حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم روز اول سے جس زمینی حقیقت کو نظرانداز کرتے چلے آرہے ہیں وہ یہ ہے کہ جس خطے میں پاکستان قائم ہوا اس میں صدیوں بلکہ ہزاریوں سے آباد قومیتوں کی اپنی تاریخ، تہذیب، کلچر اور بودوباش ہے۔
یک قومی نظریہ یقیناً سیاسی ضرورت ہوسکتا ہے لیکن یہ کہ اگر یہ کہا جائے اس یک قومی نظریہ کیوجہ سے مقامیت کی ہزاریوں پر پھیلی قومی شناختیں ختم ہوجائیں یہ دنیا میں کہیں نہیں ہوا۔
اس بحث سے قطع نظر کہ متحدہ ہندوستان کیوں تقسیم ہوا یہ کس کی ضرورت تھی، تقسیم علاقائی توازن کے لئے ضروری تھی یا عالمی سیاست کے بدلتے منظرنامہ کی ضرورت، کڑوا سچ یہ ہے کہ ایک جمہوری فلاحی پاکستان کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا جب تک مقامیت کی قدیم شناختوں کی حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم نہ کیا جائے۔
ثانیاً یہ کہ جو لوگ مقامیت کی قومی تاریخی شناختوں پر تعصبات کی پھبتی کستے ہیں وہ کسی دن وقت نکال کر ٹھنڈے دل سے یہ ضرور سوچیں کہ جس مسلم قومیت کے پھریرے برصغیر میں لہرائے گئے وہ دنیا یا یوں کہہ لیجئےجسے ہم اسلامی دنیا کہتے ہیں اس میں کہیں اور بھی زندہ حقیقت کے طور پر موجو ہے؟
ایک سے زائد بار ان سطور میں یہ عرض کرچکا کہ مذہب و عقیدہ تبدیل کرنے سے فرد، طبقہ یا قوم اپنے تاریخی تہذیبی و تمدنی اصل سے محروم نہیں ہوجاتے۔
تبدیلی مذہب نے اگر فرد یا قوم کو اپنے قدیم اصل سے محروم کرکے نئی شناخت دی ہوتی تو پھر عرب عرب نہ رہتے بلکہ نئی مذہبی شناخت کے ساتھ دنیا سے اپنا تعارف کرواتے لیکن عربوں نے اسلام کو اپنا دین اور عرب مقامیت کو اپنی قدیم شناخت قرار دیا اوراس پر انہیں کبھی ملال نہیں ہوا۔
بلاد عرب سے باہر اسلام کا پیغام جہاں پہنچا ان علاقوں میں صرف برصغیر یا یوں کہہ لیجئے ہندو سندھ دو علاقے ایسے تھے جہاں تبدیلی مذہب کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر نئی قوم تشکیل دینے کی کوشش کی گئی۔
مسلم قومیت کا بیانیہ پیش کرنے والوں نے لمحہ بھر کے لئےاس بات پر غور کرنے کی زحمت نہیں کی کہ کیسے کسی علاقے کے لوگوں کو اپنی قدیم شناخت اور ورثوں سے ’’کاٹ‘‘ کر نئی شناخت اپنانے اور اسی کو فخر بنانے کی راہ پر لگایا جاسکتا ہے یا یہ کہ اپنے قدیم تہذیبی و تمدنی اور تاریخی اصل سے کٹنے والوں کی نئی تہذیب و تمدن اور تاریخ کیا ہوں گے؟
یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص جس کے پُرکھے ہزاریوں سے کسی سرزمین پر نسل در نسل آباد ہوں وہ تبدیلی مذہب کے ساتھ ان سے قطع تعلق کرکے خود کو بلاد عرب کی تاریخ سے جوڑلے؟ اس سوال کا مسلم قومیت کی دانش کے پھریرے لہرانے والوں کے پاس تسلی بخش جواب کبھی بھی نہیں ہوا۔
زیادہ سے زیادہ کسی نے تیر مارا تو ’’ملت واحدہ‘‘ کے تصور کو پیش کیا۔ ملت واحدہ کا یہ تصور امت سے لیا گیا۔ یہاں سوال یہ ے کہ امت ’’واحدہ‘‘ یعنی کُل ہے یا پھر امت مختلف رنگ و نسل کی ان قوموں کےافراد سے تشکیل پاتی ہے جنہوں نے کسی مرحلہ وقت اور حالات میں نئے مذہب کو قبول کیا؟
ایک طالب علم کی حیثیت سے ہماری ہمیشہ یہ رائے رہی ہے کہ جیسے پاکستان پانچ قوموں کی فیڈریشن ہے (پاکستان سے مراد موجودہ پاکستان ہے) اسی طرح ’’امت مسلمہ‘‘ بھی اقوام کی فیڈریشن ہے جس میں تبدیلی مذہب کے ساتھ شامل ہونے والوں کی قدیم شناخت گم نہیں ہوجاتی۔
ہماری دانست میں جولوگ تبدیلی مذہب کی بنیاد پر نئی قوم تشکیل دینے کے آرزو مند تھے یا اب بھی ہیں وہ درحقیقت اس مذہبی پاپائیت کے محافظ ہیں جو ہر دور کے بالادست حکمران طبقات کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے اقتدار من جانب اللہ کا فلسفہ پیش کرکے اس طبقاتی نظام کی پشت بانی کرتے ہیں
جو کچلے ہوئے طبقات کے لئے صرف درسِ صبروشکر کی غذا پیش کرتا ہے۔
سوال یہ ہےکہ ریاست کے اجتماعی چلیں یا یوں کہہ لیجئے کہ کسی مسلمان ریاست کے اجتماعی امور سے اس میں بسنے والوں کو محض اقتدار من جانب اللہ کے فلسفے کی بنیاد پر کیسے محروم کیا جاسکتا ہے۔
مزید وضاحت کے ساتھ کچھ اس طرح عرض کرنا ضروری ہے کہ سماجی ارتقا تو اپنے اپنے عہد کے عصری شعور کی روشنی میں ہوگا۔ اپنے اپنے عہد کے عصری شعور کی دولت سے مالامال لوگ اقتدار سازی کا وہ حق طلب کریں گے جو اس یقین پر استوار ہوتا ہے کہ فرد افراد اور پھر قوم یہ مراحل ہیں اور قومی ضرورتوں کا شعوری ادراک وہی رکھ پائیں گے جو قدیم تہذیبی و تمدنی اور تاریخی ورثوں کے ساتھ نئے دین کی تعلیمات کو توازن کے ساتھ لے کر آگے بڑھیں۔
ہمارا اصل المیہ یہ ہے کہ ہمیں یہ باور کرایا جارہا ہے کہ تمہارا عصری شعور ان ہدایات و ارشادات سے متصادم ہے۔ سوال یہ ہے کہ تطہیر ذات کی دعوت دیتا کوئی مذہب کیسے ریاستی نظام کی تشکیل کے لئے حرف آخر ہوگا؟
ریاستی نظام تو ہر دور کی اپنی ضرورت ہے۔ ایک وقت تھا جب خلافت (مسلمانوں میں) کا نظام تھا۔ خلافت کی جگہ بادشاہتوں نے لی وقت بدلا اب کہیں بادشاہتیں ہیں کہیں جمہوریت۔ اب آپ اسے اسلامی جمہوریت کہیں یا مذہبی جمہوریت لیکن جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ اقتدار سازی کا فیصلہ عوام کا حق ہے اور قانون سازی عوام کے منتخب نمائندوں نے کرنی ہے۔
یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ قانون سازی اپنی عصری ضرورتوں اور اگلے مرحلے کی رہنمائی کے لئے ہوتی ہے نہ کہ مذہبی اجتہاد کے لئے۔
وضاحت کے ساتھ یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ریاست یا منتخب ایوان دونوں کو مذہبی اجتہاد کا حق نہیں ہوتا اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی ریاست کی جغرافیائی حدود میں کسی ایک طبقے کی اکثریت تو ہوسکتی ہے، کُلی اکثریت نہیں اس طور ریاستی نظام میں توازن کا حُسن غیرمذہبی بنیادوں پر استوار نظام سے ہی قائم رہ سکتا ہے۔
مذہبی ریاست و نظام دونوں اپنی جغرافیائی حدود میں آباد دیگر طبقات کے مفادات کی اس طور حفاظت نہیں کرسکتے جس طرح سیکولر جمہوریت پر استوار نظام کرتا ہے۔
اس میں فرد ریاست کو اور ریاست فرد کو جوابدہ ہوتی ہے۔ ریاست کا بنیادی فرض یہ ہوتاہے کہ وہ اپنی حدود میں آباد لوگوں کے ہر قسم کے مفادات کا تحفظ کرے اور ان کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائے۔
ہم اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے یہاں ایک طبقہ روز اول سے جمہوریت کو کفر اور سیکولر ازم کو لادینیت کے طور پر پیش کرتا آرہا ہے ان کے فہمی کج نے زندہ حقیقتوں کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے
جبکہ ضرورت (آج تو اس کی اشد ضرورت ہے) اس بات کی ہے کہ گھٹن و حبس کو بڑھاوا دینے والی فہموں سے اجتناب کرتے ہوئے لوگوں کے عصری شعور کا احترام کیا جائے۔
ہمارے یہاں پچھلے چوہتر برسوں سے جو واویلے جاری ہیں اور تجربے ان کا مقصد درحقیقت لوگوں کو ان کے بنیادی حق حکومت سازی سے محروم کرنا اور طبقاتی بالادستی کے عذاب کو دلکش انداز میں مسلط رکھنا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں مکالمہ ہوتا ہے نہ مطالعہ، بالخصوص تقابلی مطالعے کا ذوق پروان چڑھ ہی نہیں پایا۔
یہی وجہ ہے کہ اقتدار اور وسائل پر قابض اشرافیہ تقسیم در تقسیم کو جاری رکھنے کے فلسفے کو اپنی بالادستی کی ضمانت سمجھتی ہے اسی لئے آئے دن ایک نیا تجربہ ہوتا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر