گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1865ء میں ڈپٹی کمشنر ڈیرہ اسماعیل خان نے ایک حکم جاری کیا جس کے تحت ڈیرہ فتح خان سے وہوا تک دریاۓ سندھ کے مغربی علاقے کے جنگل کو سرکاری راکھ کا درجہ دے دیا گیا۔اس کی وجہ ان دنوں شروع کی گئی نئی سٹیمرز سروس تھی جس کے لیے بہت زیادہ لکڑی کے ایندھن کی ضرورت پڑتی تھی۔یہ کہانی اس طرح ہے کہ انگریزوں نے پہلے پہل 1835ء میں بھاپ سے چلنے والی کشتی ۔۔انڈس ۔۔دریائے سندھ میں متعارف کرائ ۔اس کے 8 سال بعد 1843ء میں مزید دو سٹیمر ۔۔planet …اور Settellite … اس بیڑے میں شامل ہو گیے۔ یہ سٹیمر در اصل انگریز سندھ پر قبضہ کرنے کے لیے ملٹری اپریشن کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔جب سندھ پر قبضہ مکمل ہو گیا تو ان کشتیوں کو ایک بیڑے کی شکل دے کر کوٹری کھڑا کر دیا گیا۔1852ء میں ان سٹیمرز کے ذریعے کراچی سے ملتان دریاے سندھ کے راستے ڈاک آتی تھی کیونکہ اس وقت ریل کی پٹڑی نہیں تھی اور سڑک بھی کچی تھی۔1859ء میں انڈس فلوٹیلا کے نام سے بہت سے سٹیمرز کی کمپنی بنی جو سندھ کے قصبے جھرک jhirk پر لنگرانداز تھے وجہ یہ تھی یہاں دریا کا پانی گہرا تھا اور سٹیمرز کے کھڑا کرنے کے لیے موزوں تھا۔ سمندری راستے بحری جہازوں سے سامان کراچی آتا وہاں چھوٹی کشتیوں کے ذریعے جھرک اور پھر انڈس فلوٹیلا کے سٹیمر ملتان ڈیرہ غازی خان ۔ڈیرہ اسماعیل خان ۔کالاباغ اور مکھڈ تک پہنچا دیتے۔ اس وقت کراچی سے ملتان تک دریائ سفر 945 کلومیٹر 40 دن میں طے ہوتا۔1878ء میں کراچی کو ملتان اور دہلی سے ریل کے ذریعے ملا دیا گیا اور ان سٹیمرز کی اہمیت ختم ہو گئی اور یہ مقامی آبادی کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک کے لیے استعمال ہونے لگے۔
نوٹ ۔۔پکچر ہمارے ایس ایس جھلم کی ہے جو 1932ء میں آیا یہ انڈس فلوٹیلا کا حصہ نہیں تھا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ