دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’ ہرے پاسپورٹ کی عزت کروائونگا‘‘ پر کِتھوں؟||سارہ شمشاد

سیاسی منظرنامہ آنے والے دنوں کیا رخ اختیار کرتا ہے اس بارے تیل دیکھو تیل کی دھار کے اصول پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ عوام کو اب کسی حکومت اور سیاسی جماعت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے انہیں تو صرف اپنے حالات بہتر چاہئیں اور خان صاحب جو اگلے 3ماہ میں سب اچھا ہوجائے گا کا راگ الاپ رہے ہیں
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک خبر کے مطابق پاکستان پاسپورٹ دنیا کا چوتھا بدترین پاسپورٹ قرار دیا گیا ہے اور یوں پاسپورٹ رینکنگ میں تنزلی کے بعد یمن اور صومالیہ سے بھی نیچے چلا گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے 2018ء میں اقتدار میں آنے کے بعد یوں تو عوام سے بہت سے وعدے کئے تھے اور ان میں سے ایک یہ تھا کہ وہ سبز پاسپورٹ کی عزت کروائیں گے لیکن انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ کی تنزلی کی دکھ بھری داستان بہت سے حقائق سے خود ہی پردہ اٹھارہی ہے کہ ایک ایسے موقع پر جب پاکستان پہلے ہی ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہے اور امریکہ، بھارت سمیت دیگر ملک دشمن طاقتیں اسے بلیک لسٹ میں شامل کروانے کے لئے پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ سرگرم ہیں اور دوسری طرف پاکستان کی معاشی حالت اس قدر دگرگوں ہے کہ اس کے دیوالیہ ڈکلیئر ہونے کا اب تو ہر لمحہ ہی خطرہ لاحق رہتاہے۔ حال ہی میں حکومت نے اسمبلی سے جو ضمنی فنانس بل منظور کروایاہے اس کے بعد تو جیسے عوام کی چیخیں ہی نکل گئی ہیں مگر نقارخانے میں توتی کی آواز کون سناہے کہ م صداق کسی کو عوام کی کوئی قطعاً پروا نہیں ہے اسی لئے تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ افراد زر خوفناک حد تک بڑھ گئی ہے اور ایسے میں رہی سہی کسر کرپٹو کرنسی کے سکینڈل نے پوری کردی ہے کہ اس حوالے سے ایسی ہولناک رپورٹیں سامنے آرہی ہیں کہ جس کو سن کر دل ہی دہل گیاہے۔
اطلاعات ہیں کہ پاکستان میں کرپٹو کرنسی ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر سے بھی زائد ہے۔ یعنی غریب ترین ملک کے امیر ترین شہری، اب کوئی ان امیرزادوں سے پوچھے کہ بھئی تمہارے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا تو مجال ہے کہ کوئی جواب ملے کیونکہ پہلے کون سا منی لانڈرنگ۔ کرپشن کے بارےمیں کسی سے استفادہ کیا گیاہے اور اگر کبھی کیا بھی گیاہے تو کس کی پکڑ ہوئی ہے۔ عمران خان ذرا اپنے دور حکومت میں کتنے کرپٹ عناصر کو سزا ہوئی اس بارے تو فہرست عوام کے سامنے پیش کریں تو سب سمجھ میں آجائے گا۔ اگرچہ چند روز قبل عمران خان کے احتساب نہ کرنے کا اعتراف کیا اب کوئی میرے پیارے اور سیدھے وزیراعظم کو سمجھائے کہ بھئی آپ اپوزیشن میں نہیں بلکہ حکومت میں ہیں۔ آپ نے لوگوں کو سزائیں دلوانی ہیں تو اس میں ایک بات جس سے میں بھی خان صاحب سے اتفاق کروں گی وہ ہمارا بوسیدہ گلا سڑا عدالتی نظام ہے جہاں انصاف کا نظام آج بھی اس قدر سست روی کا شکار ہے کہ یہاں دادا کے کیس کا فیصلہ پوتا سنتا ہے۔ اب کوئی معزز عدلیہ سے اس بارے پوچھے کہ اس سست روی اور تاخیر کی کیا وجہ ہے کیونکہ انصاف میں تاخیر تو انصاف کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ ابھی چند روز قبل وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ہرے پاسپورٹ کی عزت کروانے کا جو دعویٰ کیا گیا ہے اس میں بڑی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے جس کی وجہ سے کرپشن میں لتھڑا ہوا ہمارا نظام ہے کیونکہ وطن عزیز میں آج بھی کرپشن پہلے کی طرح کئے جانے کی خبریں زبان زد عام ہیں اس لئے اگر حکومت کی جانب سے یہی دلیل پیش کی جارہی ہے کہ ڈالر کو زبردستی 94پر رکھ کر مسلم لیگ ن کی حکومت نے ملک کو 60ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا تو اسے اس بارے میں وضاحت کرنی چاہیے کہ ساڑھے 3برس میں وہ خود معیشت کو سہارا دینے میں کیونکر ناکام ہے کیونکہ تحریک انصاف نے انتخابات سے قبل بڑے بلندبانگ دعوے کئے تھے کہ وہ معیشت کو درست کرنے کے لئے ماسٹر پلان پیش کریں گے لیکن تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی معیشت کی بحالی کے لئے کسی قسم کا کوئی روڈ میپ شروع سے ہی تیار نہیں کرسکی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہماری معیشت آخری دموں پر ہے اور حکومت آئی ایم ایف سے بھیک مانگ کر اسے چلارہی ہے۔ عمران خان حکومت میں آنے سے قبل آئی ایم ایف کے پاس جانے کو غلامی سے تعبیر کرتے تھے لیکن آج الٹی گنگا بہہ رہی ہے کہ حکومت ایک طرف آئی ایم ایف سے قرض لے رہی ہے تو دوسری طرف غریب عوام پر مہنگائی کے ایسے زہر آلود کلہاڑے چلارہی ہے کہ اللہ کی پناہ۔بلاشبہ حکومت جس طرح بغیر سوچے سمجھے مہنگائی میں اضافہ کررہی ہے اس کے باعث ایسا محسوس ہوتاے کہ اسے عوام کے مسائل سے درحقیقت کچھ لینا دینا نہیں ہے اس کی بلا سے عوام حالات کے جبر سے تنگ آکر خودکشیاں کرتے پھریں یا پھر مسائل کی دلدل میں دھنستے ہی چلے جائیں اس لئے اب حکومت کو سابق حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے وقت یہ ضرور سوچ لینا چاہیے کہ اس کی اپنی کارکردگی بھی کچھ خاص اچھی نہیں ہے اس لئے وہ سابقہ حکومتوں پر تنقید کرنے کی اپنی اخلاقی ذمہ داری بھی کھوچکی ہے ۔ بہتر یہی ہوگا کہ حکومت اپوزیشن موڈ میں رہنے کی بجائے عوام کی حالت زار بہتر بنانے پر توجہ دے۔ اگرچہ اقوام متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں پاکستان کی معیشت میں بہتری کے حوالے سے جو اعدادوشمار جاری کئے ہیں اس پر حکومت خوشی کے ڈونگرے نہ بجائے بلکہ عوام کی خستہ حالی کو ضرور دیکھے کیونکہ بدترین مہنگائی نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اسی طرح حکومت کی جانب سے عوام کو صحت کارڈ سکیم جیسے ریلیف فراہم کرنے کے جو بلندبانگ دعوے کئے جارہے ہیں مگرسچ تو یہ ہے کہ سب عوام کے لئے اچھا نہیں ہے۔ حکومتی مشیروں اور وزیروں کی کرپشن کی ایسی ایسی داستانیں سننے کو مل رہی ہیں کہ الامان الحفیظ۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا جو سکینڈل بے نقاب ہوا ہے اس حوالے سے حکومت نے آئندہ کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں ذرا کبھی حکومتی وزراء اس پر بھی روشنی ڈالنے کی زحمت گوارہ کریں گے کیونکہ حکومت کی جانب سے عوام کو جو تسلیاں اور گھبرانا نہیں جیسے نادر شاہی مشورے دیئے جارہے ہیں سچ تو یہ ہے کہ عوام کو اب ان سے قطعاً کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عوام کو تو فوری ریلیف چاہیے کیونکہ جو حکومت ساڑھے 3برسوں میں ڈلیور نہیں کرسکی اس سے آئندہ ایک برس میں ڈلیور کرنے کی کیونکر توقع کی جاسکتی ہے۔
اگرچہ وزیراعظم عمران خان نے کچھ عرصہ قبل احتساب میں ناکامی کا اعتراف برملا کیا لیکن کیااس اعتراف کےبعد ان کی حکومت کے گناہ دھل جائیں گے تو اس کا صاف سیدھا جواب ہے کہ نہیں کیونکہ عوام نے تحریک انصاف کو جو مینڈیٹ دیا تھا وہ اسے پورا کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ یہی نہیں بلکہ ڈیل اور ڈھیلوں کا سہارا لے کر تحریک انصاف اپنے 5برس مکمل کرنے کے بہت قریب تو پہنچ چکی ہے لیکن کیا کبھی خان صاحب اس بارے سوچنے کی زحمت کریں گے کہ انہوں نے عوام کے لئے کیا کیا ہے تو جواب نفی میں ہی آئے گا۔ کیونکہ اگر خان صاحب کام نہیں کرنے دیا گیا، نعرہ لے کر 2023ء کے انتخابات میں عوام کی عدالت میں آئیں گے تو انہیں یہ بات اچھی طرح سے یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان کے عوام اتنے بھولے نہیں ہیں کہ ایک طرف ملک تیزی سے دیوالیہ ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے جبکہ دوسری طرف ہمارے ارباب اختیار چین کی بانسری بجارہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ حکومتی وزیروں کو اس افتاد کے وقت میں بھی اپنے اللے تللوں کی پڑی ہوئی ہے۔ اسی طرح تو پنجاب حکومت کی جانب سے ہر تھوڑے عرصے کے بعد وزراء کے لئے نئی گاڑیاں منگوائی جاتی ہیں۔ اس تمام تر صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو عوام کی نبض کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود کھاد کے لئے کس طرح کسان ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔ یہ حکومت کی نااہلی کا ایک اور ثبوت ہے۔ یہاں حکومت کی ناقص کارکردگی بارے کیاکیا جائےتو اسے تو ہوش ہی اس وقت آتا جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ جاتا ہے اس لئے اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ عوام کو ماضی کی طرح اب بھی بیوقوف بنالے گی تو یہ محض اس کی خام خیالی ہے۔
ایک طرف عمران خان کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ انہیں وزیراعظم بننے کا کوئی شوق نہیں تھا تو اس بارے سیاسی پنڈت بھی مختلف آرا پیش کررہے ہیں کہ معاملہ اب مائنس ون کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ تاہم اس بارے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ اپوزیشن سمیت تمام سیاسی جماعتیں اگر کسی نکتے پر متفق ہیں تو وہ وہ مائنس عمران کا فارمولا ہے۔ نوازشریف جو عمران خان کو مائنس کرکے تحریک انصاف کو مزید ٹائم دینے کے لئے تیار ہیں اور ابھی جو ضمنی بجٹ اسمبلی سے سردگرم تقریروں کے بعد منظور کیا گیا ہے، سے بھی اس امر کو تقویت ملتی ہے کہ کوئی تو ہے جو تحریک انصاف میں سے اپنے لئے لابنگ کررہا ہے اسی لئے تو خان صاحب کی ایک آڈیو ٹیپ لے کر بھی ایک وزیربڑوں کے پاس حاضر ہوئے کہ ان پر بھی نظر کرم ڈالی جائے اب سیاسی افراتفری کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا تاہم تحریک انصاف کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اگر مانئس عمران ہوتا ہے تو تحریک انصاف بھی نہیں رہے گی اور چوں چوں کا مربہ بن جائے گا۔
سیاسی منظرنامہ آنے والے دنوں کیا رخ اختیار کرتا ہے اس بارے تیل دیکھو تیل کی دھار کے اصول پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ عوام کو اب کسی حکومت اور سیاسی جماعت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے انہیں تو صرف اپنے حالات بہتر چاہئیں اور خان صاحب جو اگلے 3ماہ میں سب اچھا ہوجائے گا کا راگ الاپ رہے ہیں بہتر ہوگا کہ عوام کے سامنے صحیح حقائق رکھے جائیں کیونکہ معیشت کی خستہ حالی سے ملکی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ ملک دشمن طاقتیں تو بیٹھی ہی اسی انتظار میں ہیں کہ کسی طرح انہیں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو ہڑپ کرنے کا موقع ملے ارو وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل میں کامیاب ہوجائیں۔ اس سے پہلے کہ معاملات اس نہج پر پہنچیں حکومت کو ملک و قوم کی بہتری کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں، یہی وقت کا تقاضا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author