سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے چند دنوں سے سیاسی افراتفری کے ماحول میں عوام کی ایسی درگت بن رہی ہے کہ الامان الحفیظ مگر کسی کو عوام سے چونکہ کوئی لینا دینا نہیں اسی لئے تو ملتان کے مخدوموں کے مابین تندوتیز جملوں کے تبادلے نے سیاست کے درجہ حرارت کو اور بڑھادیا ہے اسی لئے تو ملتان کا ٹمپریچر بھی بڑھ سا گیا ہے۔ سیاست چونکہ ہمارے ہاں امیروں اور بڑے لوگوں کے شغل میلے کا نام بن کر رہ گئی ہے اسی لئے تو کسی کو عوام کی کوئی پروا ہی نہیں۔ ٹاک شوز سنتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ کہ بس حکومت آج گئی یا کل گئی تاہم اس تمام تر تلخ حقیقت میں شکریہ تو نوازشریف اور ان کے ڈاکٹرز کا ہمیں ادا کرنا چاہیے کہ انہوں نے عوام کو تلخی حالات سے بچانے کے لئے کچھ Comic Relief تو فراہم کیا کہ پاکستان آنے سے بچنے کے لئے ایسی بیماری ڈھونڈی کہ دل عش عش کراٹھا اور اس بات پر یقین مزید پختہ ہوگیا کہ پاکستان میں عوام اور خوشحالی کا چونکہ کوئی لینا دینا نہیں ہے اسی لئے اگر مہنگائی، بیروزگاری اور غربت میں اضافے کی خبر سن کر عوام کے دل ٹوٹ جاتے ہیں تو یہ ان کمی کمین لوگوں کے لئے کوئی اچنبھے کی بات ہرگز نہیں ہونی چاہیے کیونکہ دل ٹوٹنے کے چونچلے تو بڑے لوگوں کو سوٹ کرتے ہیں اسی لئے تو میاں نوازشریف نے جو حالیہ میڈیکل رپورٹ عدالت میں جمع کروائی ہے اس میں واضح طور پر کہا ہے کہ ان کا دل دبائو کے باعث ٹوٹ سکتا ہے جبکہ دوسری طرف سابق وزیراعظم کی صحت کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے الندن میں ایک فیکٹری کا دورہ کیا بلکہ اپنے بیٹوں کے ساتھ بریفنگ بھی لی۔ وائرل ہونے والی ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ میاں نوازشریف کس قدر فٹ ہیں۔ ادھر حکومت نے جعلی میڈیکل رپورٹ جمع کروانے پر عدلیہ سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اب کوئی ہماری حکومت کو سمجھائے کہ بھئی میاں نوازشریف کوئی عام آدمی نہیں بلکہ ان کا تعلق تو اس طبقے سے ہے جسے شروع سے ہی نوازا گیا ہے اس لئے اگر کوئی مجھ جیسا عام شخص اس قسم کی مراعات لینے کی خواہش بھی کرتا ہے تو اسے پہلے دس مرتبہ ضرور سوچنا چاہیے کیونکہ عوام کی حیثیت تو ایک کیڑے مکوڑے کی سی ہے جس کی کوئی وقعت نہیں۔ اگر کوئی غریب آدمی اور عام شہری بھی یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اسے جیل میں رہ کر سٹریٹ ہوتا ہے اسے بھی رعایت ملنی چاہیےجیسے اس کی والدہ بیمار ہیں ان کی تیمارداری کے لئے 2،2 برس تک ضمانت بھی ملنی چاہیے تو ایسے شودے لوگوں کویہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق سوچیں کیونکہ آقا اور رعایا میں بڑا واضح فرق ہوتا ہے ، عوام چونکہ رعایا ہیں اور اگر حکمران طبقہ ان کی تھوڑی بہت لتر پریڈ کرتا ہے تو ان غریب اور دھرتی پر بوجھ لوگوں کو اپنی حیثیت کو ضرور ذہن میں رکھنا چاہیے بلکہ ہمارے غریب والدین کو اپنے بچوں کو یہ بات بچپن سے سمجھادینی چاہیے کہ پاکستان میں دو طرح کے قوانین ہیں ایک امیر کے لئے اور دوسرا غریب کے لئے۔ امیر کے لئے قانون چونکہ موم کی گڑیا کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے وہ اسے اپنی سہولت کے مطابق موڑ سکتے ہیں جبکہ غریب کو اس قسم کی کوئی سہولت سرے سے ہی میسر نہیں ہے۔ اس لئے ایسے خواب ہی نہ دیکھئے جس کی کوئی تعبیر ہی نہ ہو۔
ابھی حالیہ دنوں میں ایک ایسا عدالتی فیصلہ آیا ہے جس سے میرے موقف کو مزید تقویت ملتی ہے کہ جج صاحبان اپنے بیوی بچوں کے اثاثوں کے ذمہ دار نہیں۔ اگرچہ سیاسی حلقوں میں اس پر بہت بحث کی جارہی ہے اور اس حوالے سے دو طرح کی آراء پائی جاتی ہیں۔ وفاقی وزیر فواد چوھری کا کہنا ہے کہ فروغ نسیم کا سوال اہم ہے کہ اگر جج صاحبان اپنے بیوی بچوں کے اثاثوں کے ذمہ دار نہیں تو پھر سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کا احتساب کیسے ممکن ہے۔ ویسے عوام کے لئے یہ کوئی نئی بات ہرگز نہیں ہونی چاہیے کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے قائد اور صدر کی جانب سے بھی عدالتوں میں چلنے والے اپنے مقدمات کے بارے میں یہی کہا جارہا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ ان کے بینکوں میں اتنے پیسے کہاں سے آئے یہی نہیں بلکہ میاں شہباز شریف کا بھی کچھ ایسا ہی موقف ہے کہ ان کی بیوی کے اکائونٹ میں پیسے کیسے آئے وہ یہ نہیں جانتے۔ اور اب اگر جج صاحبان اپنے بیوی بچوں کے اثاثوں کے ذمہ دار نہیں ہیں تو پھر اس طبقے کو Previledged ہی کہا جائے گا جن پر قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اب اگر کسی کی بیوی بچوں کے اکائونٹس میں لاکھوں کروڑوں ڈالر ہوں تو کوئی اچنبھے کی بات بات کسی کے لئے نہیں ہونی چاہیے کیونکہ وہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہیں جن پر پاکستان کا قانون لاگو نہیں ہوتا۔ تاہم یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ ہم مسلمان اس دین کے پیروکار ہیں جس میں حکمران اپنے کپڑوں کے بھی جواب دہ ہیں مگر ہماری عدالتوں نے قاضی کو اس کے بیوی بچوں کے اثاثوں کے جوابدہ ہونے کا پابند نہیں سے بھی بری الذمہ قرار دے دیا ہے یعنی قانون صرف غریب کے لئے ہی ہے اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ آئین و قانون میں یہ بات واضح طور پر درج کردی جائے کہ اس کا اطلاق صرف اور صرف غریبوں پر ہی ہوگا، امیروں کو اس سے استثنیٰ حاصل ہے۔ ویسے اس عدالتی فیصلے کے بعد اب تو دبے لفظوں میں نہیں بلکہ برملا لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عدلیہ کو عالمی رینکنگ میں اپنی تیزی سے گرتی ساکھ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے جوکہ کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ پاکستان میں قانون کی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ منی لانڈرنگ کیس میں سندھ ہائیکورٹ نے ایف آئی اے کو ٹک ٹاکر حریم شاہ کے خلاف کارروائی سے روک دیا ہے جس کے بعد پاکستان کے قانون کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ انا للہ و انا الیہ راجعون، یعنی پاکستان کو قانون کی عمل داری نہ ہونے والے ممالک کی فرہست میں شامل کروانے میں عدالتوں کا بھی قصور ہے ظاہر ہے کہ جہاں فیصلے اس قدر تاخیر سے سامنے آتے ہیں کہ رہے نام اللہ کا۔
ابھی چند روز قبل ہی ایک ایسی خاتون کو قتل کے مقدمے سے باعزت بری کیا گیا جو 7سال قبل ہی وفات پاگئی تھیں جبکہ عثمان مرزا اور نور مقدم کیس میں جس طرح مجرموں کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے اس کے بعد تو سچ میں دل خون کے آنسو روتاہے کہ قانون پاکستان میں واقعی اندھا ہوچکا ہے اسی لئے تو اسے اصل حقائق نظر ہی نہیں آرہے۔ بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ پاکستان نہیں بلکہ انسانی تاریخ کا بدترین فیصلہ ہے کہ جج اپنے اور اپنے خاندان کا حساب نہیں دے سکتےمگر ہر شخص سے اس کا اور اس کے خاندان کا حساب ضرور لے گا اور پھر فیصلہ بھی کرے گا۔ جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال نے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اثاثے چھپانے کا مطلب ہوا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے اثاثے جاننا عوام کا حق ہے ججز مریخ سے نہیں اترے وہ بھی ہم میں سے ہی ہیں۔ ادھر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ وزیراعظم عمران خان بھی عدالت پر برہم نظر آئے ہیں۔ ابھی بہاولپور میں انہوں نے لندن بھاگے شخص کی مدد کے لئے عدالت جانے والوں پر برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ تاحیات نااہلی رکوانے والوں کو شرم آنی چاہیے۔ اس پر کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ انصاف میں تاخیر انصاف کو جھٹلانے کے مترادف ہے اس لئے اگر ایک ایسا نظام جو عوام کے ڈلیور نہیں کرپارہا اور اگر عوام اس کو تبدیل کرنے کے خواہش مند ہیں تو اس تبدیلی پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ایک ایسا نظام جو عوام کی بجائے کرپٹ لوگوں کے مفادات کا تحفظ کررہا ہو اس کو تبدیل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان کے عوام اس وقت بڑے ریلیف کے منتظر ہیں اور اگر نظام کی تبدیلی سے ان کی حالت زار بہتر ہوسکتی ہے تو ملک و قوم کے مفاد میں ایسا کرنا کوئی گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا اس لئے ضروری ہے کہ اس بارے ریفرنڈم بھی کروایا جاسکتا ہے کیونکہ جمہوریت نے عوام کو سوائے ذلالت کے دیا ہی کیا ہے؟ ذرا سوچئے!!
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ