مئی 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قوم کیسے منحرف ہوتی ہے؟|| وجاہت مسعود

آج کی دنیا میں مذہب کے نام پر سیاست سے معیشت اور تمدنی ترقی کا خانہ خراب ہوتا ہے۔ دنیا میں بہت سے ممالک نے یہ سبق سیکھ لیا ہے۔ کچھ ابھی تک شب رفتہ کے خمار میں ہیں۔ آنے والا مورخ ایسی قوموں کا مطالعہ کر کے ایک کتاب لکھے گا۔ عنوان ہو گا ’جب کوئی قوم منحرف ہوتی ہے‘۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم فانی انسانوں کا مشاہدہ اور علم محدود ہے اور کیوں نہ ہو۔ کائنات بہت وسیع ہے اور دنیا بے حد پیچیدہ۔ ادھر اس کرہ خاکی پر ہمارے ٹھکانے کا احوال غالب کے ہم عصر نسیم دہلوی نے ایک ہی مصرعے میں سمو دیا۔ ’اجل ہے استادہ دست بستہ، نوید رخصت ہر ایک دم ہے‘۔ اگر یہ مصرعہ مغلق یا مشکل معلوم ہو تو اسی غزل میں اسی مضمون کا زیادہ معروف مصرع دیکھیے۔ ’نسیم جاگو، کمر کو باندھو، اٹھاﺅ بستر کہ رات کم ہے“۔ آپ کو 1866ء میں انتقال کرنے والے نسیم دہلوی بہت پرانے معلوم ہوں تو عین آج کے لاہور میں شعیب بن عزیز کا مصرع دیکھیے، ’ہم سے کیا پوچھتے ہو، ہم نے ٹھہرنا کب ہے‘۔ شاعری بھی کیا موج سے موج برآمد کرتا جادو ہے۔ دریا کی ساری عمر روانی میں کٹ گئی۔ زمانی اور مکانی معروض سے بندھے ہمارے مشروط علم پر استاد یاس یگانہ نے چھوٹی بحر میں کیا قیامت کا شعر کہا، ’علم کیا علم کی حقیقت کیا / جیسی جس کے گمان میں آئی‘۔ مرزا یاس یگانہ کے یگانہ ہونے میں کیا کلام ہے، وقت کی گرد بیٹھے گی تو لکھنو کے چند برخود غلط رجال اور ہجوم طفلاں کی ناقابل بیان ناانصافی پس منظر میں چلی جائے گی اور اردو ادب کے غواص ایک کڑھے ہوئے ذہن اور منجھے ہوئے ہنر مند شاعر یاس یگانہ کو دریافت کریں گے۔

مرزا یاس یگانہ چنگیزی آج اس لئے یاد آئے کہ مجھے سیاسیات کی دو انگریزی اصطلاحات نے الجھن میں ڈال دیا، Dissident اور Contrarian۔ بنیادی طور پر ان دونوں الفاظ سے ایسے افراد مراد ہوتے ہیں جو اپنے معاشرے اور عہد میں رائج اقدار، رویوں، خیالات، پالیسیوں اور اداروں سے اختلاف کرتے ہیں۔ لوئی میک نیس (Louis MacNeice) نے 1938 کے موسم خزاں میں جب سپین میں جنرل فرانکو کے فسطائی دستے بارسلونا پر قبضہ کرنے کے قریب تھے، ایک اور عالمی جنگ شروع ہونے کو تھی اور جمہوریت پسندوں کی امیدیں ڈوب رہی تھیں، Autumn Journal   کے عنوان سے ایک طویل نظم لکھی تھی۔ ایک بند ملاحظہ کیجئے

Most are accepters, born and bred to harness,

And take things as they come,

But some refusing harness and more who are refused it

Would pray that another and a better Kingdom come…

شاعری ترجمہ کرنے کی چیز نہیں۔ مختصر یہ کہ دنیا میں اکثریت ان کی ہے جو پرکھوں کے راستے کو خاموشی سے قبول کر کے زندگی گزار لیتے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو یہ طوق غلامی پہننے سے انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ نئی اور بہتر دنیا وجود میں آئے۔ یہ مختصر سی اقلیت ہی انسانیت کا وہ اثاثہ ہے جو ہزاروں برس سے دنیا کو بہتر بنانے کی دھن میں راندہ درگاہ رہی ہے۔ نئے خیال، بدلتی ہوئی اقدار، نامعلوم کی دریافت اور ایجاد کے سرچشمے اسی دشوار گزار غار سے نکلے ہیں۔ اب یہاں مشکل یہ پیش آئی کہ اس گروہ کے لئے Dissident اور Contrarian کی دو مختلف اصطلاحات موجود ہیں، ان میں فرق کیسے کیا جائے۔ Dissident کے لئے اردو میں منحرف کا لفظ مستعمل ہو چکا ہے۔ پہچان اس کی یہ ہے کہ منحرف نظام کا مخالف ہے اور اس میں تبدیلی چاہتا ہے۔ منحرف مخلوق آمرانہ ریاستوں میں پائی جاتی ہے اور آمریت کی کلی طور پر مخالفت کرتی ہے۔ سوویت یونین میں سخاروف اور حال ہی میں سعودی صحافی جمال خشقجی منحرف تھے۔ Contrarian عام طور پر نظام کی کلی تبدیلی نہیں چاہتا لیکن اس کی بنیادی خرابیوں کا ناقد ہوتا ہے۔ فیصلہ سازی پر اختیار، وسائل پر اجارے، انسانی آزادیوں اور مختلف گروہوں سے امتیازی سلوک جیسے معاملات پر آواز اٹھاتا ہے۔ میری سمجھ کے مطابق مارٹن لوتھر کنگ، ناﺅم چامسکی، کرسٹوفر ہچنز اور اروندھتی رائے کو Contrarian کہا جا سکتا ہے۔ سوال یہ تھا کہ Contrarian کو اردو میں کیا کہا جائے؟ ترجمے کی استعداد نہ ہونے کے باوجود ایک لفظ سمجھ آیا، یگانہ۔ لطف یہ کہ یاس یگانہ خود بھی معنوی اعتبار سے یگانہ ہی تھے۔ فرمایا، الٹی تھی مت زمانہ مردہ پرست کی / میں ایک ہوشیار کہ زندہ ہی گڑ گیا۔

دہلی جانے والے مسافر بٹھنڈہ اسٹیشن پر پہنچتے تھے تو اپنا سامان سمیٹنے لگتے تھے۔ مولانا صلاح الدین احمد آخری برسوں میں دوستوں سے کہا کرتے تھے، عزیزو ہماری گاڑی بھی بٹھنڈہ پہنچ چکی۔ ہمارا اظہاریہ بھی اب بٹھنڈہ پہنچ رہا ہے۔ کانٹا بدلنے کا وقت آن پہنچا۔ فرد منحرف یا یگانہ ہوتا ہے تو انسانیت آگے بڑھتی ہے۔ اگر کوئی قوم یہ راستہ اختیار کر لے تو اسے منحرف نہیں، کج رو سمجھنا چاہیے۔ قوم کا انحراف کیا ہوتا ہے؟ روح عصر سے انکار، ہم عصر علم سے بے گانگی، نقش کہن پہ جمے رہنے کی ضد اور دوسروں پر غالب آنے کا ہوکا۔ ماضی کی مثالیں جرمنی، جاپان اور سوویت یونین ہیں۔ آج کا شمالی کوریا ایک تاریک براعظم ہے۔ کچھ اور ملکوں کے نام بوجوہ نہیں لکھ رہا کیونکہ آپ خود سمجھ دار ہیں۔ ایسی قوم کے وسائل بے معنی اور غیر مفید شعبوں پر خرچ ہوتے ہیں۔ قوم کا اجتماعی ذہن مختل ہو جاتا ہے۔ معیشت کی کشتی کے تختے اکھڑنے لگتے ہیں۔ عوام میں خوف، عدم تحفظ اور احساس کمتری کے جذبات جنم لیتے ہیں۔ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے بیرونی سازش کا واویلا کیا جاتا ہے، ڈان کیخوٹے والے غیر مرئی دشمن گھڑے جاتے ہیں۔ ادھر باقی دنیا ایسی ریاست کے ان کہے مقاطعہ پر اتر آتی ہے۔ کسی ملک میں بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونا اس کی ایک بڑی نشانی ہے۔ سرد جنگ میں سرمایہ دار دنیا نے اشتراکی فریق کی مخالفت میں مذہب کا ہتھیار استعمال کیا تھا۔ تیس برس پہلے وہ قصہ ختم ہو گیا۔ آج کی دنیا میں مذہب کے نام پر سیاست سے معیشت اور تمدنی ترقی کا خانہ خراب ہوتا ہے۔ دنیا میں بہت سے ممالک نے یہ سبق سیکھ لیا ہے۔ کچھ ابھی تک شب رفتہ کے خمار میں ہیں۔ آنے والا مورخ ایسی قوموں کا مطالعہ کر کے ایک کتاب لکھے گا۔ عنوان ہو گا ’جب کوئی قوم منحرف ہوتی ہے‘۔

بشکریہ : ہم سب

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: