مئی 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’ایک کتاب خور‘‘ (پاشی پر دوسری اور آخری تحریر)||یاسر جواد

لخت پاشا عرف پاشی غالباً 1970ء سے پہلے واپڈ میں ملازم تھا۔ سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے ایک بار جیل گیا تو پیچھے سے اُس کے باپ کا انتقال ہو گیا۔ اُس نے بعد میں کہا، اس بات کا رنج ہمیشہ رہے گا کہ باپ کے جنازے میں شرکت نہ کر سکا۔

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بڑے لوگوں کے نوحے نہیں لکھنے چاہئیں۔ اُنھیں جنت میں بھیجنے کے لیے اپنی بے سود دعاؤں سے زیربار نہیں کرنا چاہیے۔ جب ہم میں سے کوئی شخص اپنی مرضی کی زندگی گزار کر مر جائے تو زیادہ سے زیادہ یہی کیا جا سکتا ہے کہ اُس کی زندگی کا مختصر جائزہ لے کر اپنی موقع پرستیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لیا جائے۔ میں ضروری سمجھتا ہوں کہ کسی دوست کی موت پر اُسے فرشتے کے مقام پر کھڑا نہ کیا جائے۔ اُس نے غلطیاں بھی کی ہوتی ہیں، اُس پر بھی گھمنڈ اور غرور، نفرت اور تعصب کے لمحے آتے ہیں۔ وہ بھی زندگی میں تضادات کا شکار رہا ہوتا ہے، اور اُن الجھنوں کو سلجھانے کی کوششیں کی ہوتی ہیں۔
لخت پاشا عرف پاشی غالباً 1970ء سے پہلے واپڈ میں ملازم تھا۔ سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے ایک بار جیل گیا تو پیچھے سے اُس کے باپ کا انتقال ہو گیا۔ اُس نے بعد میں کہا، اس بات کا رنج ہمیشہ رہے گا کہ باپ کے جنازے میں شرکت نہ کر سکا۔
پاشی نے 1980ء کی دہائی کے اواخر میں ایک نظریاتی گروپ قائم کیا جس کے مختلف شعبے تھے: ڈرامہ، سیاست، پنجابی زبان پڑھنا، موسیقی اور آرٹ۔ این سی اے اور دیگر کالجوں سے نوجوان طلبا زیادہ تر موسیقی، ڈراما اور آرٹ کے حوالے سے متوجہ ہوتے۔ سیاست والے شعبے (جس میں میں بھی شامل تھا) سے منسلک لوگ زیادہ کرخت اور کٹر تھے۔ لیکن ان کا کام بھی زیادہ سخت تھا۔ مثلاً گوالمنڈی میں اگر خلیج کی جنگ کے بارے میں تھیئٹر پیش کرنا ہوتا تو چوک میں بس کھڑی کر دی جاتی جس پر میورلز لگائے گئے ہوتے۔ پھر سیاسی کارکن موٹر سائیکل اور گاڑیوں والوں کو متبادل راستے کی طرف گائیڈ کرتے۔ آدھے گھنٹے کے کھیل کے دوران سیاسی کارکن ارد گرد کھڑے لوگوں کو پمفلٹ بانٹتے رہتے۔ ڈراما ختم ہونے کے بعد قریب ہی کسی چائے کے ہوٹل پر شام تک بیٹھتے رہتے۔ کھیل سے متاثرہ لوگ آکر پوچھتے کہ یہ کون سی مخلوق ہے؟ ان کا مقصد کیا ہے؟ اُن میں سے زیادہ سنجیدہ لوگوں کے ساتھ باقاعدہ رابطہ رکھنے کی ذمہ داری لی جاتی اور اُنھیں آئندہ میٹنگوں میں بھی بلایا جاتا۔ یہ پنجاب کی تھیئٹر کی پرانی روایت کو بحال کرنے کی کوشش تھی۔
May be an illustration of 1 person
کبھی سمن آباد میں پاشی کے کرائے کے مکان پر جانا ہوتا تو وہ زیادہ خوش آمدید نہ کہتا جس کی وجہ شاید میرا بہت جونیئر ہونا تھا۔ اُس کا روسی نسل کا کتا بھی آپ کی آمد کو شدید ناپسند کرتا اور تمام وقت بولتا رہتا تھا۔ مگر جب بھی پاشی سے کچھ پوچھا جاتا تو فوراً بڑے تپاک اور صراحت سے جواب دیتا۔ اُن دنوں کتابوں کی دستیابی بہت مشکل ہوتی تھی۔ آپ اس کے سرہانے کے قریب یا میز پر کوئی کتاب پڑی دیکھتے تو وہ نہایت بے رخی سے اس کے متعلق بتاتا۔ وہ کبھی کسی کو (کم ازکم مجھے) کوئی کتاب نہیں دیتا تھا۔ لیکن کسی کے پاس اگر کوئی کام کی کتاب دکھائی پڑ جاتی تو فوراً لے لیتا اور پھر کبھی واپس نہ کرتا۔ اُس کی ایک قریبی شاگردہ فرزانہ نے اُس سے سیمون دی بووا کی کتاب ’’دی سیکنڈ سیکس‘‘ لی، جو اُس نے کسی اور دوست کو دی۔ میں نے اُسی سے مستعار لے کر فوٹوکاپی کروائی، پڑھی، بہت پسند آئی اور ترجمہ کی۔
آپ گورونانک کے کسی اشلوک، لینن کی کسی تقریر، مارکس کی تھیوری، پنجاب کی تاریخ کے کسی دور، ہندومت کے کسی تصور، روسی ادب کے کسی شاہکار، گوتم بدھ کے قول، گاندھی اور جناح کے تعلق، ویدک عہد کے کسی پہلو، انسانی ارتقا کے کسی مسئلے، ہندوستانی اور یورپی فلسفے کے کسی اہم نظریے کے متعلق اور پنجابی کے کسی محاورے پر جونہی بات کرتے اُسے گفتگو کے لیے پوری طرح تیار پاتے۔
اپنے ارد گرد نظر ڈالیں اور غور کریں کہ کیا آپ کو ایسا کوئی اور شخص نظر آتا ہے؟
سوچیں کہ جب آپ نہیں رہیں گے تو آپ کی کن خوبیوں اور خامیوں کو لوگ یاد کریں گے؟

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: