حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل واوڈا کو دوہری شہریت کے حقائق چھپانے پر نااہل قرار دیتے ہوئے ان سے تنخواہیں اور مراعات کی رقوم واپس لینے کا حکم دیا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے چند دن قبل نااہل قرار دیئے گئے خیبر پختونخوا کے وزیر شاہ محمد خان کی نااہلی کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے ان کے صاحبزادے کے معاملے پر سماعت جمعہ تک ملتوی کردی۔
فیصل واوڈا بھی ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری کی طرح حکم امتناعی لے آئیں گے۔ معطلیوں، نااہلیوں اور حکم امتناعی پر بحالیوں کی لمبی داستانیں ہیں یہاں۔ داد دینے، خوش ہونے یا ملال کرنے کی ضرورت نہیں۔
اصل سوال یہ ہے کہ فیصل واوڈا کا کیس لگ بھگ تین سال کیوں چلا؟ ضمنی سوال یہ ہے کہ قاسم سوری کے لئے حکم امتناعی لا محدود مدت کے لئے کیوں ہے؟
معاف کیجئے گا سوال کرنا تو لوگوں کا حق ہے۔ نئے چیف جسٹس آف پاکستان نے حلف اٹھانے کے بعد کہا تھا،
فیصلوں پر بات کریں ججوں کی ذاتیات پر نہیں۔
ان کے اس ارشاد سے حوصلہ پاکر سوال پوچھ لیا ہے۔ البتہ یہ معلوم ہے کہ جواب قیامت تک نہیں ملنا اورقیامت کے بعد ہر بندہ دوسرے بکھیڑوں میں الجھ جائے گا۔ دنیا کی باتیں دنیا میں ہی رہ جائیں گی۔
فیصل واوڈا نے 2018ء کے انتخابات کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت غیرملکی شہریت سے دستبرداری کی تاریخ غلط لکھی تھی۔ اس ایک بات پر فیصلہ تین برسوں میں ہوپایا درمیان میں وہ عدالتوں سے الیکشن کمیشن کے خلاف احکامات لاتے رہے۔ اب کیا ہوگا، کچھ نہیں۔ اس سے زیادہ عرض کرنے سے قاصر ہوں۔
2018ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے نتائج کے مطابق 15 سے زیادہ ارکان ایسے ہیں جو جیتے 5سو سے ایک ہزار ووٹوں سے ہیں مگر ہارنے والوں کے 7ہزار سے ساڑھے 10ہزار ووٹ مسترد ہوئے۔ جھنگ سے ہارنے والے مخدوم سید فیصل صالح حیات اور سندھ سے جیتنے والی فہمیدہ مرزا زندہ مثالیں ہیں۔ ان کے کیسوں میں کیا ہوا؟ کچھ ہوا نہ کچھ ہوگا۔
آنگن میں رقص وہی کرتاہے جسے پیا چاہے۔ ’’پیا‘‘ کون ہے، شیخ رشید تو ایک دو دن کے وقفے سے بتاتے رہتے ہیں۔
’’پیا‘‘ کو جانتے سبھی ہیں بوقت ضرورت اس کا جی بہلانے کو رقص کے لئے آمادہ بھی رہتے ہیں بس ’’ہیرو گیری‘‘ کے شوق میں باتیں واتیں بھی کرتے رہتے ہیں۔ خیر چھوڑیئے کچھ دیر کے لئے بھارت چلتے ہیں۔
بھارت جس کے صوبہ کرناٹک میں ایک کالج کی طالبہ کے نعرہ تکبیر لگاتے ہوئے ایک ویڈیو منگل کو وائرل ہوئی اور دین داروں، دیسی لبرلوں سمیت درجنوں طبقات کی باسی کڑی میں ابال آیا ہوا ہے۔
ہمارے ذرائع ابلاغ بتارہے ہیں کہ طالبہ کے نعرہ تکبیر سے بھارت ہل کر رہ گیا ہے۔
فقیر راحموں کہتے ہیں بھارتی طالبہ کے ہندو توا کے علمبرداروں کے درمیان نعرہ تکبیر بلند کرنے کو لے کر جو لوگ آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہیں یہی اگلے ماہ (مارچ میں) عورت مارچ کے خلاف نعرے ماررہے ہوں گے۔
فقیر راحموں کی بات کو جانے دیجئے، ہم ذاتی طورپر فرد کی آزادی کے قائل ہیں۔ حجاب کے حامی اور مخالف دونوں قابل احترام ہیں بس ’’حد‘‘ میں رہا کریں۔
کرناٹک کی حکومت نے حجاب کے خلاف قانون بناکر ہندو توا کے حامیوں کو نیا کھیل کھیلنے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ ہمارے جو دوست بھارت میں سیکولر ازم کے حامی ہیں وہ پاکستان میں سیکولر ازم کے حامیوں کو جن الفاظ سے یاد کرتے ہیں ویسے الفاظ بیسوائیں بھی روزمرہ کی بول چال میں استعمال نہیں کرتیں۔
کرناٹک کی طالبہ نے اپنی شخصی آزادی کے حق کا دفاع کیا۔ جے شری رام کے مقابلہ میں اللہ اکبر کہا۔ اس کے اس اقدام پر دیوانہ ہوئے مجاہدین میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس نے کبھی سندھ میں ہندو برادری کی بچیوں کے اغوااور تبدیلی مذہب پر سوال اٹھایا ہو۔
حیرانی دینداروں پر ہے جوکہتے ہیں ہندو توا والوں نے بھارت میں مسلمانوں کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ ارے بھائی ہمارے یہاں پانچ چھ برانڈ کے مسلم توا کے حامی نہ صرف موجود ہیں بلکہ موقع ملتے ہی کام بھی دیکھاجاتے ہیں۔
شدت پسندی کی مذمت میں منافقت بھی ایک طرح کی شدت پسندی ہی ہے۔
بھارتی طالبہ مسکان خان کے واری صدقے ہوتے پاکستانیوں میں سے کتنے تھے جنہوں نے مشال خان کے سفاکانہ قتل پر آواز بلند کی تھی؟ خیر چھوڑیں لوگ بُرا مناتے ہیں مگر تلخ حقیقت یہی ہے کہ ہم اپنے ہاں اپنے اپنے عقیدہ کا اسلامی نظام چاہتے ہیں مگر بھارت میں سیکولر ازم
مجھ سے طالب علم تو خیر ہیں ہی غیرمذہبی ریاست اور غیرمذہبی نظام کے حامی، وجہ یہی ہے کہ مطالعہ نے ہمیں سمجھادیا ہے کہ مذہبی ریاست کے فائدے کم اور نقصانات زیادہ ہیں مثال کے طور پر بھارت میں مودی سرکار بی جے پی اور اس کی اتحادی ہندو تنظیمیں بھارت کو ہندو دھرم کی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔
ہندو توا کی علمبرداری کی تبلیغ اور سرکاری سرپرستی نے بھارت کو جہاں لاکھڑا کیا ہے یہ مقام عبرت ہے۔ اس مقامِ عبرت سے عبرت پکڑنے کی ضرورت ہے۔
بھارتی معاشرے کی زوال پذیری کے بھاشن دینے والوں کو فقط دو لمحے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ہمارا معاشرہ کون سا ارتقائی سفر کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔
آپ فرد کی شخصی آزادی (یہ کسی بھی طرح ہو) کے حق میں ہیں تو پھر منافقت کے بغیر سرحد کے دونوں طرف شخصی آزادی کی حمایت کیجئے۔
ساعت بھر کے لئے رُکئے ا یک نگاہ سعودی عرب میں بدلتے ’’موسموں‘‘ پر ضرور ڈال لیجئے۔
ایران یا افغانستان میں اہل اقتدار کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو بھی مسکان خان جیسا حق دیجئے بلکہ ان کے حق میں آواز بلند کیجئے تب پتہ چلے گا کہ آپ واقعی فرد کی شخصی آزادی کے حق پر ایمان رکھتے ہیں۔
برصغیر پاک و ہند میں حجاب کے جو مطالب و مفاہیم صدیوں سے بیان کئے جارہے ہیں ان پر اٹھائے جانے والے سوالات کو جس دن آپ برداشت کرلیں گے، حقیقت پسندی واضح ہوجائے گی۔
ہمارے یہاں تو محض سوال اٹھانے پر توہین کے فتوے جاری ہوجاتے ہیں۔ ہمارے نزدیک تو مسلم حجاب پر اعتراض کرتے ہندو توا کے حامی بھی منافق ہیں جو ہندوستان میں پردے کی قدیم مقامی روایات پر تو زبان نہیں کھولتے لیکن مسلم حجاب پر پھبتیاں کستے ہیں سستی شہرت کے لئے۔
بالکل اسی طرح ان لوگوں کا بھی کوئی حال نہیں جو ہندوستان میں سیکولر اساس کے استحکام کو اس کی وحدت کی ضمانت قرار دیتے نہیں تھکتے لیکن اپنے ہاں اقلیتوں کو حقوق دینے پر چیں بچیں ہوتے ہیں۔
پچھلے سال ہندو برادری کے لئے اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے معاملے کو لے کر طوفان اٹھانے والوں کو دیکھ لیجئے یا ملتان میں دانش کدہ پرہلاد (پرہلاد مندر) کی ازسرنو تعمیر کے معاملے کو اسلام کے خلاف سازش کہنے والوں کو،
سادہ الفاظ میں میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھوتھوہے۔ حرفِ آخر یہ ہے کہ دو رنگی چھوڑ کر انسانی سماج کی بنیادی ضرورتوں اور حقیقتوں کو تسلیم کیجئے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر