رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاست قبائلی اور جاگیردار معاشروں میں اشرافیہ کا کھیل تماشا ہوتا ہے۔ دھن دولت‘ عزت و وقار اور سماجی مقام پیدائشی وراثت میں ملتے ہیں۔ بڑے جب اپنا وقت پورا کر لیتے ہیں تو قطار میں لگے صاحب زادے اور صاحب زادیاں کرسی سنبھال لیتے ہیں۔ جیسے قدیم معاشروں میں کبھی دستور تھا‘ باپ اپنے بیٹوں میں سے کسی با صلاحیت کو اپنا جانشین منتخب کر لیتا‘ اور اس کو خاندانی منصب اور حکمرانی کے لیے تیار کرتا، بس ایک اشارہ ہی کافی ہوتا کہ اقتدار کون سنبھالے گا۔ رعایا‘ درباری اور ہرکارے نئے آنے والوں کی فہم و فراست‘ بہادری‘ شجاعت اور علم و فضل کے ایسے ترانے گاتے اور ایسے قصیدے لکھتے کہ سوچتا ہوں‘ یہ سب باتیں تو صدیوں بلکہ ہزاروں سال پہلے کی ہیں‘ لیکن موجودہ پاکستانی معاشرے پہ صادق آتی ہیں‘ اس لیے کہ سماجی جمود ہے۔ ہم جو چاہے کہتے اور لکھتے رہیں‘ اقتدار تو چند سو خاندانوں کے ہاتھ میں ہے۔ ابھی تک کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ پچاس سال پہلے جب ہم علمِ سیاست کو پڑھنے کی ابتدا کر چکے تھے تو مشتاق احمد صاحب کی تازہ کتاب ”سیاست سماجی تبدیلی کے بغیر‘‘ منظرِ عام پر آئی تھی۔ جو تب لکھا گیا‘ آج بھی ہماری سیاست اور سماجی طبقات کے درمیان رشتوں کے تجزیے پر صادق آتا ہے۔ سنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ محترم پرویز خٹک صاحب سردیوں کے اس ٹھٹھرا دینے والے موسم میں گرمی میں آ گئے۔ مانیں یا نہ مانیں‘ بات تو سولہ آنے درست معلوم ہوتی ہے کہ آپ کو ”وزیر اعظم ہم نے بنایا ہے‘‘ لیکن یہ سوال تو خٹک صاحب کے سامنے رکھنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ آخر آپ نے عمران خان کو کیوں وزیر اعظم بنایا؟ دراصل وہ اپنی اور ارکانِ اسمبلی کے سربراہ حکومت کے چنائو میں کلیدی آئینی کردار اور اہمیت سے کہیں زیادہ ”ہم‘‘ پر زور دے رہے تھے۔ یہ ”ہم‘‘ اراکین کا وہ گروہ ہے جو خاندانی سیاست نسل در نسل کرتے چلے آ رہے ہیں۔
ہمارے ہاں بہت بڑی مڈل کلاس تو پیدا ہوئی ہے مگر ابھی تک اقتدار کے ایوانوں میں کم ہی ہیں جو اپنی کاوشوں اور مقامی سماجی حلقوں میں تحریک پیدا کر کے اپنے لیے جگہ بنا چکے ہیں۔ جب تک نئے سیاسی ستارے مقامی اور شہری تحریکوں سے ابھر کر سامنے نہیں آئیں گے‘ خاندانی سیاست کا جبر ہمارے سروں پر گوشت خور چیلوں کی طرح منڈلاتا رہے گا۔ یہ ممکن بھی ہے اور ناگزیر بھی۔ سیاسی کارکن کب تک جھنڈے اٹھا اٹھا کر ”خاندانیوں‘‘ کو ایوانوں میں بٹھانے کی مشق کرتے رہیں گے۔ وقت اور تاریخ کا بھی تو جبر ہے جو غیر امکانی حقائق‘ حالات اور واقعات پیدا کر سکتا ہے۔ یہ نہیں کہ میں صبح سویرے رجائی ذہنی کیفیت میں دور کی کوڑی لانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ دنیا کے سب معاشروں کی تاریخ ہو یا فطرت کے اصول‘ جمود ہمیشہ کے لیے نہیں رہتا۔ دنیا جس تیزی اور سرعت کے ساتھ ہمارے سامنے تبدیل ہو رہی ہے‘ ہم کب تک خاندانی سیاست کے مغلائی شہ زادوں اور شہ زادیوں اور ان کی تعریف میں روزانہ تعریفوں اور خوشامدوں کے پُل باندھنے والوں کے غلام رہیں گے؟ ہم سب انسان اپنی فطرت میں جلد باز ہیں‘ یہ چاہتے ہیں کہ بس سب کچھ پلک جھپکتے ہی تبدیل ہو جائے۔ تاریخ کا پہیہ اپنی رفتارسے چلے تو ہم اپنی کاوشوں سے اس کو تیزی سے گھما سکتے ہیں‘ مگر اس کے لیے تدبر‘ جدوجہد‘ اجتماعیت اور شعور کی کچھ گہری تہوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ دیوانوں کے خواب اتنے دیوانے بھی نہ سمجھیں۔ ہم بھی بہت تبدیل ہو چکے ہیں۔ ان کے مظاہر شہروں میں پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ شہری تحریکوں کے علم کس رنگ کے ہیں اور کون ہیں جو ان کو اٹھا کر ہماری زندگیوں کو آسودگی دلاتے ہیں۔ رنگوں اور نعروں سے ہمیں کوئی سروکار نہیں‘ یہ ضرور ہے کہ ہم خلائی نظریوں کی اسیری میں رہنا نہیں چاہتے۔
گوادر میں ایک مذہبی‘ سیاسی جماعت کے بلوچ مولانا نے کیا خوب رنگ جمایا۔ یہ ہے مقامی شہری سیاست‘ جس کے لیے میں پُر امید رہتا ہوں۔ چند سال پہلے گوادر میں ایک دو دن قیام کا موقع ملا تو سلامتی اور حفاظت کا حلقہ کسی مقامی کی اعانت سے ایسے سلیقے سے اور ایسے وقت پہ توڑا کہ کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔ کچھ وقت گلیوں اور بازاروں میں گھومتا پھرتا رہا تو حیرانی ہوئی کہ نہ کوئی پکی سڑک‘ نہ کوئی راستہ‘ نہ پانی کا انتظام‘ بے ڈھنگے بازار اور ملک کے بڑے شہروں میں دبئی کی عمارتوں کی تصویریں بڑی عمارتوں پر آویزاں کر کے گوادر کی زمینوں کا کاروبار زوروں پہ۔ سب مطالبات درست تھے اور آخر کار حکومت کو حرکت میں آنا ہی پڑا۔ اب وہی جماعت کراچی میں سندھ کی خاندانی جماعت اور حکومت کے خلاف دھرنا دیئے ہوئے ہے کہ مقامی حکومتوں کا قانون شہروں کو اقتدار اور نمائندگی سے محروم رکھے گا۔ سیاست اور نظریات اپنی جگہ مگر یہ شہر اور یہ محلے تو ہمارے مشترکہ مسکن ہیں۔ ہم ان کو ”خاندانیوں‘‘ کے سپرد کیوں کریں؟ آج نہیں تو کل اس کا ادراک بڑھے گا۔ عجیب بات ہے کہ ہم روز ضلعی سطح پر انتظامی مشینری کی غفلت‘ نااہلی اور رشوت ستانی کا رونا روتے رہتے ہیں‘ لیکن چند سو شہریوں کو ان کے خلاف متحرک کر کے وہاں سے رخصت کرنے کی سعی نہیں کر سکتے۔
بات چلی تھی خاندانی سیاست‘ گدی نشینی اور چند سو خاندانوں کے انتخابی سیاست پر غلبے کی۔ جس طرف یہ گروہی صورت میں چلتے ہیں‘ اقتدار کے ترازو کا پلڑا بھاری سا ہو جاتا ہے۔ کوئی نئی بات تو نہیں کہ پارلیمانی نظام میں‘ جس کے ساتھ اکثریت ہو گی‘ وہی وزیر اعظم بنے گا۔ ہم نے نام ہی عہدے کا ایسا رکھا ہے کہ مغلِ اعظم کے وزن پر بالکل پورا اترتا ہے۔ اگر وہ اور ان سے پہلے والے اس درویش کا برا نہ مانیں اور اپنا قہر کسی اور کے لیے چھوڑ دیں تو عرض کروں گا کہ مغل بادشاہوں میں بھی وہ رعونت‘ نرگسیت اور رعایا کو لوٹنے کی روش نہیں تھی‘ جو ہمارے مغلِ اعظموں میں نظر آتی ہے۔ خٹک صاحب پریشان ہیں کہ ”بنایا‘‘ تو انہوں نے ہے‘ مگر وہ کسی کی سنتا نہیں‘ جو دل میں آتا ہے کر گزرتا ہے۔ مغلِ اعظم جو ہوا‘ معاف کرنا‘ وزیرِ اعظم۔ ہمارے خاندان بھی تو ہوا کا رخ دیکھتے ہیں‘ سیاسی ماحول کا جائزہ لیتے ہیں اور چڑھتے ہوئے سورج کی پوجا اگر نہیں‘ تو چڑھاوے لے کر اپنا نیا سیاسی راستہ بناتے ہیں۔ اگر کپتان مقبول نہ ہوتے اور عوام کا دھارا ان کے ساتھ نہ بہتا تو خٹک صاحب اور دیگر وہیں ٹکے رہنے تھے‘ جہاں وہ پہلے تھے۔ اشارہ تو اب بھی یہی مل رہا ہے کہ شاید کپتان کی کپتانی پر گرفت کمزور پڑ رہی ہے‘ اور موسمی پرندے نئی پروازوں کے لیے پر تولنا شروع کر دیں۔ ہم تو پھر وہی کہیں گے‘ جو شروع میں کہتے تھے کہ ”خاندانیوں‘‘ پہ بھروسہ نہ رکھو‘ اپنی تحریک میں سے ہی نئی قیادت سامنے لائو۔ مسئلہ یہ ہے کہ اقتدار سامنے ہو تو انتظار کس بات کا؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر