اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آزادی کے چراغ||ظہور دھریجہ

یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں خانقاہی نظام سے وابستہ لوگ آزادی کی تحریکوں میں کنارہ کشی اختیار کرتے رہے مگر چند درگاہیں ایسی ہیں جنہوں نے ہندوستان کو انگریز سامراج کی غلامی سے آزاد کرانے کیلئے بھرپور کردار ادا کیا ، ان میں بھرچونڈی شریف کا نام نمایاں ہے ۔

آزادی کے حوالے سے بات کرنے سے پہلے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آزادی کی برکات سے اہل وطن صحیح معنوں میں مستفید نہیں ہوسکے۔آج بھی بدانتظامی اتنی ہے کہ آئے روز کوئی نہ کوئی حادثہ ہوجاتا ہے، سیاستدانوں کو لڑائیوں سے کوئی فرصت نہیں، قوم کی بہتری کے اقدامات سے زیادہ وہ حکومت میں ہوتے ہوئے بھی اپوزیشن کے لئے اپوزیشن بنے ہوئے ہیں ، اس طرح کب تک ہوگا ، کب اصلاح اور بہتری کے بارے میں سوچا جائے گا؟ سانحہ مری نے پوری قوم کو ہلاکررکھ دیا ہے ہر شخص مغموم ہے ۔ انتظامیہ کی بدانتظامی کے ساتھ ساتھ شہریوں کی لاپرواہیسانحہ کا سبب بنی ہے۔
دوسری طرف ہوٹل مالکان پھنسے ہوئے سیاحوں سے بیس سے پچاس ہزار روپے تک کمرے کا ایک رات کا کرایہ مانگتے رہے۔ یہ سب کچھ انتظامیہ کے علم میں ہے ، لوگ بڑی تعداد میں وہاں پہنچے تو ان کو روکنا کس کی ذمہ داری تھی، ٹول پلازے موجود ہیں، سب کچھ انتظامیہ کے علم میں تھا، محکمہ موسمیات کی جانب سے بھی شدید برف باری کی پیشین گوئی کی گئی تھی مگر اس کے باوجود انتظامیہ کی لاعلمی سمجھ سے بالاتر ہے۔
حکومت اپنی ذمہ داری محسوس کرے اور اصلاح کی طرف توجہ دے۔ آزادی کے حوالے سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وطن عزیز میں آج ہم آزادی سے سانس لے رہے ہیں۔ یہ آزادی کسی نے پلیٹ میں رکھ کر نہیں دی بلکہ آزادی کیلئے ہمارے اکابرین نے بے پناہ جدوجہد کی ‘ جلاوطنی اور قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور انگریز اقتدار سے نجات کیلئے انہیں لہو کے دریا عبور کرنے پڑے لہٰذا یہ سوچ یا نظریہ غلط ہے کہ کسی لیڈر یا شخص کو گرفتار کرائے بغیر ملک آزاد کرا لیا گیا ۔تحریک آزادی میں جہاں بہت سے دیگر علاقوں کا نام ہے ،وہاں خانقاہ بھرچونڈی شریف ڈہرکی سندھ کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔
یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں خانقاہی نظام سے وابستہ لوگ آزادی کی تحریکوں میں کنارہ کشی اختیار کرتے رہے مگر چند درگاہیں ایسی ہیں جنہوں نے ہندوستان کو انگریز سامراج کی غلامی سے آزاد کرانے کیلئے بھرپور کردار ادا کیا ، ان میں بھرچونڈی شریف کا نام نمایاں ہے ۔
انہی اوصاف سے متاثر ہو کر عالمی شہرت یافتہ عظیم حریت پسند مولانا عبید اللہ سندھی ؒ اسی درگاہ سے وابستہ ہوئے ، اسی طرح دین پور شریف ( خانپور ) کے حضرت خلیفہ میاں غلام محمد دین پوری کی وابستگی بھی اسی درگاہ سے ہوئی ، یہ پیر آف بھرچونڈی شریف حضرت حافظ محمد صدیق ؒ کی تربیت کا اثر تھا کہ یہ علاقے تحریک آزادی کا مرکز بن گئے اور یہیں سے ریشمی رومال تحریک شروع ہوئی اور یہ علاقے آزادی کے حوالے سے عالمگیر حیثیت اختیار کر گئے ۔
درگاہ بھرچونڈی شریف سے وابستہ مولانا عبید اللہ سندھی سیالکوٹ کے ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے ‘ مادری زبان پنجابی تھی قریبی رشتے دار جام پور ضلع دیرہ غازی خان میں رہتے تھے ‘ ابھی عمر چند سال ہی تھی کہ والدہ کے ساتھ جام پور آئے یہاں کا ماحول انہیں بھا گیا‘ کچھ عرصہ بعد سکھ مذہب سے بغاوت کر کے مسلمان ہو گئے اورآپ کا نام عبید اللہ رکھا گیاآپ سرائیکی وسیب سے سندھ گئے اور وہاں بھر چونڈھی شریف میں حضرت خلیفہ محمد صدیق صاحب کے مرید ہوئے پیر صاحب نے فرمایا عبید اللہ آج سے میرا بیٹا ہے آپ حضرت صاحب کی بات سے اتنے متاثر ہوئے کہ اپنے نام کے ساتھ ’’سندھی ‘‘ لکھ لیا جو آج تک ان کے نام کا حصہ ہے ۔
مولانا عبید اللہ سندھی کی بھرچونڈی شریف سے وابستگی نے کائنات ہی بدل ڈالی ۔انہوں نے پوری زندگی انگریز ا استعمار‘تعصب اور تنگ نظری کے خلاف جدوجہد کی ‘ تحریک آزادی کیلئے انہوں نے مشہور زمانہ ’’ریشمی رومال تحریک‘‘ شروع کی اور پورے ہندوستان میں انگریز کے خلاف نفرت جال بچھا دیا۔ قبلہ حافظ محمد صدیق ؒ نے جہاں آزادی کی تحریکوں میں حصہ لیا ، وہاں وہ انسان دوست بھی تھے اور بھگتی تحریک میں بھی آپ کا کردار نمایاں ہے ۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ عظیم سرائیکی اسکالر میر حسان الحیدری کی سرپرستی میں خانقاہ قادریہ بھرچونڈی شریف کی طرف سے تصنیف و تالیف کا کام بھی بھرپور طریقے سے ہو رہا ہے ، حافظ الملت اکیڈمی کی مطبوعات میں رسالۂ سلوک اردو ترجمہ مع تفہیم ،عباد الرحمن، نفحات الرحمن، غوث الوریٰ ، ارشاد الحق، معارف حافظ الملت مجموعہ مقالات ، سید حسن شاہ جیلانی ( احوال و آثار ) ، ملفوظات مالکان (سندھی ) ، رسالو سلوک جو ( سندھی ) ، جامِ عرفان ، میلاد کی مقدس محفلیں ، پیر عبدالرحیم شہید ( سوانح ) ، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ، خطبات صدارت ( پیر عبدالرحمنؒ، پیر عبدالحلیم ؒ )، حضرت حافظ الملت ؒ اور آپ کے سجادگان شامل ہیں ۔ یہ تمام کتابیں نہایت اہمیت کی حامل ہیں ، خصوصاً مجھے اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کے حوالے سے کتاب کا نام بہت اچھا لگا کہ ہمارا دشمن ملک ہندوستان اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے بہت پروپیگنڈہ کر رہا ہے ،
پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کا مکمل تحفظ ہونا چاہئے تاکہ ہندوستان سمیت دیگر ممالک جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ، کا تحفظ ہو سکے ۔ 13-14 جنوری 2022ء کو درگاہ عالیہ بھرچونڈی شریف ڈہرکی سندھ میں سالانہ حافظ الملت عالمی کانفرنس کا سجادہ نشین پیر عبدالخالق قادری کی سرپرستی میں منعقد ہورہی ہے ۔ علماء اور مشائخ کے علاوہ شاعر ، ادیب ، دانشور اور اہل قلم بھی دو روزہ تقریبات میں حصہ لیتے ہیں ۔
تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کے حوالے سے خانقاہ بھرچونڈی شریف کی بہت خدمات ہیں ۔پاکستان کی نئی نسل اور وسیب کے طالب علموں کیلئے مشاہیر کی کارناموں سے آگاہی ضروری ہے ۔ سندھ کے عظیم روحانی پیشوا حضرت سید العارفین جنید وقت حافظ محمد صدیق القادری 20 جنوری 1819ء کو حضرت میاں ملوک کے گھر پیدا ہوئے ۔ والد صاحب کا بچپن میں انتقال ہو گیا، ابتدائی تعلیم کے بعد آپ کی والدہ محترمہ نے ریاست بہاولپور کے مدرسہ ماڑی جندوں احمد پور شرقیہ سے آپ نے تحصیل علم کے بعد اپنے شیخ خلیفہ سید محمد حسن شاہ جیلانی بانی خانقاہ سوئی شریف سے روحانی تعلیم حاصل کی ،
بچپن سے آپ کا مزاج حریت پسندی کی طرف مائل تھا اور جہاد پتن منارہ کے موقع پر سپہ سالار کی حیثیت سے آپ نے خدمات سر انجام دیں اور بھرچونڈی شریف کو روحانی مرکزکیساتھ ساتھ آزادی کا مرکز بھی بنا دیا ۔ اس خانقاہ کا ایک حوالہ یہ بھی ہے کہ انگریز سامراج نے جب سندھ کو بمبئے کے ساتھ شامل کیا تو بھرچونڈی شریف سے اس فیصلے کے خلاف بھرپور مزاحمت ہوئی ۔

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: