مئی 13, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

فیض احمد فیض کی111ویں سالگرہ||ظہور دھریجہ

ہم نے ان کو نمائش کا وزٹ کرایا۔ ایک ایک فن پارے کو انہوں نے توجہ سے دیکھا اور مجھے انہوں نے تاریخی جملہ بولا جو آج بھی میرے ذہن سے محو نہیں ہو سکا، فیض احمد فیض نے کہا’’ انصاری صاحب! یہ ملتان کی آرٹس کونسل ہے اس کے فن پاروں میں ملتان نظر آنا چاہئے‘‘۔

ظہور دھریجہ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیض احمد فیض کی 111ویں سالگرہ منائی گئی ہے، فیض احمد فیض ایک شخص نہیں ایک عہد کا نام ہے، انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے پوری دنیا کو متاثر کیا مگر افسوس کہ سرکاری سطح پر کسی تقریب کا اہتمام نہ ہوا ۔ عوامی سطح پر بھی ادبی شعور بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے، لوگ ویلنٹائن ڈے جیسی خرافات میں نظر آتے ہیں مگر ادبی ،ثقافتی شعور سے ماورا ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حاکم طبقہ فیض کی زندگی میں ان سے کتراتا رہا ،وفات کے بعد بھی قربتیں پیدا نہیں ہو سکیں ، فیض کاجرم یہ ہے کہ محبت کے ساتھ انہوں نے انقلاب کی بھی بات کی ، غم جانا ں کے ساتھ غم روزگار کا تذکرہ وہ کرتے رہے، حالانکہ یہی بات ان کی بڑائی اور عظمت کی دلیل ہے۔ فیض نے اپنی شاعری کے ذریعے ایک زمانے کو متاثر کیا، ان کا اپنا اسلوب اور اپنا انداز تھا،
محبوب کے ساتھ مزدور کا ذکر کر کے انہوں نے اپنی شاعری کو لافانی بنا دیا۔ فیض احمد فیض1911ء کو کالا قادر (اب فیض نگر) ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، والد چوہدری سلطان محمد خان بیرسٹر تھے ۔1915ء میں تعلیم کا آغاز حفظ قرآن سے ہوا، 1927ء میں مشن ہائی سکول سیالکوٹ سے میٹرک کیا، علامہ اقبال کے استاد شمس العلما مولوی سید میر حسن سے فارسی اور عربی میں دستگاہ حاصل کی ۔ 1931ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور عربی میں بی اے (آنرز) کیا۔ 1933ء میں اورینٹل کالج لاہور سے عربی میں ایم اے کیا۔ 1935ء میں ایم اے اوکالج امرتسر میں انگریزی کے لیکچرار مقرر ہوئے۔ 1936ء میں سجاد ظہیر اور صاحبزادہ محمود الظفر کے ساتھ ملکر ’’انجمن ترقی پسند مصنفین‘‘ کی بنیاد ڈالی۔
1938ء میں ماہنامہ’’ادب لطیف‘‘ کے مدیر رہے۔ فیض احمد فیض 1940ء میں ہیلی کالج آف کامرس لاہور میں انگریزی کے لیکچرار مقرر ہوئے ، 1941ء میں ایلس جارج سے اسلامی شریعت کے مطابق نکاح شیخ محمد عبداللہ نے پڑھایا۔ 1942ء میں بطور کیپٹن فوج میں ملازمت اختیار کی اور فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے وابستہ ہوئے، 1943ء میں میجر ، 1944ء میں لیفٹیننٹ کرنل ، 1946ء کو فوج سے مستعفی ہو کر لاہور واپس آ گئے۔ فیض احمد فیض قیام پاکستان کے بعد 1947ء تا 1958ء پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے تحت شائع ہونے والے روزنامہ ’’پاکستان ٹائمز‘‘ امروز اور ہفت روزہ ’’لیل و نہار‘‘ کے مدیر اعلیٰ رہے، 1948ء میں مزدور رہنما کی حیثیت سے عالمی ادارۂ محنت کے اجلاس منعقدہ سان فرانسسکو (امریکا) ،1949ء میں عالمی ادارہ محنت کے اجلاس منعقدہ جنیوا میں شرکت کی ، 1950ء میں پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے صدر منتخب ہوئے۔
1951ء میں سیفٹی ایکٹ کے تحت 9مارچ کو گرفتارہوئے اور راولپنڈی سازش کیس کے الزام میں چار سال تک مختلف جیلوں میں مقید رہے۔ 1955ء میں 20 اپریل کو چار سالہ قید سے رہائی ملی ، 1958ء میں تاشقند کا سفر کیا، اسی سال دسمبر 1958ء میں دوسری بار سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار ہوئے۔
روزنامہ ’’پاکستان ٹائمز‘امروز اور لیل و نہار‘‘ مارشل لاء حکام نے اپنے قبضے میں کر لئے۔ 1959ء میں ان کی فلم ’’جاگو ہوا سویرا‘‘ نمائش کیلئے پیش ہوئی ، اسی سال پاکستان آرٹس کونسل کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔ 1962ء میں روس کا سب سے بڑا ’’لینن امن انعام ‘‘ ملا۔ 1952ء تا 1964ء انگلستان بعد ازاں سیاحت ممالک اسلامیہ الجزائر ، مصر ، لبنان، شام ، عراق اور ہنگری اور دوسرے یورپی ممالک کا سفر اور متعدد کانفرنسوں میں شرکت کی ۔ 1978ء تا 1982ء ایفرو ایشیائی سہ ماہی مجلہ ’’لوٹس‘‘ بیروت کے مدیر رہے‘‘۔ 1983ء میں وطن واپس آ ئے اور لاہور میں مستقل سکونت اختیار کی۔ فیض احمد فیض نے فلم انڈسٹری کیلئے بھی کام کیا، ان کا کلام محمد رفیع، ملکہ ترنم نور جہاں ، مہدی حسن ، آشا بھوسلے اور جگجیت سنگھ جیسے گلوکاروں کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا جبکہ انہوں نے درجنوں فلموں کیلئے غزلیں ، گیت اور مکالمے بھی لکھے ، آپکے شعری مجموعے نقش فریادی، دست صبا، زندان نامہ ، دست تہ سنگ، سدادئی سینا، قرض دوستاں ، میرے دل میرے مسافر،سارے سخن ہمارے ، (یہ سب مجموعے اب ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کے نام سے یک جلد شائع ہو گئے ہیں)۔
میزان (تنقیدی مضامین )، صلیبیں میرے دریچے میں (خطوط)، متاع لوح و قلم (نثر)، ہماری قومی ثقافت (نثر)، مہ و سال آشنائی (یاداشتیں ) شامل ہیں ۔ 1984ء میں 18 نومبر کو اپنے گائوں کالا قادر (فیض نگر) سیالکوٹ گئے، حرکت قلب بند ہونے سے 20 نومبر کو وفات پائی ،لاہور میں ماڈل ٹائون کے قبرستان میں دفن ہوئے۔ 1975ء میں آرٹس کونسلوں کا قیام عمل میں لایا گیا ، ذوالفقار علی بھٹو ناصرف بانی تھے بلکہ انہوں نے آرٹ کے فروغ کیلئے اقدامات بھی کئے ، ملتان میں کرائے کے ایک مکان میں آرٹس کونسل قائم ہوئی ، معروف شاعر اسلم انصاری پہلے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر تھے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آرٹس کونسل میں مصوری کی نمائش جاری تھی ، صادقین ،استاد اللہ بخش ، گل جی اور دیگر نامور مصور وں کے فن پارے نمائش میں موجود تھے ، اس دوران فیض احمد فیض تشریف لائے۔
ہم نے ان کو نمائش کا وزٹ کرایا۔ ایک ایک فن پارے کو انہوں نے توجہ سے دیکھا اور مجھے انہوں نے تاریخی جملہ بولا جو آج بھی میرے ذہن سے محو نہیں ہو سکا، فیض احمد فیض نے کہا’’ انصاری صاحب! یہ ملتان کی آرٹس کونسل ہے اس کے فن پاروں میں ملتان نظر آنا چاہئے‘‘۔میں سمجھتا ہوں کہ تاریخی حیثیت کی حامل ایسی تاریخی بات کوئی تاریخ ساز شخصیت ہی کر سکتی ہے، بلا شبہ انقلابی شاعری کی تاریخ فیض کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی ، غالب اور علامہ اقبال کے بعد ان کا شمار اردو کے سب سے عظیم شاعروں میں ہوتا ہے، فیض احمد فیض نے اپنی انقلابی فکر اور عاشقانہ لہجے کو ملا کر ایک ایسا لہجہ اپنایا جس سے اردو شاعری میں ایک نئی جمالیاتی شان پیدا ہو گئی ، جیسے کہ میں نے مندرجہ بالا سطور میں عرض کیا قومی شاعروں کے ایام سرکاری سطح پر منانے چاہئیں ، اس سلسلے میں خواجہ فریدؒ سمیت صوفی شعراء کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: