مئی 11, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دیہی زندگی کی جُدائیاں ۔۔۔||گلزار احمد

جب یہ جانور جدا ہوتے ہیں تو بچوں کے آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں اور جانوروں کی فیلنگ بھی عیاں ہوتی ہے۔ کبھی آپ کو ایسی جدائ سے واسطہ پڑا ہو تو آپ محسوس کر سکتے ہیں کہ گاٶں کی زندگی کی جدائیاں بھی عجیب ہوتی ہیںصاف و شفاف چشموں اور دریاے سندھ کی اٹھکیلیاں کھاتی لہروں کی مٹھاس ہے۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گاٶں کی زندگی میں چَس تو بہت ہے مگر اس میں فراق بھی بہت ہیں ۔عام طور پر گاٶں کے لوگ مال مویشی ۔بکریاں ۔لیلے پالتے ہیں جو چھوٹے چھوٹے بچوں سے بہت مانوس ہو جاتے ہیں ۔بچے بھی ان جانوروں سے بہت محبت کرتے ہیں ۔پھر ماں باپ کی مالی ضرورتیں ان جانوروں کو فروخت کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔جب یہ جانور جدا ہوتے ہیں تو بچوں کے آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں اور جانوروں کی فیلنگ بھی عیاں ہوتی ہے۔ کبھی آپ کو ایسی جدائ سے واسطہ پڑا ہو تو آپ محسوس کر سکتے ہیں کہ گاٶں کی زندگی کی جدائیاں بھی عجیب ہوتی ہیں۔ ؎
آو چپ کی زباں میں خاور ۔۔
اتنی باتیں کریں کہ تھک جائیں۔

رات کی بارش ۔۔

گزشتہ رات ڈیرہ میں بارش تو معمولی ہوئ مگر رات تین بجے سائیبرین ونڈ کا آغاز ہو گیا۔جب گھر کے طاق زور زور سے کھڑکنے لگے تو میں نے اٹھ کے دیکھا تیز ہوا کا رخ شمال مغرب کوہ سلیمان سے جنوب مشرق کی طرف تھا ۔اب بھی بادل چھائے ہوئے ہیں اور وقفے وقفے سے بارش جاری ہے۔ماضی میں بھی ڈیرہ اسمعیل خان میں جنوری کے مہینے نہریں بند ہو جاتیں اور بھل صفائی کا کام ہوتا اور اب بھی ایسا ہے۔ یہ مہینہ نہریں بند کرنے کے لیےاس لیے چنا جاتا کہ جنوری میں بہت بارشیں ہوتیں اور فصلوں کو قدرتی پانی ملتا نہروں کی بندش کا نقصان نہ ہوتا ۔جیسے آجکل بارش کے آنے کے لئےدعااور نماز استسقا اور دیگیں پکائی جاتی ہیں اسی طرح ماضی میں جنوری کے مہینے شدید اور مسلسل بارشوں کو روکنے کے لیے دیگیں پکا کر خیرات ھوتی تھی۔گلیاں کچی تھیں مگر خوشیاں سچی تھیں ۔ کچھ بچے ٹوکرے کے نیچے دانہ ڈال کر رسی پکڑ کر چھپ کے بیٹھ جاتے اور چڑیاں پکڑتے اور رنگ لگا کر چھوڑ دیتے۔ اس دن کھیل کود کی تھکاوٹ دور کرنے کے لئے حلوہ۔ساگ۔مکھن۔مکئ کی روٹی تیار ھوتی اور آجکل جو پیزے بنتے ہیں اس سے سو گنا لذیذ اور نیوٹریشن سے پُر ھوتی۔۔ اب سب کچھ ملاوٹ ھے خوشیاں بھی مصنوعی ہیں۔مہنگائ ۔لوڈ شیڈنگ۔امن و امان۔کرونا اور کرپشن کے مسائل نے لوگوں کو جکڑ رکھا ہے۔علامہ اقبال نے کہا تھا ؎
‏آتشِ جانِ گدا جوعِ گداست۔۔۔
جوعِ سلطاں ملک و ملت را فناست
(اسرارخودی)
ترجمہ ۔۔۔فقیر کی بھوک صرف اُس کی اپنی جان کھاتی ہے۔۔۔جبکہ سلطان کی بھوک مُلک و ملت کھا جاتی ہے۔۔۔۔۔۔

تضادات ۔۔۔

ہمارے ملک میں ایک طرف امیر زیادہ امیر ہو رہے ہیں دوسری طرف غریب زیادہ غریب ہو رہے ہیں۔ قومی وسائل بڑی شھروں میں بے اندازہ خرچ ہوتے ہیں جبکہ دور دراز کے دیہی لوگ صاف پینے کا پانی۔صحت و تعلیم کی سھولتوں سے محروم ہیں۔ بدقسمتی سے یہ گیپ حالیہ سالوں میں بڑھتا جا رہا ہے۔ تصویر میں لاہور کا شاہی قلعے کا دروازہ اور ایک اوورہیڈ سڑک کے نیچے کا منظر ہے جبکہ باقی تصاویر عام غریب عوام کی ہیں ۔

تنور کی تازہ روٹی ۔۔

ماضی میں ہمارے ڈیرہ میں گندم کی ایک قسم کاشت ہوتی تھی جس کو ۔۔ماہلو ۔۔ کہتے تھے۔ اس گندم کا تیلا زیادہ اونچا نہیں ہوتا تھا مگر سٹہ بڑا ہوتا تھا۔ اس وقت فصلوں کو یوریا کھاد دینے کا رواج نہیں تھا یہ آرگینک یا دیسی کھاد کا زمانہ تھا۔
اس گندم کو ہمارے گھر پتھر کی چکی پر پیسا جاتا اور تنور سے روٹی پکائ جاتی ۔ عام طور پر تنور کی تازہ روٹی اتنی خوشبودار اور لذیذ ہوتی کہ ہم بغیر ترکاری کے کھا لیتے یا پھر تھوڑا تازہ مکھن لگا کر نوش جان کرتے۔

%d bloggers like this: