نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وہ اپنے ہدف پہ الفاظ کو اینٹ اور روڑے بناکر اچھالتا ہے||عامر حسینی

یہ کہنا ایک سوشل میڈیائی پھکڑباز کے قتل کی ایک لاکھ پاؤنڈ کی سپاری دی جانی عقل میں نہیں آتی کوئی ایسا مضبوط اعتراض نہیں ہے جس سے اس حملے کو قطعی طور پہ ڈرامہ قرار دیا جاسکے

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میری نظر میں گورایہ ایک ایسا پھکڑباز ہے جس کو طربیہ، مزاح نگاری کے کوئی واسطہ نہیں وہ اپنے ہدف پہ الفاظ کو اینٹ اور روڑے بناکر اچھالتا ہے اور استدلال و منطق اُسے ویسے پسند نہیں ہے – مقصد اپنے ہدف کو اشتعال اور بس اشتعال دلانا ہوتا ہے –
ابتداء میں اُس کا نام سلمان حیدر سے جُڑا ہوا تھا تو لوگ مشکل محسوس کرتے تھے کیونکہ سلمان حیدر کے ہاں بات کو کہنے کا ڈھنگ بدرجہ اتم موجود ہے اور وہ اپنے حریف کو ہجویہ نظم کے زریعہ زِیر کرنے پہ قادر ہے جس کا جواب دینا اُس کے مخاطب کو مشکل ہوجاتا ہے-
پہلے پہل لوگ وقاص گورایہ کے ہاں ابتذال، سوقیانہ پَن، گالم گلوچ کو اُس واردات کا نتیجہ سمجھے تھے جو پاکستان کی عسکری غیر منتخب ہئیت حاکمہ کے اندر سب سے طاقتور سمجھی جانے والی جاسوس تنظیم کے چند ایک اہلکاروں پہ مشتمل ٹولے نے اُس سمیت اُس کے دیگر ساتھیوں کے ساتھ کی تھی- لیکن جب یہ ابتذال، پھکڑپَن، سوقیانہ پَن اور گالم گلوچ اُس نے اپنے سے اختلاف کرنے والے ہر ایک شخص یا گروہ سے کرنا شروع کیا اور اُس نے یہ طریقہ واردات خود سیاسی جماعتوں کے درمیان پیدا اختلاف کے دوران مسلم لیگ نواز پہ تنقید کرنے والی اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی اختیار کرنا شروع کیا تو بہت سارے لوگوں کو ادراک ہوگیا کہ اُس کی حثیت مسلم لیگ نواز کے "سوشل میڈیائی پھکڑباز” کے سوا کچھ نہیں ہے –
میرے نزدیک وقاص گورایہ پہ چاقو سے حملہ کا واقعہ ایک ڈرامہ تب ہی قرار پاسکتا ہے جب اس میں خود ہالینڈ کی سیکورٹی اسٹبلشمنٹ شریک ہو اور یہ شرکت ہالینڈ کی حکومت کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی- تو اگر ہم اس حملے کو ڈرامہ قرار دیں تو کیا ہم یہ مان بیٹھے ہیں کہ ہالینڈ کی حکومت کی مرضی و منشا سے یہ ڈرامہ رچایا گیا ہے؟
اگلا سوال یہ ہوگا کہ ہالینڈ کی حکومت یہ سارا ڈرامہ پاکستان اور اس کی سپائی ماسٹر انٹیلی جنس ایجنسی کے خلاف کیوں رچانے لگی؟
اگلا سوال یہ بھی ہوگا کہ پاکستان کی سپائی ماسٹر ایجنسی نے کیا بطور سپائی ایجنسی اس کام کے لیے مذکورہ ملزم کو تیار کیا؟ یا پھر اس میں اس ایجنسی سے تعلق رکھنے والے کچھ ایسے افراد کا کردار ہے جنھوں نے اپنے اختیار سے تجاوز کیا؟
جب آپ سازشی مفروضوں پہ بات کرتے ہیں تو ایک اور سازشی مفروضہ بھی تو ذہن میں آسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہوسکتا ہے یہ بھارتی ایجنسی راء ہو جس نے ایک پنتھ دو کاج والا فارمولا اپنایا ہو – اس فارمولا کو آپ کیسے نظر انداز کرسکتے ہیں؟ جبکہ ہمارے سامنے جہادی پراکسیوں کو خریدے جانے اور پاکستان میں استعمال کیے جانے کی بھی بہت سی خبریں موجود ہیں-
یہ کہنا ایک سوشل میڈیائی پھکڑباز کے قتل کی ایک لاکھ پاؤنڈ کی سپاری دی جانی عقل میں نہیں آتی کوئی ایسا مضبوط اعتراض نہیں ہے جس سے اس حملے کو قطعی طور پہ ڈرامہ قرار دیا جاسکے
ہمارے ہاں غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کے اندر موجود ٹولے نے کئی عام سے لوگ اُن کو للکارنے کی وجہ سے قتل کروائے، پھانسی پہ چڑھائے جو اُن کے لیے براہ راست کوئی خطرہ نہیں تھے لیکن اُن کی جرات اور ہمت و بے باکی اُن کو قتل کروانے، غائب کروانے کا سبب بن گئی –
یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ حملہ آور سپاری کی رقم میں مبالغہ آرائی سے کام لے رہا ہو؟
لیکن ان سب سوالوں کے ساتھ ساتھ میں ایک بات ضرور کہوں گا کہ وقاص گورایہ پہ حملہ چاہے جتنے شکوک و شبہات ابھارتا ہو لیکن اس دوران کریمہ بلوچ اور ساجد بلوچ کی گمشدگی کے بعد اموات کے پس پردہ کوئی بڑا ڈیزائن اور منصوبہ ضرور چھپا ہے اور یہ کس کا ڈیزائن اور منصوبہ ہے ہم تیقن سے کچھ نہیں کہہ سکتے – یہ پراکسی جنگ میں ملوث کسی ایک فریق کی کارستانی ضرور ہے اور وہ فریق کوئی بھی ہو سکتا ہے
یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author