حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید یوسف رضا گیلانی کو یہی کرناچاہیے تھا جو انہوں نے کیا۔ سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے وضاحت کے ساتھ کہا کہ "اسٹیٹ بینک بل کی منظوری میں اپوزیشن لیڈر (میں نے نہیں) چیئرمین سینیٹ نے حکومت کے سہولت کار کا کردار ادا کیا کیونکہ انہوں نے سینیٹ کی تاریخ میں پہلی بار ٹائی پڑنے کی صورت میں (چیئرمین نے) ووٹ کاسٹ کیا”، اپنی تقریر کے اختتام پر انہوں نے کہا کہ ”
میں نے اپوزیشن لیڈر کے عہدے سے استعفیٰ پارٹی قیادت کو بھجوادیا ہے۔ میں نے زندگی بھر الزامات اور کردار کشی کی سیاست نہیں کی اس لئے یہ جو کچھ کہا جارہا ہے وہ میرے لئے تکلیف کا باعث ہے”۔
ادھر صورتحال یہ ہے کہ پارلیمانی روایات سے یکسر نابلد مجاہدین سول سپر میسی نے وہ کون سی گالی ہے جو پچھلے چند دنوں میں انہیں (سید یوسف رضا گیلانی کو) نہیں دی۔ ہمارے ایک معلم دوست کا تو بس نہیں چلا ورنہ وہ پتہ نہیں کیا کردیتے۔
سینیٹ میں اسٹیٹ بینک بل کی منظوری کے حوالے سے تفصیلات پچھلے کالم میں عرض کرچکا، بل کو ایجنڈے میں شامل کرنے اور نوٹیفکیشن کے اوقات کار جو گزشتہ کالم میں عرض کئے تھے جناب گیلانی نے اپنی تقریر میں انہی اوقات کا ذکر کیا۔
گو کہ گیلانی کی تقریر کے بعد (ن) لیگ کی سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ صورتحال کا ذمہ دار گیلانی صاحب کو قرار دینا درست نہیں ساری اپوزیشن اس کی ذمہ دار ہے
لیکن (ن) لیگ کے حامی مجاہدین اور ایک میڈیا گروپ بدستور گیلانی کو نشانہ بنائے ہوئے ہے۔
(ن) لیگ کے مریم میڈیا سیل اور ایک خاص میڈیا گروپ نے یوسف رضا گیلانی کے خلاف مہم مریم نوازشریف کے ایما پر شروع کی یہی تلخ حقیقت ہے۔ اپنے خاندانی اختلافات اور پارٹی میں موجود مخالف لابی کی آراء ہر دو کو دبانے کے لئے مریم نواز نے موقع کی مناسبت سے پتہ کھیلا۔
حالانکہ 2ارکان (ن) لیگ کے بھی غیرحاضر تھے۔ پی ڈی ایم کے مجموعی طور پر 7ارکان سینیٹ اجلاس میں نہیں آئے تھے لیکن قصور سارا گیلانی کا ہے۔ اس صورتحال میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ (ن) لیگ پیپلزپارٹی کے لئے اپنی ماضی کی سیاست کی طرف پلٹ رہی ہے۔
سینیٹ میں قائد ایوان شہزاد وسیم نے یوسف رضا گیلانی سے سرکاری لوگوں کے بیانات پر معذرت کرتے ہوئے کہا جناب گیلانی قابل احترام ہیں ان کی دل آزاری پر میں معذرت چاہتا ہوں۔
جہاں تک ملتان کے ہی ایک اور مخدوم کے حالیہ بیانات کا تعلق ہے تو نرم سے نرم الفاظ میں ان بیانات کو ذاتی رنج اور حسد کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ مخدوم صاحب خود کو 2008ء میں وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر پیش کرتےرہے تھے۔
اپنی لابنگ کے لئے انہوں نے اسٹیبلشمنٹ اور چند بااثر خاندانوں سے آصف علی زرداری پر زور بھی دلوایا یہاں تک کہ ایک مرحلہ پر مرحوم مخدوم امین فہیم نے بھی محترمہ فریال تالپور سے کہا کہ شاہ محمود قریشی وزیراعظم کے طور پر اچھے امیدوار ہوں گے۔ مزید وضاحت یوں کی کہ قریشی صاحب کا سندھ اور پنجاب میں بڑا حلقہ ہے (یعنی متاثرین و مریدین) بات بن نہ پائی اور پھر یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بن گئے۔
اس لئے مخدوم شاہ محمود قریشی کے حالیہ بیانات کو قدیم قریشی گیلانی چپقلش سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔
اب آیئے اس طرف، سینیٹ کے جس اجلاس سے اسٹیٹ بینک بل منظور ہوا اس میں اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے7 ارکان (اسحق ڈار کے علاوہ) موجود نہیں تھے کیا کسی جماعت نے اس وقت تک اپنے ارکان سے غیرحاضری کی وجہ دریافت کی؟ سادہ جواب ہے کہ بالکل نہیں کی۔
ساعت بھر کے لئے رک کر یہ جان لیجئے کہ گزشتہ شب (ن) لیگ میں مریم نواز کے دھڑے کا بندہ سمجھے جانے والے رکن قومی اسمبلی جاوید لطیف نے مشاہد حسین (یہ (ن) لیگ کے سینیٹر ہیں) اور گیلانی کو بل کی منظوری کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ کیا جاوید لطیف نے یہ بات ذاتی حیثیت میں کہی؟ جی نہیں ان کا موقف بھی طے شدہ پروگرام کا حصہ ہے۔
کامریڈ مولانا فضل الرحمن کا ایک سینیٹر بھی اجلاس میں موجود نہیں تھا کیا اس سے جواب طلبی ہوئی؟
ان سطور میں قبل ازیں عرٗض کرچکا کہ اگر اپوزیشن بل کی منظوری کو کسی طرح بھی روک لیتی تو حکومت مشترکہ اجلاس سے اسے منظور کروالیتی۔ یہ بھی عرض کیا تھا کہ مشترکہ اجلاس کا نوٹیفکیشن تیار تھا۔
اس بل کی منظوری حکومت کے لئے زندگی موت کا مسئلہ تھا کیونکہ وزیر خزانہ شوکت ترین اکتوبر 2021ء میں آئی ایم ایف سے جو سمجھوتہ کرکے آئے تھے اس پر حرف بہ حرف عمل حکومت کی مجبوری تھی۔ وزیر خزانہ اچھی طرح جانتے تھے اور ہیں کہ اگر بل منظور نہ ہوا تو آئی ایم ایف کا ردعمل کیا ہوگا۔
بدقسمتی سے ہم سیاسی تنگ نظری کا شکار ہیں۔ دانش کے گھوڑے دوڑاتے اور تلواریں لہراتے بعض تو وہ ہیں جنہیں یہ ہی پتہ نہیں کہ معاملہ ہے کیا اور ہوا کیا ہے انہیں صرف پیپلزپارٹی کو ’’گالی‘‘ دینا ہوتی ہے اس کے لئے انہیں ایک اچھا موقع مل گیا۔
اور انہوں نے سوشل میڈیا کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا پر الٹیاں کرنا شروع کردیں۔
ہونا یہ چاہیے کہ ان میں سے چند کے خلاف یوسف رضا گیلانی کو وہی راستہ اپناناچاہیے جو سندھ کے وزیر اطلاعات سعید غنی نے الیکٹرانک میڈیا کے چند مجاہدوں کے خلاف اختیار کیا۔ یعنی وہ سیدھے سبھائو عدالت میں گئے اور کہا ثابت کیجئے اپنے الزام۔
مکرر عرض ہے بالائی سطور پر بلاوجہ عرض نہیں کیا کہ گیلانی کے خلاف مہم مریم نواز کی سوشل میڈیا ٹیم کی کارستانی ہے۔ بدقسمتی سے یہی تلخ حقیقت ہے۔
یہ جتنے لوگ گیلانی کے خلاف آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہیں ان میں سے کتنے لوگوں نے اس وقت زبان کھولی تھی جب مریم نواز شاہد خاقان عباسی کے ہمراہ لاہور کے ایک ’’بڑے گھر‘‘ میں پنجاب سے سینیٹ کی نشستوں کا فارمولہ طے کرنے گئی تھیں؟
یہ فارمولہ اس لئے طے کیا گیا تھا کہ اگر (ن) لیگ، ق لیگ اور تحریک انصاف میں معاہدہ نہ ہوتا تو پنجاب میں سینیٹ الیکشن کا چھابہ الٹنے کا خطرہ تھا۔
شاہد خاقان عباسی نے راولپنڈی کے بڑے گھر میں دو ملاقاتیں کیں۔ مجاہدین سول سپر میسی کی زبانیں تالو سے لگ گئیں۔
یوسف رضا گیلانی کے خلاف (ن) لیگی مجاہدین کی دشنام طرازی کی وجہ پیپلزپارٹی کا پنجاب میں متحرک ہونا بھی ہے۔ ضروری نہیں کہ پیپلزپارٹی کوئی معجزہ برپا کردے مگر اس کی واپسی پنجاب کی ملکیت کے دعویداروں کو قبول نہیں۔
بار دیگر عرض ہے پارلیمانی روایات سے نابلد "انجمن تحفظ ناموس ابو مریم جاتی امرا شریف” کے مجاہدین کی زندگی کا ایک ہی مقصد ہے وہ پیپلزپارٹی کو دیوار سے لگانا۔
عجیب بات یہ ہے کہ ان کے نزدیک دس سالہ معاہدہ جلاوطنی کرکے پتلی گلی سے نکل جانا سیاست ہے۔ بیماری کے کمرشل پروگرام کرواکر اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے علاج کے لئے جانا بھی اصول پسندی ہے۔
خیر چھوڑیئے ان کی وہ ہی سمجھیں ہمیں کیا۔
ہمارے دوست ساجد رضا تھہیم ایڈووکیٹ نے حکومت گیلانی ڈیل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ
یہ کسی ڈیل ہے جو حکومت اور پیپلزپارٹی کے درمیان ہوئی ہے لیکن (ن) لیگ کے ایک میڈیائی محبوب اور ایک رہنما احتساب عدالتوں سے بری ہوگئے؟
یہ سوال اس لئے درست ہے کہ پیپلزپارٹی پر ڈیل کی پھبتیاں کسنے والے تلخ حقائق سے آنکھیں چراکر اُدھم مچاتے ہیں تو عجیب لگتا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر