نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کس کس بات کا رونا رویا جائے ||حیدر جاوید سید

1979ء والی فنانس کمپنیوں کے متاثرین کو تو پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملی تھی ان کمپنیوں میں سے ایک کے مالک آغا مرتضیٰ پویا بھی تھے انہوں نے تو عقیدے کے نام پر کمپنی کا نام رکھا اور لوٹا پھر صحافت کے میدان میں انگریزی اخبار ’’دی مسلم‘‘ نکال کر اتر گئے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپوزیشن کا تو کام ہی حکومت کے لتے لینا ہے لیکن کیا حکومت کے ذمہ داران کو جوابی طور پر پرانے الزامات اچھالنے، طنز کرنے اور چور چور کا شور مچانے کی بجائے اعدادوشمار کے ساتھ اپنی کارکردگی نہیں بتانی چاہیے؟
اصولی طور پر حکومت کا کام یہی ہے کہ وہ بتائے کہ اس نے اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک کس کس شعبہ میں کیا اصلاحات کیں، کتنی بہتری آئی۔ اس بہتری کے ثمرات عوام تک پہنچے یا نہیں ؟۔
ہماری سیاست اور نظام کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ جھوٹ، پروپیگنڈے اور الزامات کی ’’ناو‘‘ وقت کے دریا میں بہاتے جاو اور سوال ہو تو سارا قصور پچھلے حکمرانوں کا نکال کر بری الذمہ ہوجاو۔ ساڑھے تین سال سے کیا یہاں ہمیشہ سے یہی ہورہا ہے۔ آج کل البتہ یہ کام عروج پر ہے۔
جس بات کو سمجھنے کی شعوری طور پر کوشش نہیں کی جارہی وہ یہ ہے کہ تقاریر، بیانوں اور الزامات کی دھول سے پیٹ بھرتے ہیں نہ موسموں کی سختیوں کا مقابلہ ہوپاتا ہے۔
اب ایک بار پھر ہمیں ’’سمجھایا‘‘ جارہا ہے کہ پاکستان خطے میں سب سے سستا ملک ہے۔ حضور ذرا کرنسی کا شرح تبادلہ بھی تو بتادیجئے۔ اچھا اگر سب سے سستا (خطے میں) پاکستان ہے تو پھر ابتری کیسی۔
ساعت بھر کے لئے رکئے، مخدوم خسرو بختیار کا دعویٰ تھا کہ 36لاکھ ٹن یوریا کھاد دسمبر تک دستیاب ہوگی۔ اس دعوے کا "بولورام” اس وقت ہوگیا جب چین سے یوریا کھاد منگوانے کی منظوری دی گئی۔
پھرارشاد ہوا، سندھ سے یوریا کھاد بلوچستان سمگل ہوتی ہے۔ دونوں باتیں سر آنکھوں پر، بس یہ بتادیجئے کہ یوریا کھاد کی افغانستان سمگلنگ کس نے روکنی تھی؟
کھاد ہی کیا وزیراعظم نے چند ہفتے قبل گندم، آٹا، گھی، کوکنگ آئل اور دیگر اشیائے ضرورت کی سمگلنگ پر تشویش ظاہر کی تھی اس پر کیا ہوا؟ وزیر خزانہ نے ہمیں بتایا تھا کہ ڈالر افغانستان سمگل ہورہا ہے۔ کتنے لوگوں کے خلاف کارروائی ہوئی؟

تمہید طویل ہوگئی عرض یہ کرنا مقصود تھا کہ سانحہ مری کے حوالے سے اپوزیشن رہنمائوں کی تقاریر اور مطالبات کے جواب میں آستینیں الٹ کر طنز و الزامات کے دریا بہانے کی ضرورت نہیں تھی بتایا جانا چاہیے تھا کہ صورتحال جمعہ کی شام خراب ہوئی اور امدادی کاموں کا خیال اتوار کو شور مچنے کے بعد کیوں آیا۔
وزیراعلیٰ پنجاب چلیں تحریک انصاف کی پارٹی میٹنگ میں ’’مصروف‘‘ تھے، یہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان ’’کدھر‘‘ تھے؟ راولپنڈی کی ضلعی ڈویژنل اور خود تحصیل مری کی انتظامیہ کہاں تھی۔
گزشتہ روز ایک معاصر اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیزن (سیاحتی) اور موسم کے حوالے سے پچھلے برس منعقد ہونے والے چار اجلاسوں میں سے ایک میں بھی وزیراعلیٰ پنجاب نے شرکت نہیں کی۔ ان کے دفتر کو اس کی وضاحت کرنی چاہیے۔
چلئے اصل موضوع پر بات کرتے ہیں، سانحہ مری پر گفتگو میں آئی ایم ایف کہاں سے آگیا یہ قصہ تو الگ ہے۔ شوکت ترین (وزیر خزانہ) نے بجٹ تقریر کے دوران قومی اسمبلی کے ایوان میں کہا ’’پچھلے برس آئی ایم ایف سے مذاکرات میں جو سخت شرائط تسلیم کی گئیں انہیں ماننے کی ضرورت نہیں تھی‘‘۔
پھر انہوں نے خود جو مذاکرات کئے اس میں مزید سخت شرائط پر سرِتسلیم خم ہی نہیں کیا بلکہ اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کا مطالبہ بھی مان لیا۔ اب کہتے ہیں اگر ضرورت ہوئی تو سادہ اکثریت سے قانون تبدیل کرلیں گے۔ حضور جب بورڈ آف گورنر کی تقرری کا حق آپ چھوڑ رہے ہیں تو کیسے یہ کرپائیں گے۔
حالت یہ ہے کہ گورنر سٹیٹ بینک فرماتے ہیں ’’ڈالر کی قیمت بڑھنے سے زرمبادلہ بھیجنے والے بیرون ملک پاکستانیوں کو فائدہ ہوا‘‘۔
شوکت یوسفزئی (خیبر پختونخوا کے وزیر) یاد آگئے فرماتے تھے ڈالر کی قیمت بڑھنے کا فائدہ تو ہمیں ہی ہوگا زیادہ پیسے ملیں گے۔ ایک اخبار نویس نے کہا وزیر صاحب جب قرضہ واپس کریں گے اس وقت بھی تو ڈالر کے موجود نرخوں کا حساب ہوگا۔ یوسفزئی ناراض ہوگئے۔
بالکل ایسے جیسے گورنر سٹیٹ بینک اگلے روز سینیٹ کی کمیٹی میں خودمختاری بل پر وضاحت کرتے ہوئے ناراض ہوگئے تھے۔ حیرانی ہے کہ کسی نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ بینک دولت آف پاکستان نے کرپٹو کرنسی دھندے کا نوٹس لینے کی زحمت کیوں نہیں کی۔ پوچھنا چاہیے تھا کیونکہ ہمارے سامنے دو مقامی اور ایک عالمی مثال پہلے موجود تھی۔
اولین مثال جنرل ضیاء الحق کے دور میں (1979ء میں) فنانس کمپنیاں بنیں لوگوں کے اربوں روپے ڈکار گئیں یہ کمپنیاں، لگ بھگ 100ارب روپے ہضم کر گئیں ،1985 کے بعد پھر دوبارہ کوآپریٹو فنانس کمپنیاں بنیں 500ارب ڈوب گئے۔ یہ دوسرا دور وہی سنہری دور تھا جب نوازشریف کے خاندان پر ایک کوآپریٹو فنانس کمپنی سے قرضے لینے کی بات ہوئی انہوں نے اتفاق گروپ کے ملازم رہ چکنے والے ایک جج صاحب پر مشتمل کمیشن بناکر کلین چٹ لے لی۔ (تفصیل پھر سہی)
پھر تیسری واردات بین الاقوامی منڈی میں پٹرولیم کمپنیوں میں سرمایہ کاری کے نام پر ہوئی۔ یہ سرمایہ کاری اور منافع بالکل معروف زمانہ ’’ڈبل شاہ‘‘ کے پاس کی جانے والی انویسٹمنٹ جیسا تھا اول اول لوگوں کو خطیر منافع ملا پھر اربوں روپے ڈوب گئے۔ ایک اندازے کے مطابق لوگوں کے 30سے 40ارب ڈوبے۔
بینک دولت پاکستان نے تیسری بار اس وقت نوٹس لیا جب فراڈیئے لوگوں کو نچوڑ چکے تھے۔ کیا جب فنانس کمپنیوں اور کوآپریٹو فنانس کارپوریشنوں نے متوازی بینک کاری شروع کردی تھی سٹیٹ بینک کو فوراً نوٹس نہیں لینا چاہیے تھا؟
ایف آئی اے اور دوسرے ادارے کیوں لمبی تان کر سوئے رہے؟ کوآپریٹو فنانس کارپرویشنوں کے فراڈ کا شکار ہونے والے عام آدمی کو کیا ملا؟
بڑے خاندانوں نے ایک لاکھ کا یونٹ 20سے 25ہزار میں خرید کر اپنے قرضے اتارنے کا احسان کیا، ڈوبا تو عام آدمی۔
یہی عام سرمایہ کار کاغذی پٹرولیم کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرکے ڈوبا۔
1979ء والی فنانس کمپنیوں کے متاثرین کو تو پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملی تھی ان کمپنیوں میں سے ایک کے مالک آغا مرتضیٰ پویا بھی تھے انہوں نے تو عقیدے کے نام پر کمپنی کا نام رکھا اور لوٹا پھر صحافت کے میدان میں انگریزی اخبار ’’دی مسلم‘‘ نکال کر اتر گئے۔
کرپٹو کرنسی کے دھندے کے آغاز پر ہی سٹیٹ بینک کا فرض تھا کہ اس جعلسازی کا راستہ روکتا۔ تخمینہ یہ ہے کہ تقریباً 25ارب روپے ڈوبے ہیں۔
اس پر دو آراء نہیں کہ اگر لالچی لوگ نہ ہوں تو فراڈیئے بھوک سے مرجائیں۔ راتوں رات سوفیصد منافع کے لالچ سے مروایا لوگوں کو لیکن فنانس کمپنیوں کے دوسرے دور، پٹرولیم کمپنیوں میں سرمایہ کاری اور کرپٹو کرنسی کے دھندے ان تینوں میں لوگوں نے زیادہ منافع کے لالچ میں سرمایہ کاری کی، درست ہے مگر ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قومی بچت کی سکیموں میں سرمایہ کاری کا منافع عالمی شرح کے مقابلہ میں کم کرنے کی پالیسی نے لوگوں کو برباد کروایا۔
اگر قومی بچت کی سکیموں کے منافع کی شرح عالمی معیار کے مطابق رہتی تو سوفیصد نہیں تو پچاس فیصد لوگ فراڈ سے بچ سکتے تھے۔
معذرت خواہ ہوں اصل موضوع سے بات دوسری طرف نکل گئی لیکن یہ بھی ضروری تھا۔
اب چلتے چلتے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تازہ انتباہ کی بابت بات کرلیتے ہیں بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں اعلیٰ تعلیم کے 96فیصد ادارے غیرقانونی ہیں۔ سادہ سا سوال ہے وہ یہ کہ یہ تعلیمی ادارے جب قائم ہوئے تو ہائر ایجوکیشن کمیشن نے فوری طور پر کارروائی کیوں نہ کی؟
حرفِ آخر یہ ہے کہ یوریا کھاد کی بوری 1800کے مقررہ نرخ کی بجائے 3ہزار روپے میں بلیک میں فروخت ہورہی ہے، وزراء کے سارے دعوے ہوا ہوئے۔ گندم کا بحران قسمت میں لکھا ہے، گندم بحران نااہلی سے رونما ہوگا اور بھگتیں گے اسے عوام ہی۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author