حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قصے کہانیاں اور خبریں بہت ہیں، گرما گرم بھی اور نرما نرم بھی۔ مثلاً قائد انقلاب سول سپر میسی حضرت مولانا فضل الرحمن نے فرمایاہے کہ ’’عمران خان کا حشر اشرف غنی جیسا ہوگا‘‘۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد رخصت (ریٹائر) ہوگئے ان کی جگہ جسٹس عطا محمد بندیال نے نئے چیف جسٹس کے طور پر حلف اٹھالیا ہے ،
وزیراعظم عمران خان نے سپریم کورٹ بار کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اگلی درخواست دیں گے ملک کی ساری جیلیں کھول دی جائیں۔ سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ اگر چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر درخواستوں پر اعتراضات لگائے جاتے رہے تو نظام انصاف پر سوال اٹھتے رہیں گے۔
دلچسپ قصہ ہمارے محبوب قائد چیف آف سول سپر میسی کامریڈ میاں محمد نوازشریف حال مقیم لندن کی وہ طبی رپورٹ ہے جو ان کے وکلاء نے عدالت میں جمع کروائی ہے۔
کامریڈ لندن میں مقیم ہیں اور میڈیکل رپورٹ پر دستخط کرنے والے ڈاکٹر فیاض شال امریکہ میں ہوتے ہیں۔ خیر یہ کوئی بڑی بات نہیں آج کی جدید دنیا میں آن لائن ٹیسٹ رپورٹس بھجواکر رائے لی جاسکتی ہے۔
دلچسپ تو بیماری کی وجوہات ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ نوازشریف اپنی اہلیہ کی وفات کی وجہ سے شدید ذہنی دبائو کا شکار ہیں، دل کے مریض ہیں، جب تک ان کی انجیوگرافی نہیں ہوجاتی، ادویات باقاعدگی سے کھائیں چہل قدمی جاری رکھیں اور علاج گاہ کے قریب مقیم رہیں۔
3صفحات پر مشتمل اس میڈیکل رپورٹ میں جو ایڈووکیٹ امجد پرویز کے توسط سے لاہور ہائیکورٹ میں جمع کروائی گئی لکھا ہے کہ شدید ذہنی دبائو کا شکار نوازشریف علاج کے بغیر پاکستان گئے تو حالت بگڑ سکتی ہے، کیونکہ ذہنی دبائو کے ماحول میں بیماری مزید بگڑنے کا خطرہ ہے۔
انجیو گرافی کے بغیر لندن سے نہ جائیں ذہنی دبائو کے بغیر سرگرمیاں جاری رکھیں۔ کورونا سے بچائو کے اقدامات کریں۔ ایئرپورٹس اور پبلک مقامات پر دل کے مریض کو کورونا لاحق ہونے کا خطرہ، سانس لینے میں دشواری اور دوسرے مسائل ہوں گے اس لئے احتیاط کی جائے۔
لندن میں مقیم مریض کی طبی رپورٹ واشنگٹن سے جاری ہونے پر واویلا درست نہیں۔
سائنس نے ترقی کرلی ہے کلوننگ کے مراحل طے ہوچکے اب تو زندگی کو روک دینے پر تحقیقات ہورہی ہیں۔ سائنس دان پُرامید ہیں کہ وہ دن بھی آئے گا جب موت کو شکست دی جاسکے گی۔
اس میڈیکل رپورٹ کو پڑھنے کے بعد ہمزاد فقیر راحموں نے دو لطیفے اور ایک واقعہ بھی سنایا لیکن ان سے عدم اتفاق کی وجہ سے انہیں آگے بڑھانے سے قاصر ہوں۔
میاں صاحب ، صاحبِ ثروت آدمی ہیں وہ کہیں بھی علاج کرواسکتے ہیں ، لاہور اس وقت آلودگی میں دنیا کا نمبرون شہر ہے۔ میاں صاحب جماندرو لاہوری ہیں۔ دل کے مریض کے لئے صاف ستھری فضا پرسکون ماحول، ٹینشن فری زندگی کی ضرورت ہوتی ہے۔
ٹینشن کے ساتھ زندگی دل کے غریب غربا مریض بسر کرتے ہیں اور یہ غریب لوگ ڈھیٹ بھی بہت ہوتے ہیں بالکل فقیر راحموں کی طرح، جو دل کے تین عدد لکھے پڑھے (رپورٹس موجود ہیں) دورے بھگتاکر نہ صرف زندہ ہیں بلکہ اتنا ڈھیٹ ہے کہ ادویات سے بھی پرہیز فرماتا ہے ،
معاف کیجئے گا قبلہ میاں محمد نوازشریف کی بیماریوں اور طبی رپورٹس نے کچھ جذباتی کردیا ہم ان کے بہی خواہوں میں سے ہیں اور دو باتیں جانتے ہیں،
پنجاب کے ڈومیسائل والے وزیراعظم کو پھانسی اور گولی سے نہیں محفوظ راستے فراہم کرکے منظر سے ہٹایا جاتا ہے۔
آپ اس جملہ معترضہ کا یہ ہرگز مطلب نہ لیجئے گا کہ ہم پنجاب کے ڈومیسائل کی آڑ میں سندھ کے بلدیاتی نظام پر رخصت ہونے والے چیف جسٹس جناب گلزار احمد کے اس فیصلے پر تنقید کرنا چاہتے ہیں جو انہوں نے اپنے "بھائی لوگوں” کی درخواست پر ریٹائرمنٹ والے دن سنایا۔
چلیں چھوڑیں آیئے آپ کو سال 1983ء میں لئے چلتے ہیں۔ ملتانیوں کے لئے یہ وہ تاریخی سال ہے جب ہمارے ملتانی مرشد مخدوم زادہ شاہ محمود قریشی برطانیہ سے اعلیٰ تعلیم مکمل کرکے اپنے جنم شہر واپس لوٹے اور ایئرپورٹ سے سیدھا ضلع کچہری ملتان پہنچے تھے ، جہاں انہوں نے مخدوم رشید کے علاقے کی ایک یونین کونسل کے چیئرمین کے لئے کاغذات نامزدگی داخل کئے۔
بدقسمتی سے وہ یہ الیکشن مختار ہاشمی مرحوم سے ہار گئے تھے۔ مختار ہاشمی مرحوم اپنے مخدوم جاوید ہاشمی کے برادرِ بزرگ تھے۔ چک ترپئی یونین کونسل سے ان کا ہارنا بہت عجیب تھا اس حلقے میں آبائی رقبہ، مزارعوں، مریدوں اور خلیفوں کی وافر تعداد موجود تھی اور ہے ۔
الیکشن ہارنے کی وجہ سے نوجوان شاہ محمود قریشی ذہنی دبائو میں تھے (یہ ذہنی دبائو جناب نواز شریف جیسا بالکل نہیں تھا) بڑے مخدوم صاحب ، مخدوم سجاد حسین قریشی مرحوم اس صورتحال سے بہت پریشان ہوئے انہوں نے نوجوان مخدوم زادے کے 2دوستوں کو طلب کیا اور حکم دیا
’’بابا سئیں اپنے بھرا دا کجھ کرو بہوں پریشان ہے‘‘
یاد پڑتا ہے کہ جی بہلانے کے لئے ملتان کے ایک تعلیمی ادارے میں رنگارنگ تقریب کااہتمام ہوا تھا۔ مخدوم زادہ خوش ہوا، دوستوں کو ’’انعام‘‘ بھی دیا۔
اب آیئے سال 2001ء میں ملک کا اقتدار اعلیٰ جنرل پرویز مشرف کے پاس تھا۔
جنرل سید پرویز مشرف کاظمی دہلوی کو تو آپ جانتے ہی ہوں گے ہمارے کمانڈو صدر تھے آج کل دبئی میں مقیم ہیں۔ ان کے دبدبے کا عالم یہ تھا کہ سپریم کورٹ نے ظفر علی شاہ کیس میں انہیں بن مانگے آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار عطا کردیا تھا۔
جنرل صاحب نے ملک کو نیا بلدیاتی نظام دیا اس نظام کے خالق بھی خیر سے جنرل سید تنویر نقوی تھے (نقوی صاحب ویسے بندے پڑھے لکھے اور دانشور قسم کے تھے) سابق سپیکر قومی اسمبلی یوسف رضا گیلانی جنرل پرویز مشرف کے دست حق پرست پر بیعت نہ کرنے کے جرم میں جیل میں تھے۔
(گیلانی جیسا کیس وسیم سجاد کے خلاف بھی تھا لیکن انہوں نے بیعت کرکے امان لے لی تھی)
مخدوم زادہ شاہ محمود قریشی پیپلزپارٹی کی طرف سے ضلعی ناظم کے امیدوار تھے۔ یوسف رضا گیلانی کے چھوٹے بھائی احمد مجتبیٰ گیلانی تحصیل ناظم کے۔
کونسلروں کے ایک اجتماع میں یوسف رضا کے بڑے صاحبزادے عبدالقادر نے اپنی زندگی کی پہلی تقریر کرتے ہوئے کہا تھا
’’آپ جانتے ہیں بابا سئیں جیل میں ہیں ان کی آپ سے درخواست اور حکم ہے کہ ضلع ناظم کا ووٹ مخدوم شاہ محمود قریشی اور تحصیل ناظم کا میرے چچا مجو سائیں (احمد مجتبیٰ گیلانی) کو دیں۔
اس جلسہ کے بعد جناب قریشی خوشی سے نڈھال تھے بات بات پر وہ پلٹ کر گاڑی میں پیچھے بیٹھے دوستوں کو کہتے
’’ڈیکھو یار آج تاں گیلانی دے بال عبدالقادر نے میڈے کیتے ووٹ منگنڑ‘‘۔
چلیں ایک قصہ اور سن لیجئے۔ 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات میں ہمارے مخدوم زادہ شاہ محمود قریشی نے جاوید ہاشمی کے مقابلہ میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی ایک ایک نشست پر الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ یہ وہی الیکشن ہے جب پنجاب کے چند بڑے پیر خانوں کے سجادہ نشین اس وقت کے کور کمانڈر ملتان کے گھر ڈیرے ڈال کر بیٹھ گئے تھے
ان پیروں کی ایک ہی خواہش تھی کہ
’’ہمیں نہیں پتہ بس آپ ہمارے مخدوم زادے کو صوبائی اسمبلی کا رکن لازمی بنوادیں‘‘۔ اس فرمائش کی وجہ یہی تھی کہ سبھی جانتے تھے کہ قومی اسمبلی کی نشست جاوید ہاشمی جیت جائیں گے۔
ارے ساعت بھر کیلئے رُکئے یاد آیا مخدوم صاحب 2002ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے سیکرٹری طارق عزیز نے مخدوم صاحب سے رابطہ کیا اور انہیں ترغیب دی کہ اگر وہ پیپلزپارٹی پیٹریاٹ کا حصہ بن جائیں تو ہمارے امیدوار سپیکر قومی اسمبلی ہوں گے۔
مخدوم صاحب تیار ہوگئے۔ کسی حاسد نے محترمہ بینظیر بھٹو کو ٹیلیفون پر اس سودے بازی کی اطلاع دے دی۔ (محترمہ ان دنوں بیرون ملک مقیم تھیں) بی بی شہید نے مخدوم زادہ شاہ محمود قریشی کو فون کیا اور بولیں
’’شاہ محمود بھائی ہم آپ کو وزیراعظم کے منصب کے لئے پیپلزپارٹی کا امیدوار بنارہے ہیں آپ سپیکر کیوں بننا چاہتے ہیں؟‘‘ مخدوم صاحب میر ظفراللہ جمالی کے مقابلہ میں پیپلزپارٹی کی جانب سے وزیراعظم کے امیدوار بنائے گئے۔
یہ وہی الیکشن ہیں جس میں مولانا فضل الرحمن متحدہ مجلس عمل (ملاملٹری الائنس) کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار تھے اور ہمارے موجودہ محبوب وزیراعظم عمران خان نے مولانا فضل الرحمن کو ووٹ دیا تھا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ