں ترقی پسند سوچ کے حامل محنت کشوں، طلبا اور سیاسی کارکنوں نے اپنی ذمہ داری کیوں پوری نہ کی یہ سوال میں اپنے ان دوستوں سے پوچھتا رہوں گا جو اس شہر کی علمی سیاسی اور سماجی دانش کا چہرہ سمجھے جاتے ہیں۔
یہاں تلخ سوال ڈی پی او لیہ سے بھی ہے وہ یہ کہ والدین کے ساتھ ان سے ملاقات کے لئے آنے والی بی ایس کی طالبہ کو جو جواب انہوں نے دیا اگر یہی جواب کسی معاملے میں کوئی پولیس افسر ان کے خاندان کی طالبہ یا خاتون کو دے تو ان کے جذبات کیا ہوں گے؟
یہ کیسے ہوا کہ طالبہ کی ویڈیو وائرل ہونے پر تھانہ کوٹ سلطان نے اس کے بھائیوں کے خلاف 5 مقدمے درج کرلئے۔ کیا ڈی پی او سے پولیس گردی کی شکایت اور اس کے جواب پر سوال اٹھانا توہین مقدسات میں شامل ہوگیا؟
روئف کلاسرا نے لیہ کا ہی ایک دوسرا المناک واقعہ بھی لکھا جس میں پولیس نے ایک مفرور ملزم کو گرفتاری پیش کرنے کے لئے اس کے خاندان کی سات خواتین کو جن میں ایک بچی اور ایک حاملہ خاتون بھی شامل تھی، حوالات میں بند کردیا۔
اس پولیس گردی کا پردہ چاک ہونے پر چار خواتین کے خلاف کارسرکار میں مداخلت کا پرچہ درج کرلیا۔
لیہ دور ’’راجھستان‘‘ میں واقع کوئی غیرترقی یافتہ قصبہ نہیں، ملتان سے دو گھنٹے کی مسافت پر ایک شہر ہے۔ زندگی کی ساری جدید سہولیات ہیں اس شہر میں، محنت کشوں کی منظم تنظیم سازی کی وجہ سے عشروں سے ترقی پسندوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے یہ شہر۔
پولیس گردی صرف لیہ میں ہی نہیں ہوتی بڑے شہر بھی اس سے محفوظ نہیں۔ میں خود 2018ء میں لاہور پولیس کی غنڈہ گردی اور خاندان سمیت تین گھنٹے یرغمال بنائے رکھنے کی اذیت بھگت چکا ہوں۔ لاہور پریس کلب اور پی یو جے کے احتجاج پر آئی جی اور دوسرے متعلقہ حکام نے جو وعدے کئے وہ ایفا نہیں ہوئے یہاں تک غنڈہ گردی کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلامف مقدمہ تک درج نہ کیا گیا۔
پچھلے چند برسوں میں پولیس افسران کی نئی بھرتی میں چند ایک بااخلاق افسروں کو دیکھ کر ہمارے بہت سارے دوستوں کا خیال تھا کہ پنجاب پولیس میں تبدیلی آئے گی۔
یہ خیال ’’دھول‘‘ ہوا وجہ یہ ہے کہ یہ ساری خوش اخلاقی بڑے شہروں تک محدود رہتی ہے جہاں ہر شخص کا کوئی نہ کوئی تعلق نکل آتا ہے کسی بڑے افسر سے۔ لیکن یہی ظاہری طور پر خوش اخلاق دیکھائی دینے والے جب صوبائی دارالحکومت سے طویل فاصلے پر کہیں تعینات ہوتے ہیں تو پھر بقول فقیر راحموں خود کو "سرینگر کا ڈی پی او” سمجھنے لگتے ہیں۔
لیہ کے جس معاملہ کا ابتدائی سطور میں ذکر کیا اس کا پس منظر یہ ہے کہ بی ایس کی طالبہ کے بھائیوں پر بکری چوری کا الزام تھا۔ پولیس ان کے گھر میں گھسی، طالبہ اس کی والدہ، بھائیوں اور بہنوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ جاتے ہوئے 30 بکریاں بھی اپنی گاڑیوں میں مال غنیمت کے طور پر لوٹ کر لے گئی۔
یاد رہے کہ خواتین اور بچوں پر تشدد کرنے والے مرد پولیس اہلکار تھے اصولی اور قانونی طور پر گھر میں داخلے کے وقت لیڈی پولیس اور داخلہ وارنٹ دونوں کا ہونا ضروری تھا
مگر ’’مقبوضہ علاقوں‘‘ میں قانون، اصول اور اخلاقیات پر عمل کون کرتا ہے۔
والدین کے ساتھ ڈی پی او سے شکایت کرنے کا جو جواب ڈی پی او نے دیا وہ شرمناک حد تک قابل مذمت ہے لیکن مذمت کون کرے گا۔
اس سے اگلا اقدام پانچ جھوٹے پرچوں کا اندراج ہے۔ افسوس کہ وزیراعلیٰ نے کوئی نوٹس لیا نہ منصفوں تک خبر پہنچی کہ کوئی نوٹس لیتا۔ اور کچھ نہیں تو لیہ کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج صاحب کو ہی انسانی حقوق کی اس پامالی پر نوٹس لیناچاہیے تھا۔
ساعت بھر کے لئے رُکیئے اور بتایئے کہ اب اگر یہ کہوں کہ لیہ مقبوضہ وسیب کا شہر ہے تو میری حب الوطنی اور ایمان مشکوک تو نہیں ہوجائیں گے۔
وجہ یہ ہے کہ یہ واقعہ اگر لاہور یا راولپنڈی میں ہوتا تو نہ صرف انصاف کے "گھڑیال ” بج چکے ہوتے بلکہ ہمارے آزاد ذرائع ابلاغ بھی خبر دیتے۔
اور اگر لیہ سندھ کا ضلع ہوتا تو اب تک گورنر راج نافذ کرنے کے مطالبات کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا کے سیاپا فروش محترمہ بینظیر بھٹو کی قبر کا ٹرائل کررہے ہوتے۔
لیہ چونکہ سرائیکی وسیب میں ہے، سرائیکی وسیب رنجیت سنگھ کے دور سے پنجاب کے قبضے میں ہے اس لئے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
معاف کیجئے گا، وزیراعلیٰ اور آئی جی پنجاب صاحب کیا ہم وسیب زادے یو پوچھ سکتے ہیں کہ یہ ڈی پی او اب تک لیہ کی گردن پر کیوں سوار ہے۔ کسی نے تحقیقات کروائیں کہ ڈی پی او کی ’’بدکلامی‘‘ پر احتجاج کرنے والی طالبہ کے بھائیوں کے خلاف تھانہ کوٹ سلطان میں 5 مقدمات کیسے درج کرلئے گئے؟
ان مقدمات کے درج کرنے کا حکم کس کا تھا یا کس نے ڈی پی او کی خوشنودی کے لئے اختیارات سے تجاوز کیا؟
مجھے امید نہیں کہ اس سوال کا جواب مل سکے۔ طالبہ کو بھی شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس کے یا اس کے بھائیوں کے خلاف تھانہ کوٹ سلطان والوں کو توہین مقدسات کا پردہ درج کرنے کا خیال نہیں آیا حالانکہ یہ ان دنوں "عام کاروبار” ہے اس ملک میں۔
حرف آخر یہ ہے کہ کم از کم لیہ کی ضلعی بار ایسوسی ایشن کو تو دو قدم آگے بڑھ کر اس پولیس گردی کے خلاف ہائیکورٹ سے رجو کرنا چاہئے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات نہ ہونے پائیں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author