حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سینیٹ میں مسلم لیگ ن کے سینیٹر رانا محمود الحسن کی جانب سے جنوبی پنجاب ( سرائیکی وسیب ) کو الگ صوبہ بنانے کیلئے پیش کیئے گئے بل کی تمام سیاسی جماعتوں نے حمایت کی البتہ نون لیگ کے ہی ایک سینیٹر مشاہد حسین سید نے اس بل کو نیا پنڈورا باکس قرار دیتے ہوئے مخالفت کی
اس موقع پر سیدی یوسف رضا گیلانی نے درست بات کہی کہ سرائیکی وسیب کے لوگ رعایا نہیں ہیں وہ اپنا حق اپنا صوبہ مانگتے ہیں۔
دارالحکومت کا فیصلہ عوام اور پارلیمنٹ نے کرنا ہے۔
بل پیش کرنے والے مسلم لیگ ن کے ملتان سے سینیٹر رانا محمودالحسن بولے، بلوچوں کا بلوچستان، پنجابیوں کا پنجاب اور پشتونوں کا خیبر پختونخوا موجود ہے تو سرائیکی وسیب کے لوگوں کا صوبہ سرائیکستان کیوں نہیں بن سکتا؟
دونوں صاحبان وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی اس بات کا جواب دے رہے تھے کہ ہماری حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں ہے اس لئے ہماری پارٹی اپنا وعدہ پورا نہیں کرسکی۔
سینیٹ میں سرائیکی صوبہ کے حوالے سے ملتان ہی کی تین شخصیات کی تقاریر بڑی دلچسپ تھیں۔ رانا محمودالحسن کا موقف تھا کہ صوبہ عوام کا حق ہے ’’آپ‘‘ نے تو وعدہ بھی کیا تھا ساڑھے تین سال گزرگئے اس وعدے کو۔
سابق وزیراعظم اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سید یوسف رضاگیلانی کہہ رہے تھے، "کہتے ہیں ہمارے پاس دو تہائی اکثریت نہیں”، یہ دو تہائی اکثریت ہمارے پاس (پیپلزپارٹی کے پچھلے دور میں جب یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے) بھی نہیں تھی بلکہ پارلیمانی ریکارڈ کے مطابق ہماری اس وقت کی حکومت کو سادہ اکثریت تب مل پاتی جب اتحادی تعاون کرتے تھے ان حالات میں ہم نے اٹھارہویں ترمیم منظور کروائی جس پر سب کااتفاق رائے تھا۔
سیدی بولے مخدوم صاحب نے عددی اکثریت سے محرومی کی بات کی ہے ان کے پاس سادہ اکثریت ہے یہ صوبے کے لئے سنجیدہ ہیں تو آئیں قانون سازی پر بات کرلیتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ انہوں نے بہت دیر کردی ہے پھر بھی اگر یہ آئیں گے تو بات ہوگی۔ انہوں نے پیپلزپارٹی کے دور میں بننے والے پارلیمانی کمیشن اور منظور ہونے والی قرارداد کا بھی ذکر کیا۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ مجھ وسیب زادے کے لئے سیدی گیلانی کی تقریر سے زیادہ حیران کن تقریر مسلم لیگ ن کے سینیٹر رانا محمودالحسن کی تھی۔ انہوں نے فیڈریشن کی موجودہ اکائیوں (صوبوں) کی شناخت کے حوالے سے جو باتیں کہیں وہ سرائیکی وسیب کے لوگوں کے جذبات کی ترجمانی ہے ، یہاں سرائیکی وسیب میں بھی لوگ یہی سوال کرتے ہیں کہ دوسری قوموں کی شناخت پر صوبوں کے نام ہیں تو پھر سرائیکستان میں کیا مسئلہ۔
یہ بھی درست کہا گیا کہ چلیں بنائیں صوبہ جس بھی نام سے بنائیں صوبہ بنے گا تو اس کی اسمبلی سابقہ فرنٹیئر کی طرح اپنے نام کا فیصلہ کرکے قومی اسمبلی سے قانون سازی کا مطالبہ کرے گی۔
مخدوم شاہ محمود قریشی حُسنِ اتفاق سے اس وقت (پیپلزپارٹی کے دور میں) بھی وزیر خارجہ ہی تھے۔ ذرائع ابلاغ کے ریکارڈ کے مطابق ان دنوں آپ سرائیکی صوبہ کے پرجوش حامی تھی۔ مخالف یقیناً وہ اب بھی نہیں ہوں گے البتہ انکی جماعت حقیقت میں کیا چاہتی ہے یہ وہ دوسرے لوگوں سے بہتر جانتے ہیں۔ سرائیکی وسیب کے لوگ اپنا الگ صوبہ چاہتے ہیں یہ بہرطور حقیقت ہے۔
البتہ صوبہ کیسا ہوگا؟ اس قرارداد کے مطابق جسے بہاولپور جنوبی پنجاب کا نام دیا گیا۔ ابتدائی طور پر اس میں تین ڈویژن ملتان، بہاولپور، ڈی جی خان کے علاوہ بھکر اور میانوالی کے حوالے سے وہ بحث موجود ہے جو پارلیمانی کمیشن میں ہوئی۔ دوسرا موقف سرائیکی وسیب کے لوگوں کا ہے۔
یہ موقف لگ بھگ چالیس برسوں سے جاری قومی و تہذیبی شناخت اور اس کی ثقافت کے ساتھ صوبے کے قیام کے لئے ہونے والی جدوجہد کی صورت میں موجودہے۔ وسیب کے لوگ عموماً اور قوم پرست خصوصاً جنوبی پنجاب صوبہ کے نام کی مخالفت قومی شعور پر کرتے ہیں ان کا موقف ہے کہ رنجیت سنگھ کی قبضہ گیری، لارڈ کرزن کی تقسیم پالیسی اور ون یونٹ کے خاتمہ پر ریاست بہاولپور کو صوبہ پنجاب کا حصہ بنادینے کا عمل تینوں معاملے ایک جیسے ہیں۔
سرائیکی صوبہ اپنی قومی تاریخی سماجی شعور کی بنیاد پر بننا ضروری ہے۔ قوم پرستوں کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک سرائیکی صوبے کا لازمی حصہ ہونے چاہئیں۔ اسی طرح میانوالی، بھکر اور جھنگ کے حوالے سے بھی ان کا موقف بڑا واضح ہے۔
آپ قوم پرستوں یا سرائیکی وسیب کے عام آدمی کے موقف سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن یہ رائے بہرطور درست ہے کہ پیپلزپارٹی کے دور میں بنائے گئے پارلیمانی کمیشن نے جہاں بہت سارے اچھے کام کئے لوگوں کی بات سنی وہیں اس نے صوبے کے حوالے سے عمومی جذبات کے ساتھ اس کی حد بندی کے ضمن میں دیرینہ موقف کو بھی نظرانداز کیا۔
اصولی طور پر کمیشن کو یہ بات مان لینی چاہیے تھی کہ وہ رپورٹ مرتب کرنے سے قبل ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کی اکثریتی سرائیکی آبادی کا موقف بھی سنے اور یہ کہ گزشتہ چالیس برسوں سے سرائیکی جاعتیں صوبے کی حدود کے حوالے سے جو موقف رکھتی ہیں اس پر سنجیدہ مکالمہ ہوا۔
بعدازاں مسلم لیگ (ن) نے پنجاب اسمبلی سے جو بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے صوبوں کی قرارداد منظور کروائی تھی اس پر سرائیکی وسیب کے لوگوں کا اجتماعی موقف یہ تھا کہ پنجاب اسمبلی کی یہ قرارداد اصل میں تقسیم شدہ سرائیکی قوم کو مزید تقسیم کرکے انہیں قومی شناخت سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ اس سازشی ٹولے کو مسلط کرنے کی کوشش تھی جو ہمیشہ سرائیکی قومی شناخت اور صوبے کا مخالف رہا ہے۔
مسلم لیگ (ن) سے الگ ہوکر ’’جنوبی پنجاب صوبہ محاذ‘‘ کے نام پر سیاسی جماعت بنانے والے رہنمائوں پر بھی الزام لگا تھا کہ وہ سرائیکی قوم کے تاریخی شعور اور جغرافیہ میں مختلف مرحلوں میں ہوئی ردوبدل سے انکار کرکے ’’کسی‘‘ کا ایجنڈا آگے بڑھارہے ہیں۔
ابھی ان اعتراضات کی بازگشت جاری تھی کہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ والے ایک تحریری معاہدے کے بعد اپنی جماعت کو تحریک انصاف میں ضم کرکے انصافی ہوگئے۔
پھر لوگوں نے یہ بھی دیکھا سنا کہ سرائیکی صوبہ کے نام پر ووٹ لینے والے مخدوم خسرو بختیار نے ایک ٹی وی چینل پر کہا ’’لفظ سرائیکی سے تعصب کی بو آتی ہے میں سرائیکی صوبہ کا حامی نہیں بلکہ جنوبی پنجاب صوبے کا حامی ہوں‘‘۔
جس سوال کو وہ نظرانداز کرگئے وہ یہ ہے کہ وہ خود کیا ہیں سرائیکی یا پنجابی۔ قوم شناختیں اپنے تاریخی تہذیبی اور ثقافتی شعور پر استوار ہوتی ہیں اس سے انکار کا کیا مطلب ہوگا؟ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ تحریک انصاف میں ضم ہوا تو کہا گیا (تحریری معاہدہ کے مطابق) کہ تحریک انصاف اقتدار میں آنے کے بعد 100دن کے اندر نئے صوبے کا روڈ میپ دے گی۔
بعد میں تاخیر سے سہی جب تقسیم شدہ سیکرٹریٹ قائم ہوا تو سرائیکی وسیب کے اندر سے آوازیں اٹھیں یہ سرائیکی قوم کو تقسیم کرنے کا وہ پروگرام ہے جو (ق) لیگ کے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ گروپ کے ایما پر تخلیق کیا گیا ہے۔
سرائیکی وسیب میں صوبے کے حوالے سے آج بھی واضح موقف ہے۔ قومی شناخت کی پامالی یا وسیب میں نئی تقسیم کسی کو بھی قابل قبول نہیں۔
جو فیصلے پارلیمان کو کرنے ہیں یا مستقبل کی نئی صوبائی (سرائیکی صوبے کی) اسمبلی نے وہ اب کسی کی خوشنودی کے لئے غلط رنگ دے کر نہ کئے جائیں۔
سیدی یوسف رضا گیلانی نے گزشتہ روز سینیٹ میں درست کہا ’’صوبے کا نام کیا ہوگا اور دارالحکومت کہاں ہوگا اس کا فیصلہ اسمبلی کو کرنا ہے‘‘۔ سرائیکی وسیب کے لوگ بھی تقسیم شدہ دارالحکومت کو قبول نہیں کررہے وہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ نئے صوبے کی اسمبلی نے جو فیصلے کرنے ہیں ان پر ’’ہاتھ صاف‘‘ کرنے سے گریز کیا جائے گا۔
اسی طرح سرائیکی وسیب کے لوگوں، قوم پرستوں اور اہل دانش کی یہ بات درست ہے کہ جب بھی صوبہ بنے لوگوں کی خواہشات، جدوجہد اور مطالبات کو سامنے رکھا جائے۔
حرف آخر یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے دور میں بننے والے پارلیمانی کمیشن کے پاس صوبائی حدود کے حوالے سے جائزہ لینے کا اختیار نہیں تھا اب اگر موجودہ حکومت سنجیدہ ہے تو جتنا کام پی پی پی دور کا پارلیمانی کمیشن کرچکا اس سے آگے چلنے کی ضرورت ہے۔
حدبندی کمیشن کا قیام ضروری ہے۔ اس کمیشن کو لوگوں کی بات سننا چاہیے نہ کہ ان سیاسی پنڈتوں کی جو سرائیکی صوبے کےقیام کو اپنی سیاست کی موت سمجھتے ہیں۔
سرائیکی وسیب کے لوگ شعوری طور پر اس امر سے آگاہ ہیں کہ صوبہ بنانے کی تحریک قومی تحریک ہے طبقاتی تحریک نہیں۔
یہ قومی تحریک کا حُسن ہی ہے کہ گزشتہ روز سیدی یوسف رضا گیلانی اور سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر رانا محمودالحسن ہم آواز تھے، یہی سرائیکی وسیب کے لوگوں کی فتح ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ