حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پہ تو دو رائے بالکل بھی نہیں کہ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف علاج کرانے کے لئے عدالت میں واپسی کے لئے جمع کرائی گئی تحریری ضمانت پر ہی بیرون ملک گئے تھے۔
واپسی کے ضامن ان کے بھائی اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف تھے۔ عدالتی حکم کے بعد ہی وفاقی اور پنجاب حکومت نے باقی ماندہ قانونی تقاضے پورے کرکے انہیں بیرون ملک روانگی کی اجازت دی ۔
سابق وزیراعظم کی علاج کے لئے بیرون ملک روانگی کے بعد سے پنجاب حکومت کا موقف ہے کہ انہوں نے طے شدہ طریقہ کار کے مطابق طبی ماہرین کی رپورٹس حکومت کو نہیں بھجوائیں۔ ابتدا میں جو 2رپورٹیں بھجوائی گئیں وہ تصدیق شدہ نہیں تھیں۔
اس کے برعکس نون لیگ کے وکلاء کہتے ہیں پنجاب حکومت عوام کو گمراہ کرہی ہے ہمارے قائد کی میڈیکل رپورٹس باقاعدگی کے ساتھ متعلقہ حکام کو بھجوائی جارہی ہیں ، ادھر علاج کے لئے بیرون ملک گئے سابق وزیراعظم ابتداء ہی سے بھرپور سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اپنی جماعت کے اجلاسوں، پی ڈی ایم کے جلسوں اور دیگر تقریبات میں ویڈیو لنک سے خطاب کرنے کے علاوہ وقفے وقفے سے ویڈیو پیغام بھی جاری کرتے اور مہمانوں سے ملاقاتیں بھی کرتے ہیں ان کی تقاریر بیانات اور ملاقاتوں کی گفتگو خاصی تندوتیز ہے ۔
لندن میں ان کی مصروفیات علاج سے زیادہ سیاسی نوعیت کی ہیں۔ ویسے سیاستدان سیاسی گفتگو ہی کرے گا جب اسے موقعہ ملے گا "راگ ملہاری” گانے سے تو رہا اب سیاستدان ، ان کی جماعت اور خاندان کے افراد ابتداء میں یہ کہتے رہے کہ عدالت کا دیا وقت گزرجانے سے فرق نہیں پڑتا، معالجین جب مکمل صحت یاب قرار دیں گے وہ وطن واپس آجائیں گے۔
بعدازاں ان کی صاحبزادی مریم نواز نے ایک سے زائد بار میڈیا پر کہا کہ ان کے والد کو پاکستان میں جان کا خطرہ لاحق ہے۔ انکی زندگی کی ضمانت دی جائے تو میں کل ہی انہیں واپس بلالوں گی۔
خطرہ کس سے لاحق ہے اس کی وضاحت ضروری تھی تاکہ عوام جان پاتے کہ خطرہ حکومت وقت سے ہے یا ریاست سے ؟
پچھلے کچھ عرصہ سے کسی ممکنہ ڈیل کی کہانیاں سنانے والے صحافی یوٹیوبر اور مجاہدین سول سپر میسی جنوری میں ان کی آمد کی باتیں کررہے تھے ہمیں بتایا جارہا تھا ” فلاں فلاں ” بندے لندن پہنچ کر ان سے ملے اور منت ترلے کئے کہ آپ واپس آجائیں لیکن انہوں نے کچھ شرائط رکھی ہیں یہ مان لی گئیں تو وہ آجائیں گے
ایک دو دیوانے یہ بھی کہہ رہے تھے کہ شرائط مان لی گئی ہیں بس واپسی کی تاریخ اور ایئر پورٹ طے ہوتے ہی میاں صاحب آجائیں گے ۔
لیکن پتہ نہیں کیوں آئی ایس پی آر کے سربراہ جنرل بابر افتخار کی ایک حالیہ میڈیا ٹاک نے ڈیل کہانیوں کے غبارے سے ہوا نکال دی ، اس کے بعد پھر سے وہی معالجین کی اجازت اور کامل صحت والا موقف سامنے آرہا ہے۔
بظاہر جس سوال کا جواب نہیں دیا جارہا وہ یہ ہے کہ سابق وزیراعظم کی صاحبزادی تو کہہ رہی تھیں کہ ان کے والد کی جان کو خطرہ ہے زندگی کی ضمانت دی جائے تو انہیں خود واپس بلالیں گی، یہ بات تو بیماری اور علاج کے لئے بیرون ملک قیام کے موقف سے مختلف ہے ، کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ وزیراعظم یا ان کے رفقا سابق وزیراعظم کے قیام لندن کے حوالے سے جن تحفظات کا اظہار کررہے ہیں وہ "درست ہیں؟”
سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے ایک موقع پر یہ الزام بھی لگایا کہ جیل میں قیام کے دنوں میں انہیں سلوپائزنگ دیئے جانے کے ثبوت بھی ملے۔ اصولی طور پر انہیں چاہیے تھا کہ اپنے والد کو سلوپائزنگ دیئے جانے کے ثبوت عدالت میں لے کر جاتیں لیکن انہوں نے عدالت جانے کی بجائے اس دعوے کو عوامی ہمدردیاں سمیٹنے کا ذریعہ بنایا۔
ادھر عدالت کی جانب سے علاج معالجے کے لئے بیرون ملک قیام کے لئے دیا گیا وقت ختم ہونے اور طویل انتظار کے بعد بالآخر اب وفاقی کابینہ نے اس معاملے پر عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کے مطابق وفاقی کابینہ کے گزشتہ روز کے اجلاس میں اس تجویز کی منظوری دی گئی کہ میاں نوازشریف کو وطن واپس لانے کے لئے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا جائے جہاں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے اپنے بھائی کی واپسی کی ضمانت کا بیان حلفی جمع کروایا تھا۔
وفاقی وزیر کے مطابق اپوزیشن لیڈر کا عدالت میں جمع کروایا گیا بیان حلفی آئین کے آرٹیکل 63کی خلاف ورزی ہے ( یہ آئین کا آرٹیکل 63 بھی بس بندروں کے ہاتھ لگا استرا ہی ہے ۔ )کابینہ کو یہ بھی بتایا گیا کہ علاج کے لئے بیرون ملک مقیم سابق وزیراعظم اپنے علاج سے زیادہ سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں اور ان کی بعض تقاریر سے ریاستی اور قومی اداروں کا وقار مجروح ہواہے ،
ہمارے ہمزاد فقیر راحموں اس دعویٰ کو سن کر کافی دیر تک ہنستے رہے پھر کہنے لگے یار شاہ جی ایک کپ کافی پلوادو سر دُکھنے لگا ہے ،
وزیر اطلاعات نے یہ بھی کہا کہ سابق وزیراعظم کا علاج کے لئے ملک سے باہر جانا بیماری نہیں فراڈ پر مبنی تھا حالانکہ میاں نواز شریف کی بیرون ملک روانگی سے قبل خود وزیراعظم اپنی کابینہ کو بتارہے تھے کہ میں نے ڈاکٹر فیصل کے زریعے رپورٹس کی تصدیق کرالی ہیں نوازشریف بیمار ہیں ، ڈاکٹر فیصل آجکل وزیراعظم کے مشیر صحت ہیں ان کا تعلق شوکت خانم ہسپتال سے ہے ۔
بہرطور وفاقی کابینہ نے معاملہ عدالت میں لے جانے کے فیصلے کی منظوری دی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کب عدالت سے رجوع کرتی ہے لیکن اس امر کا تذکر ضروری ہے کہ عدالت نے جس میڈیکل بورڈ کی رپورٹ پر سابق وزیراعظم کو بیرون ملک علاج کے لئے بھجوانے کا حکم دیا تھا وہ میڈیکل بورڈ پنجاب حکومت کے حکم پر قائم ہوا تھا۔
سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اس میڈیکل بورڈ کی رپورٹ پر عدالت میں جانے سے قبل کوئی تحقیقاتی کمیٹی بیٹھائے گی تاکہ اس دعوے کی حقیقت عیاں ہو کہ رپورٹ جعلی تھی اور بیماری بھی۔ ایسا کیا جانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد، سابق وزیراعظم کی بیماری اور پنجاب حکومت کے قائم کردہ میڈیکل بورڈ کی رپورٹ دونوں کو متعدد مواقع پر درست قرار دیتے ہوئے اس کا دفاع کرتی رہی ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ سیاسی سرگرمیوں میں فعال رہنے سے یہ واضح ہوگیا کہ سابق وزیراعظم کی بیماری اتنی خطرناک ہرگز نہیں جیسی بتائی جاتی تھی بیماری خطرناک تھی یا خریدے گئے ایئر ٹائم نے خطرناک بناکر پیش کیا یہ الگ بحث ہے ہم اس میں کیوں پڑیں بیماری کی تشہیر کیلئے ایئر ٹاٹم خریدا گیا تو یہ بھی مہارت کا کام ہے ۔
ہاں یہ ٹھیک بات ہے کہ خود انہیں بھی قانون کی پاسداری کرنی چاہیے لیکن تالی ایک سے نہیں دوہاتھوں سے بجتی ہے ۔ البتہ اگر انہوں نے علاج کے لئے عدالتی اجازت کے قانونی تقاضے پورے نہیں کئے تو اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے
تین بار ملک کا وزیراعظم رہنے والے شخص کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس حوالے سے کرائی گئی یقین دہانی کے مطابق معاملہ کرتے تاکہ سوالات نہ اٹھتے ، ہماری رائے میں تو ضرورت اس بات کی ہے کہ سابق وزیراعظم وطن واپس آکر نہ صرف مقدمات کا سامنا کریں بلکہ اس تاثر کو بھی دور کریں کہ ان کی ذات ملکی قانون سے بالاتر ہے
اور یہ کہ ان کے خاندان اور مسلم لیگ (ن) کو بھی قانونی تقاضوں پر سیاست کرنے کی بجائے اس معاملے میں عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔ لیکن لازم نہیں کہ وہ ہماری رائے پہ عمل کریں ظاہر ہے جب ان کی صاحبزادی کہہ رہی ہے کے میرے والد کی جان کو ملک میں خطرہ ہے تو یقیناً ایسی کوئی بات ہوگی ورنہ میاں نوازشریف جیسا بہادر آدمی ملک چھوڑ کر کیوں جاتا
پسِ نوشت
پنجاب حکومت نے وفاقی کابینہ کے فیصلے کے بعد میاں نوازشریف کی میڈیکل رپورٹس کا جائزہ لینے کیلئے سینئر ڈاکٹرز پر مشتمل 9 رکنی بورڈ بنادیا ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ