دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بات تو سچ ہے۔۔۔||مظہراقبال کھوکھر

کارکردگی پر تنقید کوئی بڑی بات نہیں مگر جس طرح کی جمہوریت ہمارے ہاں رائج ہے اس میں ایک ایم این کا اس طرح بات کرنا واقعی غیر معمولی عمل ہے یہی وجہ ہے ہم نے اسے اپنا موضوع بنایا ہوا ہے اور حکومت اس سے جواب طلب کر رہی ہے۔

مظہر اقبال کھوکھر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خبر ہے پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کے حلقہ 27 پشاور ون سے اپنے ایم این اے نور عالم خان کو سینئر قیادت اور حکومتی کارکردگی پر تنقید کی پاداش میں شوکاز نوٹس جاری کیا ہے۔ نور عالم خان نے گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں پوائنٹ آف آڈر پر گفتگو کرتے ہوئے حکومتی کارکردگی اور پالیسیوں پر کڑی تنقید کی تھی ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے پشاور کے لوگ گیس کی قلت کا شکار ہیں۔ پیچھے بیٹھے لوگوں کو بھی بولنے کا حق ہے کیا میں پاکستانی نہیں ہوں کیا پشاور پاکستان کا ضلع نہیں ؟  کیا سوات ، صوابی اور میانوالی ہی پاکستان کے اضلاع ہیں۔ اپنی بی ایم ڈبلیو اور جہازوں سے نیچے اتریں اور عوام کی حالت زار کا احساس کریں پاکستان آج جس صورتحال سے دو چار ہے اس کے ذمہ دار اگلی قطاروں میں بیٹھے ہوئے لوگ ہیں۔ نور عالم خان پارلیمنٹ میں اگلی قطاروں میں بیٹھے ممبران اسمبلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر اگلی تین قطاروں میں بیٹھے لوگوں کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دئے جائیں تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ یہاں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ پارلیمنٹ کی پہلی قطار میں وزیر اعظم کی بائیں جانب اہم وفاقی وزراء بیٹھتے ہیں دوسری قطار میں بھی وفاقی وزراء اور تیسری قطار میں وزرائے مملکت بیٹھتے ہیں۔
اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہوتا ہے جمہوریت کی سب سے بڑی خوبصورتی تو یہی ہوتی ہے کہ اس میں ہر شخص بلا خوف و خطر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہے مگر ہمارے ہاں کتنی جمہوریت ہے اور کتنی خوبصورت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف جو ملک میں ایک بڑی تبدیلی کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئی تھی جو دو نہیں ایک پاکستان بنانے کی دعویدار تھی پاکستان تحریک انصاف جس کی قیادت ریاست مدینہ کی مثالیں دیتے ہوئے نہیں تھکتی جو عام آدمی کو با اختیار بنانا چاہتی تھی۔ پاکستان تحریک انصاف جس کی سربراہ ہمیشہ یہ مثال دیتے ہیں کہ ماضی میں قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کیونکہ وہاں انصاف نہیں تھا امیر کے لیے الگ قانون تھا اور غریب کے لیے الگ قانون ، امیر جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور غریب جرم کرتا تو اسے جکڑ لیا جاتا حکمران عوام کو جوابدہ نہیں تھے۔ مگر آج اسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی کارکردگی پر اسی جماعت کے ایم این اے نے سوال اٹھایا تو اسے شوکاز نوٹس دینے کے بارے میں غور کیا جارہا ہے سوال یہ ہے کہ نور عالم خان نے ایسا کیا غلط کہہ دیا ہے۔۔؟ یہی تو وہ حقائق ہیں جو زبان زد عام ہیں مگر کیونکہ ہماری حکومتوں کو سچ سننے کی عادت نہیں ہوتی تو پھر پی ٹی آئی کی قیادت اتنا کڑوا سچ کیسے برداشت کر سکتی ہے۔ حالانکہ عوام کے منتخب نمائندوں  کی ذمہ داری بھی تو یہی ہوتی ہے کہ عوام کو در پیش مسائل کو پارلیمٹ میں اجاگر کریں عوام کی ترجمانی کریں  مگر کیونکہ ہماری حکومتوں کو آنکھیں بند کر دستخط کرنے اور ہاتھ کھڑے کرنے والے ممبران کی عادی ہوچکی ہیں اور ممبران اسمبلی میں بھی اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہوتی کہ اپنی حکومت کے سامنے عوام کے جذبات کی ترجمانی کر سکیں۔ حالانکہ ایک جمہوری حکومت میں اپنی پارٹی کی کارکردگی پر تنقید کوئی بڑی بات نہیں مگر جس طرح کی جمہوریت ہمارے ہاں رائج ہے اس میں ایک ایم این کا اس طرح بات کرنا واقعی غیر معمولی عمل ہے یہی وجہ ہے ہم نے اسے اپنا موضوع بنایا ہوا ہے اور حکومت اس سے جواب طلب کر رہی ہے۔
حکومتی ایم این اے کا پارلیمنٹ کی اگلی قطاروں میں بیٹھے لوگوں کو صورتحال کا ذمہ دار قرار دینا ایک تلخ حقیقت کی طرف واضح اشارہ ہے کیونکہ اگلی قطاروں میں بیٹھے لوگوں کی پالیسیوں کی وجہ سے آج پوری قوم قطاروں میں لگی ہوئی ہے کبھی آٹے کے لیے قطار ، کبھی چینی کے لیے قطار ، کبھی پیٹرول کے لیے قطار اور کبھی کھاد کے لیے قطار۔ سچ تو یہ ہے کہ عوام کی ان قطاروں کی ذمہ دار محض حکومت کی طرف کی قطاروں میں بیٹھے لوگ نہیں بلکہ اپوزیشن کی طرف کی قطاروں میں بیٹھے لوگ بھی اس کی برابر کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے کبھی بھی عوام کو درپیش صورتحال کے لیے سنجیدگی سے آواز نہیں اٹھائی البتہ اپنے کیسز کے لیے ضرور بات کرتے رہتے ہیں اسی طرح حکومت اور اپوزیشن کے ساتھ ساتھ عدلیہ کی اگلی قطاروں ، بیوروکریسی کی اگلی قطاروں اور اسٹیبلشمنٹ کی اگلی قطاروں کو اس سنگین صورتحال سے بری الذمہ قرار نہیں  دیا جاسکتا جو خود تو کبھی قطاروں میں نہیں لگے مگر ان کی پالیسیوں کی وجہ سے پوری قوم قطاروں میں لگی ہوئی ہے۔ نہیں معلوم یہ سنگین صورتحال کب اس قوم کا پیچھا چھوڑے گی وزیر خارجہ فرما رہے تھے کہ قوم حوصلہ رکھے 2023 تک مہنگائی کم ہوجائے 100 روز سے شروع ہونے والی کہانی 6 ماہ سے دو سال تک پہنچی اور اب ساڑھے تین سال ہوچکے ہیں اور ابھی بھی کہا جارہا ہے کہ 2023 تک حوصلہ رکھیں جبکہ دوسری طرف ملک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا گیا ہے 350 ارب کے نئے ٹیکس

لگا کر عوام پر احسان کیا جارہا ہے شکر کریں ہم نے 700 ارب کے ٹیکس نہیں لگائے ہر پندرہ روز بعد 4 سے 5 روپے پیٹرول کی قیمت بڑھا کر قوم کو جتلایا جاتا ہے ہمارا احسان مانیں عالمی مارکیٹ میں تو پیٹرول 10 روپے بڑھ چکا ہے ضرورت کی ہر چیز پر 17 فیصد ٹیکس ادا کر کے کہا جاتا گھبرانا نہیں اس سے عام آدمی متاثر نہیں ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام جس تکلیف دہ صورتحال اور کرب سے گزر رہے ہیں ان کی حقیقی ترجمانی کرنے والا کوئی نہیں مگر حکومت کے اندر سے حکومت کی پالیسیوں کے خلاف اٹھنے والی آواز حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی ضرور ہے  اب بھی وقت ہے حکومت اپنی پالیسیوں پر غور کرے ورنہ آج تو  وہ اپنے ایم این اے کو  شوکاز نوٹس دے کر خاموش کرا لیں گے مگر کل جب عوام اپنے جذبات کا اظہار اپنے ووٹ کی پرچی سے کریں گے تو پھر پی ٹی آئی کے پاس نہ طاقت ہوگی نہ اختیار ہوگا نہ کوئی کرسی ہوگی اور نہ کوئی قطار ہوگی۔

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

مظہراقبال کھوکھر کی  تحریریں پڑھیں

About The Author