مئی 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اب یہ اسلامی صدارتی نظام کے شوشے ||حیدر جاوید سید

دو دن ادھر ایک دوست نے اس سے پوچھا” یار فقیر یہ معاشرے میں بدزبانی مرغوب کیوں ہوتی جارہی ہے، رسان سے بولا، آپ دستیاب مسلم تاریخ کو غور سے پڑھ لیجئے، ساری بات سمجھ میں آجائے گی‘‘۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کرہءارض میں سول سپر میسی کی محافظ سب سے ’’وڈی‘‘ جماعت کے مجاہد سول سپر میسی برادرم حسن رانا نے اگلی شام ایک عشائیہ کا اہتمام کیا۔ ملکی سطح کے ایک مالیاتی ادارے کی ٹریڈ یونین کے رہنما کامریڈ دلاور عباس صدیقی، سوشل میڈیا کے معروف نوجوان رحمن مانی، اور فقیر راحموں بھی مدعو تھے۔ بلایا تو ہمیں بھی گیا تھا لیکن فقیر راحموں نے ہوٹل سے میزبان کی طرف روانہ ہونے سے قبل کھلی دھمکی دی
’’شاہ جی اگر کامریڈ میاں نوازشریف اور قائد انقلاب حضرت قبلہ مجاہد ملت مولانا فضل الرحمن کی شان سے کم کوئی بات کی تو پھر پھڈا واجب ہے”۔
عمر کے اس حصے میں ہم پھڈوں سے گھبرانے لگے ہیں حالانکہ ہمارے محبوب وزیراعظم اور معمار زیرِتعمیر ریاست مدینہ جناب عمران خان کا قولِ ’’اول و صادق‘‘ یہی ہے کہ "سب سے پہلے آپ نے گھبرانا نہیں”۔
اب بندہ کتنی دیر نہ گھبرائے۔ لاہور سے ملتان کا کرایہ ان کے دور میں 1050روپے (بزنس کلاس بس) سے 1490 روپے ہوگیا ہے۔ ہوٹل والوں کی مہربانی ہے کہ وہ ہمارے برادر عزیز اور دوست ملک محمد اکمل وینس کی مہربانی سے مقررہ کرائے سے نصف لیتے ہیں ورنہ مہنگائی کے جو حالات ’’چل‘‘ رہے ہیں ایسے میں بندے کو امڑی کے شہر میں شب بسری کے لئے قبلہ حضرت غوث بہائوالحق ملتان (بہاء الدین زکریا ملتانیؒ) یا پھر سیدی حضرت شاہ شمس سبزواریؒ کی خانقاہ میں پناہ لینی پڑے۔
کچھ محبوب دوستوں کے دروازے امڑی کےشہر میں آئے مسافر کے لئے دل کے دروازوں کے ساتھ کھلے رہتے ہیں لیکن بوجہ علالت دوستوں کو تکلیف دینے سے بہتر یہی لگتا ہے کہ ہوٹل میں رہ لیا جائے۔
اس بار امڑی کے شہر کی زیارت ایک ’’کٹھ‘‘ میں شرکت اور ایک دو کاموں کی وجہ سے لازم ہوئی تھی۔ پچھلے 4دنوں سے یہیں مقیم ہوں۔ خوب رونق لگی ہوئی ہے
دوستان عزیز کے ساتھ کچھ مہربان ، فقیر راحموں سے بھی ملنے چلے آتے ہیں۔ خوب باتیں شاتیں ہوتی ہیں دنیا جہاں کے موضوعات ہیں اور ہم ہیں دوستو،
درمیان میں کبھی کبھی فقیر راحموں کے لقمے (کھانے والے نہیں) سماں بنادیتے ہیں۔ بلند ہوتے قہقہوں کے درمیان فقیر راحموں ہمارا کاندھا ہلاتے ہوئے جملہ اچھالتا ہے ’’دیکھو شاہ جی ہمارے بعد تمہیں ایسی باتیں کون بتائے گا‘‘
دو دن ادھر ایک دوست نے اس سے پوچھا” یار فقیر یہ معاشرے میں بدزبانی مرغوب کیوں ہوتی جارہی ہے، رسان سے بولا، آپ دستیاب مسلم تاریخ کو غور سے پڑھ لیجئے، ساری بات سمجھ میں آجائے گی‘‘۔
دوست نے حیرانی کے ساتھ اس کی طرف دیکھا تو آنجناب نے چائے کا کپ اٹھایا اور چسکیاں لینے لگے۔
ارے ٹھہریے بات تو ہورہی تھی مجاہد سول سپر میسی حسن رانا کے عشائیہ کی جو انہوں نے کائنات کی سب سے بڑی جمہوری جماعت کے ایک ’’محب‘‘ کے اعزاز میں ترتیب دیا تھا۔ باقی لوگ بھی بن بلائے ہرگز نہیں تھے میزبان نے انہیں باضابطہ شرکت کی دعوت دی تھی۔
ہم تو فقیر راحموں کی "معرفت” شریک عشائیہ ہوگئے۔ عشائیہ کیا تھا صحیح پوچھیں تو ’’مالکان‘‘ کے خلاف مورچہ تھا۔
جہاں چاند ماری کے انداز میں گزشتہ 74برسوں کے شب و روز کی وارداتوں اور کرتوتوں کا بے رحم پوسٹ مارٹم ہوا۔ ایک ٹی وی چینل پر چلنے والے صدارتی نظام کے اشتہار سے لے کر سوشل میڈیا پر ’’دوڑنے‘‘ والے اسلامی صدارتی نظام والے اشتہار تک پر تبادلہ خیال ہوا۔
فقیر راحموں کا خیال تھا کہ ’’بھائی لوگ‘‘ کچھ کچھ سٹھیاگئے ہیں۔
ملک بنا تو پہلے گورنر جنرل پروگرام تھا۔ پھر سکندر مرزا صدارتی نظام لائے ساتھ میں مارشل لاء بھی، ایوب خان نے اسے چلتا کیا اور صدر و مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے پھرگیارہ سال بعد مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان آگئے۔ بھٹو صاحب صدر بنے تو سول مارشل ایڈمنسٹریٹر بھی تھے کیونکہ نظام مملکت یحییٰ خان کے ایل ایف او کی چھتر چھایہ میں چل رہا تھا۔
1973ء کے دستور نے ملک کو پارلیمانی جمہوری نظام دیا۔ ایوان بالا اور ایوان زیریں (سینیٹ اور قومی اسمبلی) صدر الگ اور وزیراعظم صوبوں میں وزرائے اعلیٰ۔
5جولائی کو جنرل چودھری محمد ضیاء الحق آن دھمکے۔ مارشل لاء لگا وہی صدر وہی سب کچھ تھے۔
2غیرجماعتی بلدیاتی انتخابات۔ ایک عدد مجلس شوریٰ اور پھر 1985 میں غیرجماعتی قومی انتخابات۔ ان انتخابات کا ایم آر ڈی نامی سیاسی اتحاد نے بائیکاٹ کیا تھا ،
زندگی بھر اڑھائی تین نشستیں لینے والی جماعت اسلامی کی پہلی بار اس غیرجماعتی انتخابات میں سُنی گئی۔ قومی اسمبلی میں گیارہ بندے پہنچ گئے۔ المیہ یہ ہوا کہ اس وقت کی جماعت اسلامی کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے شخص سید اسعد گیلانی لاہور سے میاں نوازشریف کے مقابلہ میں قومی اسمبلی کا الیکشن ہار گئے۔
خدا خدا کرکے لولی لنگڑی جمہوریت 1988ء میں بحال ہوئی، ٹوٹتی بنتی جمہوری اور نگران حکومتوں کا یہ دور اکتوبر 1999ء تک چلا۔
12اکتوبر کو جنرل پرویز مشرف اقتدار پر قابض ہوگئے۔ دس برس یہ رہے پھر پی پی پی اور (ن) لیگ کا ایک ایک دور بعداز مشرف ،
اور آجکل ملک میں جناب عمران خان کی حکومت ہے مغرب، کرکٹ، تاریخ اور نصف درجن دوسری چیزوں کو ان سے بہتر کوئی نہیں سمجھ "کھیل” پایا
اس لئے آپ آجکل ملک کو ’’ریاست مدینہ‘‘ بنانے کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔
اب سوچیں اگر خدانخواستہ کسی نے ان کی زیرتعمیر ریاست مدینہ پر تنقید کی تو اس کا ’’حشر‘‘ کیا ہوگا۔
اور تو اور اپنے ہمزاد فقیر راحموں بھی سنبھل کر بات کرتے ہیں۔
برادرم حسن رانا کے عشائیہ میں صرف باتیں ہی نہیں ہوئی پرتکلف کھانا بھی تھا مگر اس کے ذکر کی ضرورت نہیں۔ عشائیہ میں انڈہ پراٹھا تھوڑی ہوتا ہے کھانہ ہی ہوتا ہے۔
گپ شپ میں عصری سیاست، وارداتوں اور کج ادائیوں کے ساتھ اور بھی موضوعات پر باتیں ہوئیں۔ تفصیلات کے لئے سلسلہ وار کالم لکھنا پڑیں گے
اس لئے بہتر یہی ہے کہ اگلی صبح سرائیکی قوم پرست جماعت ایس ڈی پی کے صدر عنایت اللہ مشرقی اور پی پی پی کے رہنما ملک عاشق حسین سے ہوئی نشستوں کی گفتگو سے جی بہلایا جائے۔
دونوں دوستوں کے ساتھ جمی نشستوں میں سرائیکی، صوبہ، سرائیکی وسیب کے عصری شعور، چند دن قبل سینیٹ میں سرائیکی صوبے کے حق میں ہوئی تقاریر کے ساتھ سرائیکی وسیب میں قوم پرستوں اور پیپلزپارٹی کے درمیان موجود اختلافات پر بھی بات ہوئی۔
اختلافات خیر ان دونوں فریقوں کا آپسی معاملہ ہے ہماری کوشش تو یہی رہتی ہے کہ یہ ایک دوسرے کے قریب آئیں۔ وجہ یہی ہے کہ قوم پرستوں کا جماعت اسلامی یا جے یو آئی سے اتحاد تو ہونا نہیں وہ تو خالص مسلم قومیت کے قائل ہیں جو صرف برصغیر میں وافر مقدار میں دستیاب ہے۔
پی پی پی کے ایک پرجوش ہمدرد نے گزشتہ روز ہماری ’’کلاس‘‘ لیتے ہوئے کہا ’’ سرائیکیوں کی قومی تحریک تو 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کے ساتھ کھڑی تھی‘‘۔
حالانکہ یہ سفید جھوٹ ہے کچھ سرائیکی قوم پرست یقیناً تحریک انصاف کے ساتھ تھے۔ صوبہ بنانے کے وعدہ پر لیکن کچھ ہمیشہ کی طرح محبان پیپلزپارٹی ثابت ہوئے بلکہ ہیں بھی۔

اب بندہ ان سے احترام کے ساتھ پوچھے کے بھلے لوگو! یہ بتائو اگر پیپلزپارٹی پی ڈی ایم میں (ن) لیگ کے ساتھ بیٹھ سکتی ہے جس نے دو صوبوں کی قرارداد پنجاب اسمبلی سے منظور کروائی تھی تو کسی سرائیکی قوم پرست رہنما یا جماعت نے کسی انتخابی عمل میں تحریک انصاف کا ساتھ دے کر کون سا ’’ارتداد‘‘ کرلیا کہ واجب القتل ٹھہرے؟
عجیب ماحول بن گیا ہے عدم برداشت اتنی بڑھ گئی ہے کہ ذاتی دوستوں کی محفل میں بھی سوچ سمجھ اور سنبھل کر بات کرنا پڑتی ہے پتہ نہیں کس کے اندر کا مجاہد جاگ جائے اور…. خیر چھوڑیئے فی الوقت یہی کچھ ہے۔ باقی باتیں پھر سہی۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: