نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاک امریکہ تعلقات کی المیہ داستان||حیدر جاوید سید

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہی دوہری شہریت والے افسر پالیسی سازی کے عمل میں کسی نہ کسی سطح پر شریک اور معاون ہوتے ہیں ایسے میں وہ اپنی نئی وفاداریوں کے تحفظ کے لئے جی جان سے کوشاں رہتے ہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قیام پاکستان سے لمحہ موجود تک کے دورانیہ کے پاک امریکہ تعلقات مطلبی امریکی رویوں، کہہ مکرنیوں اور دوسری کج ادائیوں سے ہی عبارت ہیں امریکیوں نے ہر ہر قدم پر ہماری عزت نفس پامال ان حالات میں اگر وزیراعظم عمران خان یہ کہتے ہیں کہ "امریکہ نے ہمیشہ ہمیں (پاکستان کو) استعمال کیا۔ ضرورت ختم ہونے اور مطلب نکل جانے پر چھوڑ جاتا ہے‘‘۔
تو پھر وزیراعظم اور اس ملک کے پالیسی سازوں کی خدمت میں بہت ادب کے ساتھ یہ عرض کیا جانا بنتا کہ حضور امریکہ محض چھوڑ ہی نہیں جاتا بلکہ اس نے ہمیشہ "ازلی دشمن قرار پائے” بھارت کی سرپرستی بھی فرمائی ،
بات یہیں تک محدود رہتی تو شاید قابل برداشت ہوتی، امریکیوں نے مطلب نکل جانے پر پاکستان کو دیوار سے لگانے میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
پریسلر ترمیم عین اس وقت آئی جب پاکستان، افغانستان میں ہونے والی سوویت امریکہ جنگ میں امریکی اتحادی کے طورپر فرنٹ لائن اسٹیٹ بنا ہوا تھا اور امریکیوں کے بھرتی کیئے جہادیوں کے مراکز پاکستان میں قائم تھے۔
جنوبی ایشیاء کے دو حریف ملکوں بھارت اور پاکستان میں سے بھارت نے پہلے ایٹمی دھماکے کئے۔ طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے پاکستان نے 1970ء کی دہائی میں ایٹمی پروگرام شروع کیا تو طرح طرح کی امریکی پابندیوں کا سامناکرنا پڑا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ’’فکس اپ‘‘ کردینے کی دھمکی امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے دی تھی۔
یہ دھمکی دیتے بلکہ دھمکیوں اور سازشوں کے مرحلہ میں امریکی یہ بھول گئے کہ یہ پاکستان ہی تھا جس نے امریکہ چین روابط میں اہم کردار آدا کیا اور امریکی وفد کو چینی قیادت سے ملاقات کے لئے بیجنگ تک محفوظ انداز میں پہنچایا تھا۔
ایٹمی پروگرام شروع کرنے پر ذوالفقار علی بھٹو ’’فکس اپ‘‘ ہی کردیئے گئے۔
افغانستان کی سوویت امریکہ جنگ میں پاکستان کے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق نے پاکستان کو افغان جنگ (جہاد) کے لئے فرنٹ لائن سٹیٹ بناکراپنے ہی وطن کو گہرے گھائو لگوائے مگر اس جنگ کے خاتمے پر وہ ایک جہاز کے حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔
جہازکے اس حادثے پر امریکہ کی طرف انگلیاں اٹھیں مگر کبھی تحقیقات کا ڈول نہ ڈالا جاسکا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت امریکی لیزر بیم گن سے ہوئی۔ روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی نے امریکی دستاویزات سے ثابت کیا کہ امریکہ سے باہر لیزربیم گن اسرائیل کے پاس تھی یا عراق میں امریکی کمانڈ کے پاس۔
گزرے ماہ و سال میں روا رکھے گئے امریکی ’’حُسن سلوک‘‘ کو الگ سے بھی اٹھارکھیں تو افغانستان میں 9/11 کے بعد اقوام متحدہ کی اجازت سے شروع ہوئی انسداد دہشت گردی کی جنگ کے 20سالوں اور پھر پچھلے برس اگست میں افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد پاکستان سے کئے جانے والے برتائو کا تجزیہ امریکی مطلب پرستی، جانبدارانہ طرزعمل اور پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کرنے کے حقائق کو دوچند کردیتا ہے۔
1990ء کی دہائی کے دوسرے حصہ میں جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کرکے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کیا تب پاکستان کے پاس جوابی طور پر ایٹمی طاقت کے مظاہرے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا اس عرصے میں امریکی قیادت نے پاکستان کو ایٹمی تجربات سے روکنے کے لئے کون سا ہتھکنڈا نہیں آزمایا۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد امریکہ اور دوسری عالمی طاقتوں نے پابندیاں لگاتے وقت پاکستان اور بھارت کے لئے الگ الگ امتیازی پالیسیوں پر عمل کیا۔
بھارت کو ایٹمی جوہری صلاحیت مزید بہتر بنانے کے لئے ٹیکنالوجی باضابطہ طور پر فروخت کی گئی لیکن اپنے دیرینہ اتحادی پاکستان کوایسی سہولیات سے محروم رکھا گیا۔
قبل ازیں امریکی حکام ایٹمی صلاحیت کو توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لئے کی جانے والی پاکستانی کوششوں کے اس وقت آڑے آئے جب ذوالفقار علی بھٹو نے فرانس سے ایٹمی ریکٹر خریدنے کا معاملہ کیا۔
بھٹو حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد امریکہ نے فرانس پر دبائو ڈال کر اس معاملے کو ختم کروادیا تھا
اگست 2021ء میں افغانستان سے انخلاء کے مرحلہ میں پاکستانی تعاون اور محفوظ راہداری فراہم کرنے پر گیت گاتے امریکی حکام نے چند ہی دنوں میں آنکھیں ماتھے پر رکھتے ہوئے افغانستان میں در آئی تبدیلی کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دے دیا حالانکہ انخلاء کے لئے امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان دوحا میں باضابطہ مذاکرات کے بعد معاہدہ ہوا تھا۔
انخلاء کاعمل مکمل کرتے وقت امریکہ نے خود ہی اس معاہدہ کو پامال کیا ورنہ اصولی طور پر اسے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان وسیع البنیاد حکومت کے لئے معاملات دوحا معاہدے کے مطابق طے کروانے چاہئیں تھے۔
امریکی طوطاچشمتی کاتازہ ثبوت آئی ایم ایف کا پاکستان سے اکتوبر 2021ء میں ہوا معاہدہ ہے۔ یہ معاہدہ بنیادی طور پر 6ارب ڈالر قرضہ پروگرام کے دوسرے مرحلہ پر عمل کے لئے ہے مگر آئی ایم ایف نے سخت شرائط پر پوچھے گئے سوال پر جواب دیا
’’ہم پر امریکی دبائو ہے‘‘۔
صاف سیدھے الفاظ میں یہ کہ پاکستان کو معاشی طور پر جکڑنے کے لئے آئی ایم ایف کی شرائط اصل میں امریکہ کی شرائط ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارہ محض نمائشی کردار ادا کررہا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان کا سوویت یونین کا دورہ ملتوی کرکے امریکی دورہ کی دعوت قبول کرتے ہوئے امریکہ روانہ ہوجانا درحقیقت ایک نوآزاد ملک کی سیاسی قیادت کی پہلی لیکن سنگین غلطی تھی۔
وزیراعظم لیاقت علی خان نے سوویت یونین کے شیڈول شدہ دورہ کو ملتوی کرکے امریکی دورہ کی دعوت قبول کی تو اس وقت کی سیاسی قیادت نے بالغ نظری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ افسوس کہ اپوزیشن کی سیاسی قیادت کے مشوروں کو رد کردیا گیا۔
اسی طرح پاکستان کے اولین فوجی حکمران جنرل ایوب خان کا سوویت یونین کی جاسوسی کے لئے پاکستان کو امریکہ کا سہولت کاربنانے کا فیصلہ بھی غلط تھا۔ ابتدائی برسوں کے ان دو فیصلوں کی وجہ سے ہی سوویت یونین اور بھارت میں پرجوش تعلقات قائم ہوئے بلکہ سوویت یونین اور بھارت میں دفاعی معاہدہ بھی ہوا۔
امریکی اتحادی ہونے کے باوجود امریکی حکام نے 1948ء سے آج تک پاکستان کو فروخت کئے جانے والے اسلحہ و گولہ بارود کے ضمن میں ہمیشہ یہ شرط رکھی کہ یہ اسلحہ و گولہ بارود بھارت کے خلاف استعمال نہیں ہوگا۔
1965ء کی جنگ کے مرحلہ میں امریکہ نے اپنے اتحادی پاکستان کا ساتھ دینے کی بجائے بھارت کا کھل کر ساتھ دیا۔
1971ء کی جنگ میں بھی امریکہ کا کردار دوغلے پن سے عبارت رہا۔ امریکی ہمیں چھٹے بحری بیڑے کی آمد کی تسلیاں دیتے رہے مگر سفارتی سیاسی اور اخلاقی طورپر وہ بھارت کے ہمنوا ہوئے اور بنگلہ دیش کے قیام میں کردار ادا کیا ،
امریکی کج ادائیوں، کہہ مکرنیوں، سارشوں اور بھارت نوازی پر پاکستان میں رائے عامہ کا ایک بڑا حلقہ ہمیشہ غیرجانبدارانہ خارجہ پالیسی اپنانے پر زور دیتا چلا آرہا ہے۔
بدقسمتی سے اس موثر آواز کی کبھی پالیسی سازوں کے حلقوں میں پذیرائی نہیں ہوئی اس کی ایک وجہ چند برس قبل سپریم کورٹ میں دوہری شہریت کے ایک مقدمہ میں پیش کی گئی رپورٹ سے سمجھ میں آتی ہے جو اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ امور مملکت چلانے کے ذمہ دار اہم محکموں کے سینکڑوں افسر دوہری شہریت رکھتے ہیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہی دوہری شہریت والے افسر پالیسی سازی کے عمل میں کسی نہ کسی سطح پر شریک اور معاون ہوتے ہیں ایسے میں وہ اپنی نئی وفاداریوں کے تحفظ کے لئے جی جان سے کوشاں رہتے ہیں۔
دنیا میں پہلی سرد جنگ کے خاتمے کے بعد در آئی تبدیلیوں کا ہمارے پالیسی ساز شعوری ادراک کرپاتے تو ہم ان سیاسی، تجارتی اور معاشی مسائل سے محفوظ رہ سکتے تھے جو امریکیوں نے ہمارے لئے پیدا کئے۔
وزیراعظم عمران خان نے امریکہ کی مطلب پرستی پر لب کشائی تو کی، مگر کیا وہ دو قدم آگے بڑھ کر پارلیمان کی طاقت سے غیرجانبدار خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں تاکہ چوہتر برسوں سے لگی امریکی غلامی کی چھاپ ہمیشہ کے لئے اتر سکے؟

یہ بھی پڑھیں:

About The Author