۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاسیات کے طالب علم کے لئے روزمرہ حالات میں بہت کچھ ہوتا ہے جس کو عام زبان میں کرنٹ افیئرز کہا جاتا ہے۔ حالات بدلیں نہ بدلیں صورتحال لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہے اور لکھنے والوں کو روز ایک نیا موضوع بھی مل جاتا ہے۔ میں فارغ وقت میں انگلش لٹریچر پڑھتی ہوں اور ساتھ ہی ساتھ اس کا چھوٹا موٹا تجزیہ سوشل میڈیا پر شیئر کرتی رہتی ہوں۔ کسی نے میری پوسٹ پر کمنٹ کیا کہ چاہے آپ انگریزی ادب کی طالبہ نہ ہوں مگر یہ عمومی تجزیہ نہیں ہے۔ حالانکہ وہ آرٹیکل تو کرسٹوفر مارلو کے انگریزی ڈرامہ ڈاکٹر فاسٹس پہ لکھے گئے مختلف آرٹیکلز سے نکالے گئے کچھ اہم پہلو ہی تھے۔
میں نے جب اس کو پڑھا تو میں بہت حیران ہوئی کہ یہ ڈرامہ سولہویں صدی میں لکھا گیا تھا اور اس کا مرکزی کردار ڈاکٹر فاسٹس آج بھی ہمارے اردگرد مختلف کرداروں میں موجود ہے۔ سب سے پہلے تو اس کی موجودگی کا احساس مجھے اپنے ہی اندر محسوس ہوا کہ جادو کی طرح کچھ نیا سیکھنے اور اس کے ذریعے دوسروں کو حیران کر دینے کی خواہش میرے اندر بھی تھی مگر ہاں اس کے بدلے میں اپنی روح یا ضمیر کا سودا کس حد تک کر سکتی ہوں یہ سوال میں نے فی الحال اپنے آپ سے نہیں کیا۔
صرف 29 سال کی قلیل عمر میں انگریزی زبان میں باکمال ڈرامے اور لگ بھگ چالیس پچاس نظمیں لکھنے والے کرسٹوفر مارلو ڈاکٹر فاسٹس کے تخلیق کار ہیں جو کہ شیکسپیئر کے ہمعصر ہیں۔ دونوں ہی نام انگریزی ادب میں جانے پہچانے ہیں۔ الزبتھن دور کے ادب کا مطالعہ ہمیں اپنے حالات کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ وہی اخلاقی پستیوں، وہی فطری لالچ، زیادہ سے زیادہ کی چاہ، گناہ و ثواب کے گرداب اور اونچی مسند پر پہنچ کر زوال کی لامحالہ منزلیں ؛ نیکی اور بدی کی وہ جنگ جو نہ صرف انسان کے اندر جاری رہتی ہے بلکہ اس کا پرچار معاشرے میں بھی ہر طرف نظر آتا ہے اور کبھی کبھی تو یہ غلام گردش بن کر انسان کو اپنے چکر سے باہر آنے ہی نہیں دیتا۔
ڈاکٹر فاسٹس ایک بہت ذہین اور قابل جرمن عالم تھا جو کہ روایتی علم سے بیزار ہو گیا اور دنیاوی علوم پر اپنا کنٹرول چاہتا تھا جس کے لئے اس نے اپنی روح کا سودا کر لیا اور یہ وہ سودا ہے جو ہمارے اردگرد روزانہ ہی تو ہو رہا ہے۔
کاروبار کی دنیا کو دیکھ لیں، ہر کاروباری اپنے انجام سے بے خبر ڈاکٹر فاسٹس بنا بیٹھا ہے اور چاہتا ہے کہ بس کسی بھی طریقے سے اپنے کاروبار کو طول دینا ہے۔ بیٹھے بٹھائے قیمتیں آسمان پہ پہنچ جاتی ہیں۔ دکاندار اپنی دکان میں موجود اس سودے کی قیمت بڑھا دیتے ہیں جس کو انہوں نے سستے داموں خریدا تھا۔
باقی سب چھوڑ دیں صرف مری میں حالیہ برفباری سانحہ کو لے لیجیے کس طرح وہاں موجود ڈاکٹر فاسٹسوں نے انسانی خون پیا اور ایک انڈے کی قیمت پانچ سو روپے تک بڑھا دی اور انسانی آنکھ انسانی دکھ کو پہچاننے سے منکر تھی۔
الیکشن ہوں تو ہمارے ووٹر ڈاکٹر فاسٹس بن جاتے ہیں اور پیسے کی لین دین میں انسانی شعور کی خریدوفروخت منڈی کے جانوروں کی طرح ہوتی ہے جس کی قیمت قومیں اپنی زندگی میں نہ ختم ہونے والی ابتری کی شکل میں چکاتی ہیں۔
انگریزی ادب میں اسے ٹریجیکل ہسٹری آف ڈاکٹر فاسٹس کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے اخلاق اور عمل کی آگے کی منزلوں کا راز پا لیا ہے مگر دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ شاید ڈاکٹر فاسٹس ہمارا تو صرف حال ہی نہیں بلکہ مستقبل بھی ہے ؛ لالچ اور اخلاقی پستیوں سے بھرپور!
_
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ