مئی 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

امڑی کے جنت نشان شہر ملتان میں ||حیدر جاوید سید

اسی محفل میں سابق چیف جسٹس افتخار چودھری اور مشرف کے جھگڑے کا حقیقی پس منظر زیر بحث آیا۔ چلیں ان پر پھر کبھی تفصیل سے ان سطور میں عرض کریں گے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملتانی منڈلی کا کٹھ گزشتہ ماہ دسمبر کے وسط میں ہونا تھا، مگر برادرم ساجد رضا تھہییم ایڈووکیٹ کی والدہ محترمہ کے سانحہ ارتحال کے باعث ملتوی ہوگیا ، دوستوں کی مشاورت سے یہ کٹھ ہفتہ 15جنوری کو ملتانی منڈلی کے قائد و مستقل میزبان ملک خاور حسنین بھٹہ کی اقامت گاہ پر منعقد ہوا۔
امڑی کے شہر کے لئے روانگی کے وقت انصاف کے سرکاری کوٹھوں میں بیٹھے قاضیوں کے ذاتی رنج اور خباثت کا شکار ہوئے ہمارے دوست رانا شرافت علی اور آزاد خیالوں کے ترجمان عابد رائو ساتھ تھے۔ امڑی کے شہر میں ملتانی منڈلی کا کٹھ ان دو صاحبان کے لئے منعقد ہورہا تھا۔
منڈلی کی سنگت گاہے گاہے کسی نہ کسی صاحب علم کو دعوت فکر دیتی ہے اور طالب علموں کی طرح اس کے خیالات سے استفادہ کرتی ہے۔ سوال و جواب بھی ہوتے ہیں۔ یہی اس بار ہوا۔ منڈلی کے مہمان خاص رانا شرافت علی نے اعدادوشمار حوالوں اور دلیل کے ساتھ جمہوری نظام اور یپلزپارٹی کا مقدمہ پیش کیا۔جمہوریت اور پیپلزپارٹی کا مقدمہ پیش کرنا اس سماج میں خاصا مشکل کام ہے۔ لگ بھگ نصف صدی سے رجعت پسندوں اور ’’بڑی سرکار‘‘ کے تراشے ہوئے دانوں بینوں نے بھٹو خاندان اور پیپلزپارٹی پر ہر وہ الزام لگایا جو مارکیٹ میں دستیاب تھا۔ الزام تراشی، جھوٹ اور مکاری سے اٹھائے گئے پروپیگنڈے کی دھول کو آنکھوں کا سرمہ بنائے جیتی نسلیں اسی پر ایمان رکھتی ہیں کہ سقوط مشرقی پاکستان کی ذمہ دار پیپلزپارٹی تھی۔
ہر خرابی کی یہی تنہا ذمہ دار ہے۔ ان نسلوں کی حالت بھی ان عظیم رہنمائوں جیسی ہے جو کل کہی بات کی آج تردید اس دھڑلے سے کرتے ہیں کہ حضرت شیطان بھی سوچنے لگتا ہے ’’یار میں ان کے ساتھ ہوں یا یہ میرے ساتھ ہیں‘‘۔
پیپلزپارٹی سیاسی جماعت ہے اسی سماج کے لوگ کل بھی اس میں تھے اور آج بھی۔ آگ پانی اور مٹی سے خلق ہوئے انسان میں خوبی بھی ہوتی ہے اور خامی بھی۔ لوگ اپنی اپنی پسند یا ظرف کے مطابق فیصلہ صادر کرتے ہیں
مثال کے طور پر ہمارے ’’ایمان دار‘‘ دوستوں کا خیال ہے کہ لاہور اور خانیوال کے حالیہ ضمنی انتخابات میں پیپلزپارٹی کو مجموعی طور پر جو ووٹ ملے وہ ڈیل کی برکت ہیں۔ ان دوستوں سے جب یہ کہا جائے کہ 2013ء اور 2018ء میں پیپلزپارٹی کے ووٹ کس نے چرائے، ہر دو مرتبہ کالعدم تنظیمیں (دہشت گرد گروپس) کن کی مدد کو آئیں؟
اس سوال پر ان کے دہن کو تالے لگ جاتے ہیں۔
پروپیگنڈے کے ایمان والے تالے آپ دلیل سے نہیں کھول سکتے۔ پروپیگنڈہ ایسا زہر ہے جس کا علاج صرف دلیل سے ممکن ہے مگر جب نصف صدی سے ’’وہ چور ہم سادھو‘‘ کے پروپیگنڈے کی دھول اڑائی جارہی ہو تو مرض لاعلاج بھی ہوجاتے ہیں۔
ایک اور مثال عرض کردیتا ہوں ان دنوں جماعت اسلامی، تحریک انصاف، ایم کیو ایم بہادر آباد، پی ایس پی اور مرحوم پیر پگاڑا کا ’’کالا کوا‘‘ ہی نہیں بلکہ جی ڈی اے والے سندھ کے نئے بلدیاتی نظام کے خلاف احتجاج پر ہیں ان سب کا مشترکہ مطالبہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے 2001ء والے بلدیاتی نظام کو بحال کیاجائے۔
ان سے پوچھ کر دیکھئے کہ کیا باقی تین صوبوں میں بھی اعلیٰ حضری دہلوی سرکار جنرل پرویز مشرف کا بلدیاتی نظام ہے؟ جواب میں آئیں بائیں شائیں۔
پھر سوال کیجئے باقی کے تین صوبوں میں آپ احتجاج کیوں نہیں کرتے نئے بلدیاتی نظاموں کے خلاف؟ جواب ملے گا سندھ کو پیپلزپارٹی نے برباد کردیا۔
ماضی ایک میں مرتبہ یونین کونسل کے الیکشن میں 500ووٹ نہ لینے والا ایک بدزبان تو تربیت کے ایسے مظاہرے کررہا ہے کہ بیوائیں بھی شرم سے انگلیاں دانتوں میں دبالیتی ہیں۔

معاف کیجئے گا ہم نے بات ملتانی منڈلی کی کرنا تھی لیکن خیر ہے یہ بھی پیپلزپارٹی کے مقدمہ کا حصہ ہی ہے۔ رانا شرافت علی جب منڈلی کے کٹھ میں دلیل کے ساتھ اپنا موقف پیش کررہے تھے تو سول سپر میسی کی ذیلی برانچ کے معاملات پر بھی سوال اٹھے۔
ملتانی منڈلی کی سنگت کا حسن یہ ہے کہ ہم منڈلی کے کٹھ میں خوب بحث کرتے ہیں سوال اٹھاتے ہیں لیکن ایک دوسرے کی عزت نفس اور اس کے سیاسی موقف کی توہین سے کامل گریز کرتے ہیں۔
آزاد خیالوں کے سکہ بند ترجمان رائو عابد صاحب نے بھی اپنی باتیں کہیں اور خوب کہیں۔ مستقل عزیزی تو ہمیشہ کی طرح جوبن پر ہی تھے اور جب قائد ملت ملتانی منڈلی نے میز پر ان کی سالگرہ کا کیک رکھا تو ان کی آنکھوں میں بھی شمعائیں روشن ہوگئیں۔ فقیر راحموں نے دعادی یار مستقل عزیزی اللہ آپ کو مذہبی اسٹیبلشمنٹ سے محفوظ و مامون فرمائے۔
پانچ گھنٹوں پر پھیلی نشست شب بارہ بجے کے لگ بھگ تمام ہوئی۔ مسافروں کا قافلہ برادر عزیز محمودمہے کی قیام گاہ پر شب بسری کے لئے روانہ ہوا جہاں ایک بار پھر محفل سج گئی۔ تین سکہ بند جیالوں میں پھنسے اس محبتی نے بھی خوب تاریخ کے اوراق پھرولے،
اتوار کی صبح رائو عابد صاحب نے فیس بکی دوست عزیزم آصف سیال کی آمد کی اطلاع دی۔ وہ تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح آئے پھر ان سے خوب گپ شپ رہی۔ ایک پرتکلف ناشتے کے بعد اگلی مسافت کے سفر کو ملتوی کرنے کا متفقہ فیصلہ ہوا۔ تین نفری مسافروں کا قافلہ معروف صحافی مجاہد حسین سے ملاقات کے لئے روانہ ہوگیا ،
مجاہد حسین پچھلی صدی کی آخری دہائی میں تحقیقاتی صحافت کے میدان میں اترے اور انہوں نے عملی طور پر یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ سرکاری آستانوں سے ملے کاغذات سے پروپیگنڈے کا حصہ بننے والی خبریں تحقیقاتی سٹوریاں نہیں ہوتیں بلکہ اس کے لئے جان جوکھم میں ڈالنا پڑتی ہے۔
یہ مجاہد حسین ہی تھے جنہوں نے فاتح جلال آباد کہلانے والے جنرل حمید گل کی قبضہ گیری کی داستان لکھی اور اپنے پڑھنے والوں کو بتایا کہ کیسے انہوں نے نارووال کے سرحدی علاقے میں لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کیا اور زمین کی رجسٹری کراتے وقت اہلیہ کی زوجیت لکھنے کی بجائے ولدیت لکھوائی۔
مجاہد حسین کی شہرت کو چار چاند ان کی کتاب ’’پاکستان کو لوٹنے وا لے‘‘ کی اشاعت سے ملی لیکن اس شہرت نے انہیں مادر وطن چھوڑنے پر بھی مجبور کردیا۔
انہوں نے اپنی کتاب میں پھٹی ہوئی بنیان والے ایک مرحوم وزیراعظم کے انتقال کلیم کی حقیقت بیان کی تو نظریہ پاکستان کے زندہ مجاور ان کی جان کو آگئے۔
تین نفری مسافر مہمانوں کے قافلے اور مجاہد حسین کے درمیان دو گھنٹے خوب گپ شپ ہوئی۔ یہیں فقیر راحموں نے اعلیٰ حضرت جنرل پرویز مشرف کی ان عظیم خدمات سے پردہ اٹھایا جن کی وجہ سے تین عدد خواتین کو طلاق ہوگئی تھی۔
اسی محفل میں سابق چیف جسٹس افتخار چودھری اور مشرف کے جھگڑے کا حقیقی پس منظر زیر بحث آیا۔ چلیں ان پر پھر کبھی تفصیل سے ان سطور میں عرض کریں گے۔
یاد پڑتا ہے کہ دس بارہ برس قبل ہم نے ان موضوعات پر لکھا تھا تب ایک ریاستی محکمے کے ذیلی شعبہ کے لوگ بڑے برہم ہوئے تھے۔
اگلی مسافت کا سفر ملتوی ہوجانے کے سبب لاہور سے آئے تین نفری مسافروں کے قافلے کے دو مسافر رانا شرافت علی اور رائو عابد واپس لاہور روانہ ہوئے اور ہم اپنے ہمزاد فقیر راحموں کے ہمراہ امڑی کے جنت نشان شہر ملتان میں رک گئے۔
ملتان مدینہ سے واپس جانے کو کس ملتانی کا دل کرتا ہے ابھی ایک دو دن رکیں گے امڑی کی تربت کو بوسہ دینا ہے، بہنوں کی قدم بوسی واجب ہے۔ ایک دو کام ہیں دوستوں سے ملنا ہے۔

دوستوں سے ملنا ہے پر یاد آیا کہ اتوار کی شام عزیزم آصف سیال سے دوبارہ ملاقات ہوئی وہ خاص زحمت کرکے ہمارے ٹھکانے پر پہنچے تھے۔
ہمارے ملتانی دوست اور بوہڑ گیٹ ملتان کے معروف اویسی خاندان کے چشم و چراغ شیراز اویسی بھی ملاقات کے لئے تشریف لائے۔ ایک طویل نشست رہی ان سے، ان کے سوالات نے ہمارے حافظے ا ور مطالعے کے امتحانات لئے اور خوب لئے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: