مئی 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دنیا کے لیے امن معاہدے جیسا ناول:نمک کا جیون گھر||خلیل کنبھار

یہاں بھگوان بننے کا بھید کھولا گیا ہے۔"یہی سارا بھید ہے کہ آدی واسیوں کا قاتل بھگوان ٹھہرتا ہے"یہ ناول یوگا اور وحدت الوجود کو نئے سرے سے بیان کرتا ہے۔یہاں تصوف اور منصور بن حلاج کو مختلف انداز میں دیکھا گیا ہے۔"منصور کو سنگسار کرنے یا دار پر کھینچنے کی ضرورت نہ تھی کہ وہ ایک بڑے وجود کی کشش میں اپنی "میں" سے دستبردار ہو رہا تھا"

خلیل کنبھار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دسمبر 2021 میں رفعت عباس کے ناول "نمک کا جیون گھر” کی اشاعت کے بعد اس دنیا میں دو طرح کے لوگ رہتے ہیں۔ایک وہ جنہوں نے ناول”نمک کا جیون گھر”پڑھا ہے اور دوسرے وہ جنہوں نے ناول”نمک کا جیون گھر "نہیں پڑھا۔
اس ناول میں موجود لونڑی شہر انسان کی آخری امید ہے کہ دنیا کو لونڑی میں بدل کر ہی رہنے لائق بنایا جا سکتا ہے، ورنہ دھرم اور جنگ دنیا کو مزید خون آلودہ اور المناک بنا دیں گے۔یہی وجہ ہے کہ اس لونڑی شہر میں ماورا طاقتوں،دھرم اور جنگ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔لونی کلا کاروں کا شہر ہے،جن کا ایمان ہے کہ ساری دنیا کی کلا،اگر اسے دیوتا سازی سے الگ رکھا جائے،جیون ہے۔اس شہر کے باشندے جانتے ہیں کہ والمیکی کی شاعری میں ایودھیا اپنوں اور لنکا غیروں کا شہر ہے کہ جسے جلایا اور ذبح کیا جا سکتا ہے.وہ جانتے ہیں کہ یہ شعری قبولیت اور تفاخر میں چھپا وہ المیہ ہے جو خود والمیکی پر کبھی نہ کھل سکا۔وہ اس بات سے بھی آگاہ ہیں کہ والمیکی کا سورما "رام” لنکا واسیوں کے قتل عام کے بعد بھارت کا بھگوان بن گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ لونڑی واسیوں نے واضح کیا کہ ہم ایسی شاعری سے گریزاں ہیں،جو سورماؤں کو جنم دے،کیونکہ مقامیوں کا قاتل پہلے سورما اور پھر بھگوان بن جاتا ہے۔ان پر کھل گیا تھا کہ دو نئے بھگوان رامائن سے رام اور مہابھارت سے کرشن ابھرے ہیں اور بھگوت گیتا نے کرہ ارض پر جنگ کی تائید کر دی ہے۔یہ شہر دیوتا یا بھگوان کے معنی سمجھ چکا ہے اس لیے دیوتا سازی سے گریزاں ہے۔جس عہد میں بھگوان بنانے کے کارخانے چل رہے تھے اور شاعروں کے سورما بھگوان بن کر روزمرہ زندگی میں دخل انداز ہو رہے تھے،عین اسی زمانے میں لونڑی شہر میں تھیٹر پارلیمنٹ کے طور پر کام کر رہا تھا۔لونی واسیوں پر کھل گیا تھا:
(1)یہ قبضہ گیروں کا وطیرہ ہے جس کی دھرتی چھینو اسے گالی دو۔(2)ہر دیوتا کے پیچھے ایک بڑی دنیا اچھوت اور ملیچھ بن جاتی ہے۔(3)صرف سیتا ہی لنکا کی جنگ کا کارن نہیں ہے۔(4) رامائن شیو کے مقابلے میں ایک نئے بھگوان رام کی جنم کنڈلی ہے۔
اس ناول میں زمیں زادوں کا وہ دکھ بھی بیان کیا گیا ہے جس میں ایک حملہ آور ان کے شہروں کو جلا کر انہیں راکشس، داس، اچھوت اور ملیچھ بنا دیتا ہے۔اس ناول میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ شیو اپنی تری مورتی سے نکل کر عام لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے لگا۔اس نے دیوتا اور عام آدمی کے درمیان کھینچی ہوئی دھرم ریکھا مٹا دی اور دیوتا سے انسان کا روپ دھار لیا۔اس لیے شیو کے مقابلے میں برہمنوں نے رامائن سے رام اور مہا بھارت سے کرشن کو بھگوان بنا کر پیش کیا۔شیو وہ واحد دیوتا ہے جو لونڑی کے قریب سے گزرا تو لونڑی واسیوں نے اسے،اس فیصلے کے ساتھ کہ ہمارے شہر میں دیوتائوں کے داخلے کی گنجائش نہیں ہے،پھول،پانی اور باجھرے کی روٹی بھیجی، مہاویر،بدھ،اسلام اور دیگر مذاہب کے پرچارک لونڑی شہر میں آتے رہے اور انہیں اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کی اجازت دی جاتی رہی،وہ اپنے مذاہب اور موت کا پرچار کرتے اور لوٹتے رہے،جب کہ لونی واسیوں نے تھیٹر کے ذریعے موت کو شکست دی تو اسے معاہدے کے تحت لونڑکا کے گھر کی سیڑھیوں پہ بٹھا دیا کہ اگر لونڑی میں جنگ ہوئی تو موت کو ہر طرح کی آزادی ہو گی۔وقت کے تسلسل میں محمد بن قاسم کا لشکر لونڑی شہر کے باہر آ کر بیٹھ گیا۔اس نے اعلان کیا۔اسلام قبول کرو،جزیہ دو یا جنگ کے لیے تیار ہو جائو۔ اپنے تھیٹر کی تائید میں لونڑی واسیوں نے مذہب اور جنگ کو مسترد کر دیا۔لونڑی واسیوں کا جواب اور جنگ کے بغیر اپنے شہر کا دفاع ناول میں لکھا ہوا ہےاور اس طرح کا جواب کوئی بڑا ناول نگار ہی لکھ سکتا ہے۔جنگ اور مذہب کو رد کرنے کی جرات بھی کوئی بڑا لکھاری ہی کر سکتا ہے۔سرائیکی زبان کے لیجنڈ شاعر رفعت عباس کا لکھا ہوا یہ ناول دنیا کو رہنے کے قابل خوب صورت جگہ بنانے کی دستاویز ہے،جس پر دنیا کو دستخط کر نے کی ضرورت ہے۔
لونڑی واسی لونڑکا کو داستان،خوابوں اورپوتھیوں،یوگا کی سمادھیوں،ادوتیا ویدانتااور وحدت الوجود کے سرابوں،مصوری اور مجسمہ سازی کےزمانوں سے لے کر گندھارا سے مگدھ تک،ایران کے قدیمی شہر سوسن سے بھوج اور کھنبھاٹ تک،ڈھولا ویرا سے لوتھل تک،قصوں سے پتلی تماشوں تک،چاند سے آسمانوں تک تلاش کرتے ہیں لیکن اسے ڈھونڈ نہیں پاتے۔ لونڑی شہر کے دو کردار سنکی اور وادھا اپنے ہمہ وقت جنسی قرب میں لونڑکا کو ڈھونڈتے ہیں اور کامیاب نہیں ہوتے۔ماؤں کو گمان گزرتا ہے کہ لونڑکا ان کے پیٹ میں ہے اور وہ لونڑکا کو جنم دیں گی۔لونڑی شہر کے ایک عام فرد اور جیوت کار لونڑکا کی تلاش اس ناول کو آگے بڑھاتی ہے اور کائنات اس تلاش کا میدان بن جاتا ہے۔
یہ لونڑکا شاید سندھ وادی یا پھر کرہ ارض کی گم شدہ روح ہے جس کی تلاش کا نیا سفر شروع ہوا ہے۔شاید یہ دنیا اپنے جیوت کار لونڑکا کو پھر ڈھونڈھ لے۔شاید یہ دنیا لونڑی شہر جیسی بن جائے اور دیوتاؤں،دھرموں،جنگوں اور موت کے بغیر آباد ہو اور اپنے تسلسل کا سفر طے کرے۔اس شہر کے جیوت کاروں نے اپنے تھیٹر کی تائید میں پرندوں،درختوں،ہرنوں،ہاتھیوں کی جیوت کاری کی ہے۔انہوں نے لونڑی سے باہر کی دنیا کے مقابل اپنا وقت دریافت کیا اور کیلنڈر جاری کیا ہے۔اس شہر نے دنیا بھر کی کتابیں پڑھیں اور علوم کو سمجھا ہے۔اس شہر نے اپنے کتاب گھر میں پانینی کی اشٹا ادھیائے،پتن جلی کی یوگ سترا،پنگلا کی چھند شاسترا،بھرت منی کی ناٹیہ شاستر کے ساتھ ساتھ رامائن اور مہابھارت کی قرات کی ہے اور اپنے ناٹک میں ردوقبول کے فیصلے کیے ہیں۔ان علوم کو فکشن میں بدلنا ایک مشکل کام تھا۔لیکن یہ ناول نہ صرف ان علوم کو کہانی میں ڈھال دیتا ہے بلکہ ان کی نئی تفہیم بھی کرتا ہے اور انہیں لونڑکا کی تلاش سے جوڑ دیتا ہے۔یہ ناول رام ،کرشن اور شیوا کی نئی پرتوں کو کھولتا ہے۔یہاں شیوا کے بھگوان کے درجے سے عام آدمی بننے کی کتھا بیان ہوئی ہے:
"شیوا،ایک دیوتا کے انسان بننے کی کہانی ہے”
یہاں بھگوان بننے کا بھید کھولا گیا ہے۔”یہی سارا بھید ہے کہ آدی واسیوں کا قاتل بھگوان ٹھہرتا ہے”یہ ناول یوگا اور وحدت الوجود کو نئے سرے سے بیان کرتا ہے۔یہاں تصوف اور منصور بن حلاج کو مختلف انداز میں دیکھا گیا ہے۔”منصور کو سنگسار کرنے یا دار پر کھینچنے کی ضرورت نہ تھی کہ وہ ایک بڑے وجود کی کشش میں اپنی "میں” سے دستبردار ہو رہا تھا”
یہ ناول استعماریت اور ما بعد استعماریت کے بیانیوں کو بدل دیتا ہے۔1890میں انگریز لونڑی شہر کے باہر پہنچتا ہے اور لونڑی واسی انگریز کیپٹن اولیور رابرٹس سے مکالمہ کرتے ہیں۔یہ مقامیوں کا وہ مکالمہ ہے جہاں ایک کردار اگاس کیپٹن اولیور رابرٹس میں عام فرد کو ڈھونڈ لیتا ہے اور پھر آگے یہ بات کھلتی ہے کہ دنیا میں عام آدمی سے عام آدمی کا مکالمہ ہی اس کرے کو جنگ اور موت سے بچا سکتاہے۔یہ مقامیوں کی وہ طاقت ہے جہاں وہ حملہ آور فرنگیوں کو ناٹک جنگ میں لے آتے ہیں۔”یہ لونڑی شہر تھا جس نے انگریز سپاہیوں کو ان کی وردیوں کی جگہ ناٹک کے لباس اور ہیٹ پہنائے تھے” یا پھر” "دنیا سپاہیوں کے بجائے ناٹک کاروں کے ہاتھوں میں زیادہ محفوظ ہے”یہ ناول استعماریت اور ما بعد استعماریت کی ساری تلخی کو زندگی کی ایک نئی حکمت عملی میں بدل دیتا ہے۔اس کرہ ارض پر زندہ رہنے کا ایک نیا احساس پیدا کرتا ہے۔”حملہ آوروں کی قبروں کے لیے بھی پھول ہیں کہ وہ ہماری دھرتی میں خوابیدہ ہیں.۔۔۔۔۔”خدا سے جھگڑا نہیں بنتا،بھلے وہ گھڑ سواروں کے ساتھ آئے یا بحری جہازوں سے اترے”یہ ناول سندھ وادی میں تصوف کی روایت کو نئے سرے سے دیکھتا ہے۔گیارھویں دری میں لونڑی شہر کا ایک فرد سہاگا نعرہ لگاتا ہے کہ میں لونڑکا ہوں۔اس کے پیچھے منصور بن حلاج کی روایت انا الحق بولتی ہے۔لونڑی واس اپنے ناٹک گھر میں اس معاملے پر ایک کھیل کھیلتے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ منصور حق میں ڈھلے یا حق منصور میں دونوں صورتوں میں فرد(ماہنڑو)کی گم شدگی ہے۔یہ سندھ وادی میں ابھرنے والا ایک مشکل مرحلہ ہے کہ یہاں صدیوں سے صوفیاء کی روایت وحدت الوجود کے نظریے پر کھڑی ہے۔لونڑی شہر جو مکمل طور پر انسان کی آزادی اور تسلسل کی علامت ہے اس حوالے سے ایک بڑا فیصلہ کر گزرتا ہے۔مجموعی طور پر، یہ ناول سندھ ملتان کی سرزمین پر ہونے والی تکلیف دہ جنگوں،ان جنگوں کے سبب ادھورے رہ جانے والے معاشقوں،جلے ہوئے کتب خانوں اور آگ پکڑتے اناج کے گوداموں،دیوتاؤں،سورموں اور مذہبی پیشوائوں کے جبوں کے بیچ میں نوہٹو سے ڈھولاویرا اور کنبھات سے ملتان تک آرٹ کو زندگی ماننے والے ان لوگوں کے شہروں کی کتھا ہے،جنہیں کوئی حملہ آور مات نہ دے سکا۔وہ کل بھی آرٹ میں یقین رکھتے تھے اور آج بھی آرٹ میں ہی زندہ ہیں۔اس ناول میں حملہ آوروں کے تمام بیانات کے مقابل زمیں زاد کا اپنا موقف ابھرا ہے۔یہی وہ موقف ہے جو”نمک کا جیون گھر”کو ناول بنا دیتا ہے۔لونڑی واسیوں کا کہنا ہے کہ دنیا تمہاری کلا کو تسلیم کر لے گی،لیکن اگر تم اپنے آباؤ اجداد کو بھگوان بنا کر پیش کرو گے تو اس بات کو منوانے کے لیے تلواریں بنانی پڑیں گی اور انہیں چمکانا ہوگا،کیونکہ دھرم ہمیشہ دوسروں کی سرزمین پر ہی پھلتا پھولتا ہے۔یہ ناول بتاتا ہے کہ سپاہی کسی قوم کا اصل چہرہ نہیں ہوتے۔اس ناول میں کنبھات اپنی تمام تر جادو گری اور ہنرمندی کے ساتھ موجود ہے۔یہاں چندر جائے کا نانا رنگدار عقیقوں کا کاریگر ہے۔وہ اسے سکھاتا ہے کہ جب تک پتھر خود زندگی میں نہیں ڈھلتا وہ کسی کے جیون تک نہیں پہنچ سکتا”۔اس ناول میں لکھا ہے کہ شہروں کی تقدیر تلواروں سے نہیں بلکہ پرندوں کی چونچ سے لکھی جاتی ہے۔یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کسی شہر کا کلام جاگ اٹھے تو لوگ پہلے سے زیادہ حسیں ہو جاتے ہیں۔اس ناول کی حقیقی اور غیر حقیقی فضا نے مل کر ایک نئی دنیا کو تخلیق کر دیا ہے۔
اردو زبان کے نامور نقاد ناصر عباس نیر نے اس ناول کا فلیپ لکھا ہے،اس کے علاوہ انہوں نے ایک انگریزی روزنامے میں کیے گئے اپنے ایک بھرپور تبصرے میں اس ناول کو پوسٹ کالونیل عہد کا ایک بڑا ناول قرار دیا ہے۔وہ لکھتے ہیں۔”یہ ناول ماضی کے نوآبادیاتی شکنجے میں جکڑے ذہنوں کو ترک نوآبادیات کی طرف مائل کرتا ہے۔ وہ فن ہے جہاں ہر طرح کی دوئی،درجہ بندی اور سرحدیں پگھلنے لگتی ہیں اور ہم ایک مسلسل وقت سے ہم کنار ہوتے ہیں۔آرٹ،وقت اور موت کو شکست دیتا ہے۔”نمک کا جیون گھر” ایک غیر معمولی پوسٹ کالونیل ناول ہے جو وسیع پیمانے پر پڑھے جانے کا مستحق ہے۔”
نوٹ: اس ناول کا پہلا ایڈیشن سرائیکی میں شائع ہونے کے دو ماہ کے اندر ہی فروخت ہو گیا۔منور آکاش نے اس کا اردو ترجمہ کیا ہے جسے فکشن ہاؤس نے شائع کیا ہے۔اس ناول کو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ایم اے سرائیکی کے نصاب میں بھی شامل کیا گیا ہے۔

خلیل کنبھار کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: