نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

محبت، علم، دانش، آواز اور موسیقی کی سرحد نہیں ہوتی||حیدر جاوید سید

بات بدلتے ہوئے عرض کیا اپنی ادبی حیثیت، سماجی خدمات اور سرائیکی وسیب کے شہر بہاولپور سے ان کا نسبی رشتہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے میرے لئے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نئی دہلی کے ایک سرکاری کالج میں پڑھانے والے میرے فیس بکی سرائیکی خاندان سے تعلق رکھنے والے دوست دلجیت چند لال نے کچھ دیر قبل اردو کی معروف ادیبہ اور سابق رکن پنجاب و قومی اسمبلی محترمہ بشریٰ رحمن کے سانحہ ارتحال پر چند سطری تعزیتی پیغام بھجوایا۔
دلجیت چند لال لکھتے ہیں
’’ڈیئر سید، بہاولپور میں جنم لینے والی اردو کی ناول نگار کالم نویس اور سابق رکن اسمبلی محترمہ بشریٰ رحمن کی وفات پر بہاولپوری پُرکھوں کی اولاد کی جانب سے تعزیت قبول کیجئے، 20سال قبل جب میں اپنی والدہ کے ساتھ پہلی اور آخری بار پاکستان آیا تھا تو بہت کوشش کر کے ہم ماں بیٹا ان (محترمہ بشریٰ رحمٰن) سے ان کے لاہور والے گھر میں ملاقات کرپائے
اس ملاقات کی خواہش میری والدہ کی تھی کیونکہ ان کی والدہ یعنی میری نانی سنیتا دیوی اور محترمہ بشریٰ رحمن کی والدہ دوست تھیں۔ پھر برصغر تقسیم ہوگیا۔ ہمارا خاندان ہجرت کے زخم بھرے سفر کو لے کر دہلی آ کر آباد ہوگیاتھا
محترمہ بشریٰ رحمن کو والدہ کے ساتھ ملاقات کے موقع پر میں نے میڈم کہہ کر بات کی تو انہوں نے بے ساختہ کہا، تم مجھے "میڈم نہیں ماسی (خالہ) کہو” ہمارا یہی رشتہ ہے۔
ان کی وفات سے ہمارا خاندان صدمے میں ہے۔ محبت، تعلق اور رشتے سرحدوں کے پابند نہیں ہوتے‘‘۔
پچھلے ڈیڑھ دو گھنٹوں کے دوران میں نے یہ تعزیتی پیغام ایک سے زائد بار پڑھا آنکھوں میں آنسو اور دل میں شرمندگی محسوس کی۔ آنسو ان کے خلوص بھرے جذبات اور بہاولپوری رشتے کی تڑپ (جو ان کے اور محترمہ بشریٰ رحمن میں تھا) کی وجہ سے ہے اور شرمندگی کا احساس یوں ہے کہ دو دن قبل برصغیر میں موسیقی کی سُروں کی مہارانی لتا منگیشکر کے سانحہ ارتحال پر مجھے اپنے دوست سے تعزیت کرنی چاہیے تھی جوکہ نہیں کی۔
تعزیت نہ کرنے کی کوئی خاص وجہ بھی نہیں۔ نہ ہی میں انسانوں کو ان کی وطنی و مذہبی شناخت پر پسندوناپسند کرنے کے مرض میں مبتلا ہوں۔
ایک طالب علم کی حیثیت سے میری رائے یہی ہے کہ محبت، علم، موسیقی، دانش اور آواز سرحدوں پر لگی باڑوں اور نفرت سے اُساری گئی دیواروں میں قید نہیں ہوتے۔ ہوا جہاں تک لے جائے ان کا سفر جاری رہتا ہے۔
لوگ اپنا سفر حیات طے کرکے رخصت ہوجاتے ہیں مگر رہ جانے والی چیزوں کو رہنا ہوتا ہے اور ہر لمحہ ان میں اضافہ ہوتا ہے۔

لتا منگیشکر سے پہلا تعارف مرحوم ماموں جان پیر سید محمد شاہ کی معرفت ہوا تھا وہ صبح سویرے ریڈیو سیلون کا پروگرام آپ کی فرمائش باقاعدگی کے ساتھ سنتے تھے اور نماز فجر بھی قضا نہیں کرتے تھے۔
موسیقی کو روح کی غذا سمجھنے والوں میں یہ طالب علم بھی شامل ہے۔ لتا منگیشکر کے علاوہ بھارت سے ہی طلعت محمود، محمد رفیع، چترا جگجیت سنگھ، بپھندرا متالی کی آوازیں پسند ہیں۔
چترا جگجیت سنگھ کی آوازیں تو اب بھی سحر طاری کردیتی ہیں۔ گزشتہ روز جب لتا منگیشکر کے سفر حیات کے تمام ہونے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح چار اٙور پھیلی تو آواز و موسیقی کی محبت میں گرفتار غم میں ڈوب گئے۔
ان کے سانحہ ارتحال پر غمزدہ ہونے والے بھی بے حساب ہیں اور سوگ منانے والوں کی بٙھد اڑانے والے بھی۔
ہم عجیب سے ریوڑ کے درمیان بستے ہیں ایسے ریوڑ کے درمیان جس کا ہر نگ خود ہی خدائی اختیار سنبھالے فیصلے صادر کرتا ہے۔
مثلاً لتا منگیشکر کے سانحہ ارتحال پر دکھی لوگوں کو یاد دلایا گیا کہ انہوں نے پاک بھارت جنگوں کے دوران اپنی وطنی محبت میں کچھ گیت گائے تھے۔
ارے گائے تو کیا آسمان ٹوٹ پڑا۔ فنکار کی وطنی محبت ہوتی ہے فن کا وطن نہیں ہوتا۔ بھارت میں لاکھوں کروڑوں لوگ ہماری ملکہ ترنم نورجہاں کو بے مثال گلوکارہ تسلیم کرتے ہیں خود لتا منگیشکر نے ایک سے زائد بار نورجہاں کو آواز کی دنیا کی کوئل قرار دیا۔
مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتا ہے بھی لتا جی اور ہندوستانیوں نے کہا تھا۔ غلام علی کی آواز کو آسمانوں کی ندا جگجیت سنگھ نے کہا۔
ہم عجیب بلکہ بہت عجیب سے لوگ ہیں۔ ہمارے جیسے تنگ نظر، کج فہم اور بدمزاج واہگہ کے اُس اٙور بھی ڈھیروں ڈھیر ہیں۔ دوسروں سے کیا محبت یا نفرت کرنی ہے ہم اپنوں سے نفرت میں بھی خودکفیل ہیں۔
نصرت فتح علی خان وفات پاگئے تو ایک دو نہیں سینکڑوں دیندار و غیردیندار لوگوں سے سنا وہ جی
’’اُس کی تو زبان مرتے وقت منہ سے باہر نکلی ہوئی تھی‘‘۔ اس نفرت بھرے انداز میں یہ بات دہرائی جاتی تھی کہ رونا آتا تھا۔ اسی سوچ کے حامل چمونوں نے اگر لتا منگیشکر کا سفر حیات تمام ہونے پر اپنی ’’دانائی اور دینداری‘‘ کا ذوق و شوق کے مطابق مظاہرہ کیا ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔
ہمارے یہاں مہدی حسن، ملکہ ترنم نورجہاں، شوکت علی، خود استاد نصرت فتح علی خان نے بھی تو اپنی وطنی محبت میں ڈوب کر گیت گائے اس کے باوجود بھارت میں آواز و موسیقی کے دلدادہ لوگوں نے انہیں دیوتائوں جیسا احترام دیا۔
کیا مذہب و عقیدہ کسی مرنے والے کے لئے اچھے جذبات کے اظہار پر بھرشٹ ہوجاتے ہیں؟
ایسا ہے تو پھر بڑے کمزور ہیں یہ دونوں ، ایک میڈیا ہائوس کی ویب سائٹ پر لتا منگیشکر کے سانحہ ارتحال کی خبر کے نیچے کمنٹس کرنے والوں کی ذہنیت چیخ چیخ کر اس بودے پن کا اظہار کررہی تھی جو کج فہم لوگوں کا من بھاتا رزق ہے۔

ہمارے ایک دوست نے کہا ’’شاہ جی یہ محترمہ بشریٰ رحمن تو جنرل ضیاء الحق کی حامی رہی ہیں آپ ان کی وفات پر دُکھی ہیں؟‘‘ مجھے عرض کرنا پڑا کہ ” کیا فقط وہی فوجی آمر کی حامی تھیں”۔
بات بدلتے ہوئے عرض کیا اپنی ادبی حیثیت، سماجی خدمات اور سرائیکی وسیب کے شہر بہاولپور سے ان کا نسبی رشتہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے میرے لئے۔
وسیب کی مٹی کا رشتہ کتنا اہم ہوتا ہے اس کا اندازہ دلجیت چندلال کے تعزیتی پیغام سے لگالیجئے جو ابتدائی سطور میں لکھا ہے۔
دلجیت چند لال سکہ بند ہندو ہیں برہمن ہندو مرحومہ بشریٰ رحمن سکہ بند مسلمان۔
لیکن مٹی کے رشتے میں بندھے دلجیت چند لال کو دکھی کردیا ان کے سانحہ ارتحال نے۔ ان سموں جالب (حبیب جالب مرحوم) کا ایک فلمی نغمہ یاد آرہا ہے جو 1970ء کی دہائی میں بہت مقبول ہوا تھا
’’یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے‘‘۔
مکرر اپنی بات عرض کرو محبت، علم، دانش، آواز اور موسیقی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ انہیں سرحدوں کا پابند کیجئے گا تو پھر دھول اڑے گی صرف۔
ہمیں بطور خاص یہ بات سمجھنا ہوگی کہ
’’ہماری ہی طرح دنیا میں دوسرے مذاہب اور عقیدوں پر عمل کرنے والے بھی موت کے بعد کے معاملات کے حوالے سے کچھ نہ کچھ اعتقاد رکھتے ہیں اس لئے لازم نہیں کہ کسی کے سانحہ ارتحال پر ہم اور آپ اپنے اپنے مذہب و عقیدے کی محبت کی دو دھاری تلوار نکال کر کشتوں کےپشتے لگانے پر تُل جایا کریں۔ دنیا میں جینا بسنا سیکھ لیجئے ورنہ دنیا آپ پر مزید تنگ ہوجائے گی‘‘۔

لتا منگیشکر کے سانحہ ارتحال سے موسیقی و آواز کی دنیا کا روشن عہد تمام ہوا۔ لتا جی رخصت ہوئی ہیں ان کی آواز ہمیشہ ہمارے کانوں میں رس گھولتی رہے گی۔ مجھے تو ان کے جگجیت کے ساتھ گائے چند نغمے اور غزلیں اور ایک حمد بہت پسند ہے یاد پڑتا ہے کہ یہ آڈیو کیسٹ ’’سجدہ‘‘ کے نام سے دو والیوم میں 1986ء میں آیا تھا
اور بھی بے شمار گیت مجھے پسند ہیں جو ان کی مدبھری آواز سے سجے ہوئے ہیں۔
اختلاف کے باوجود مجھے محترمہ بشریٰ رحمن کا بھی بے پناہ احترام ہے۔ سرائیکی وسیب کے شہر بہاولپور سے ان کا تعلق اور عاشق خواجہ غلام فریدؒ ہونا یہ حوالے بہت ہیں ان کے احترام کے لئے۔
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مرنے والوں کے انجام بارے اپنے سیاپوں کے اظہار سے پرہیز کیا کیجئے
کیونکہ اللہ تعالیٰ رب المسلمین نہیں، رب العالمین ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author