حسنین جمال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فی میل ڈاگ کو اردو میں کیا کہتے ہیں؟ اس لفظ کو گھونگھٹ اوڑھانے کی ضرورت یہاں کیوں تھی، کُل ملا کر ساری کہانی یہ ہے۔
ایک خاتون نے کہا: ’وفاداری تو کتے میں ہوتی ہے، کمال!‘ جنہیں کہا گیا، ان کا جواب یہ تھا: ’کتے ہی وفادار ہوتے ہیں۔‘
فرق سمجھ میں آ گیا؟ کوئی بھی جانور پالنے سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم اس قابل ہیں بھی یا نہیں؟ ہمارا دماغ، ہمارے آس پاس کے لوگ، ہماری روایات، ہمارے پاس موجود پیسے اور اس جانور کی عام عادتیں، کیا ہمیں اجازت دیں گی کہ ہم اسے پال سکیں؟
کتے کی مثال یہاں اس لیے دی کہ اردو چھوڑیے انگریزی میں بھی فی میل کتے کے لیے جو لفظ استعمال ہوتا ہے وہ نوے جگہ گالی کے طور پہ ہوگا اور دس فیصد اسے بطور جانور آپ کہیں لکھا دیکھیں گے یا بولتے سنیں گے۔
تو وہ جانور جس کے متعلق ہمارے خیالات ایسے ہیں، اگر ہم اسے پال بھی لیں، کیا ہم اسے ایک روح والے جاندار کی حیثیت سے ٹریٹ کر سکیں گے؟
آپ کوئی جانور پال لیں تو بعض اوقات دوسرے انسان عجیب و غریب لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جس کے پاس بلی ہے اس کی سمجھ میں کبھی نہیں آئے گا کہ گھر آئے مہمان کو میری بلی سے کیا دشمنی ہے؟ یہ ٹانگوں سے اسے کیوں پرے کر رہا ہے یا صوفے پہ اپنے پاس کیوں نہیں بیٹھنے دے رہا۔ اس سے زیادہ مسائل کا سامنا ان لوگوں کو ہوتا ہے جنہوں نے کتا پالا ہوا ہو۔
پھر کبوتر ہیں، مرغے مرغیاں ہیں، خرگوش ہیں، مچھلیاں، کچھوے، طوطے اور لاتعداد جاندار کہ جنہیں ہم پالتے شوق سے ہیں لیکن کچھ دنوں میں ہمارا دل بھر جاتا ہے۔
جانوروں کی سائیڈ پہ تھوڑی دیر کھڑے ہوں اور سوچیں کہ دل بھر جانے کے بعد آپ نے کیا کیا؟
کتے کی مثال لیں تو وہ گھر والوں سے اتنا زیادہ اٹیچ ہوتا ہے کہ ان کے موڈ تک پہچانتا ہے۔ ہارون صاحب نے ایک کتا پالا ہوا ہے، اس دن میں نے ان سے پوچھا کہ سر کوئی ایسا عجیب رویہ جو اتنے عرصے بعد بھی اپنے پالتو جانور کے حوالے سے آپ کو حیران کن لگتا ہو۔ کہنے لگے کہ ’وہ مجھے بیٹی سے یا مسز سے اونچی آواز میں بات تک نہیں کرنے دیتا۔ اگر میری ٹون ذرا سی بدل جائے تو ایک دم غرا کے بیچ میں آ جاتا ہے جیسے کہہ رہا ہو کہ ’دھیان سے!‘ اسی طرح گھر سے باہر ساتھ جائے گا تو ایسا چوکنا کہ پیچھے سے بھی آنے والے کی طرف مکمل توجہ ہوگی اور سوال ہی نہیں کہ اُس سے بھڑے بغیر کوئی بندہ مجھ تک پہنچ ہی جائے۔‘
اب دیکھیں کہ یہ ایک جانور کا عام رویہ ہے۔ اس کے علاوہ آپ کے ساتھ رہنے کے بعد جو عادتیں وہ پالتا ہے اس میں وقت پہ خوراک، ٹہلائی، دوا، علاج، لوگوں کی آس پاس موجودگی، چوبیس گھنٹے کی چھت، موسم سے تحفظ اور اپنے جیسے دوسرے جانوروں سے دوری، وہ ان سب کا عادی ہو جاتا ہے۔
جس وقت آپ اپنے پالتو جانور سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، بیچتے ہیں، کسی دوسرے کو دیتے ہیں یا گھر سے نکال دیتے ہیں تو سمجھیے آپ نے آسائشوں کا وہ پورا سیٹ اس سے لے لیا۔ نہ اس کے پاس وہ فیملی ہے، نہ وہ چھت ہے، نہ وہ خوراک کا وقت ہے، نہ وہ ماحول ہے اور عین ممکن ہے اپنے جیسے دوسرے جانور آس پاس دیکھ کر وہ یا تو لڑ پڑے یا بالکل چپ ہو کے مار کھاتا رہے اور بہت جلدی ختم ہو جائے۔
’تو کیا ہوا؟ ایک کتے، بلی، کبوتر، طوطے یا مرغے کی موت سے فرق کیا پڑتا ہے؟‘ اگر یہ سوال اب تک آپ کے دماغ میں جاگ چکا ہے تو یرا جی، چھوڑیں اس خیال کو، جانور مت پالیں۔
جانور پالنا ایک جاندار کو اپنی عادت، اپنے وسائل، اپنا گھر دینے والی بات ہے۔ اس معصوم روح کے لیے بالکل ایسا ہے جیسے آپ کسی بچے کو پالتے ہیں۔
جانور گلی میں تھا یا جنگل میں تھا یا کسی دکان میں تھا تو اس کے ذمے دار آپ نہیں تھے۔ اب اسے آپ گھر لے آئے تو اس کے مالک آپ ہیں اور عین ویسے جوابدہ ہیں جیسے اپنی فیملی کو ہیں۔ گھر میں کوئی ایک آدمی بھی اس جانور سے الرجک ہے جو آپ پالنا چاہتے ہیں تو مت پالیں کہ بعد میں نکالنا پڑا تو وہ جاندار بے موت مارا جائے گا۔
اگر آپ کے پاس پیسے زیادہ نہیں ہیں، جانور کو وہ ماحول، وہ خوراک نہیں دے سکتے جو اسے چاہیے، تب بھی مت پالیں۔ زنجیر سے بندھا کتا ہر کسی پہ بھونکے گا، خود مالک کو بھی کاٹ لے گا، وہ انسانوں میں رہنے کا عادی ہوگا تبھی انسان اس کے لیے نارمل ہوں گے۔ تنگ جگہ میں کبوتر، مرغے مرغیاں جراثیم سے مر جائیں گے، ان کے پر کمزور ہو جائیں گے، آپ کا شوق ہوگا لیکن ایک جاندار مستقل عذاب میں رہے گا۔ بلی بستر میں آئے گی تو ڈانٹ پڑے گی، فرش اسے سردی میں ٹھنڈا لگے گا، یہ مگر آپ نہیں سوچیں گے۔
جانور کو ٹریننگ دی جا سکتی ہے لیکن اسے انسان نہیں بنایا جا سکتا۔ کوشش کریں کہ اگر آپ میں برداشت نہیں ہے، وقت کم ہے، جانور کی طبیعت جاننے میں دلچسپی نہیں ہے تو فیشن یا ’ہاؤ کیوٹ‘ پنے کے چکر میں Pet مت پالیں۔
بچہ ضد کرے، سمجھانے پر نہ مانے تو کم از کم ایک کمرہ ایسا ضرور سوچ لیں جہاں آپ اس جانور یا پرندے کی موجودگی برداشت کرسکتے ہوں۔
یار یہ بے زبان ہوتے ہیں، آپ نہیں چھیڑ رہے تو جہاں ہوں گے مست الست رہیں گے، ذمہ داری لی تو پھر توڑ نبھانی پڑے گی۔ نہیں ہمت، نہیں حوصلہ تو سو گنا بہتر ہے رک جائیں لیکن اگر فیصلہ کریں تو بس سوچ لیں کہ بعد میں گھر سے نکالا تو جانور رُل جائے گا۔
لاکھوں روپے میں آپ ایک جانور ضرور خرید سکتے ہیں لیکن اس کی دوستی آپ سے تبھی ہوگی جب آپ اسے وقت دیں گے اور جانور کم بخت یہ سمجھ کر دوستی کرتا ہے کہ دوست گھر سے نہیں نکالے جاتے، نہ ہی آدم زاد دوستوں کو بیچتا ہے!
یہ تحریر سب سے پہلے انڈی پینڈینٹ اردو پر شائع ہوئی تھی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر