نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

برفباری مری کے پہاڑوں پر یا ہمارے احساسات پر||جویریہ اسلم

پہاڑی علاقوں میں جاتے ہوئے گاڑی کا فیول ٹینک فل رکھنا، اضافی ٹائر ہمراہ رکھنا، ٹائر پنکچر ہونے کی صورت میں تبدیلی کے لیے درکار اوزار اور ہوا بھرنے کے لیے گاڑی کی بیٹری سے چلنے والے چھوٹے پمپ کی موجودگی بھی مفید ہے۔
جویریہ اسلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی وادیوں اور پہاڑوں نے برف کی سفید چادر اوڑھی تو کوئی چھٹیوں سے محظوظ ہونے کے لیے سفر پر نکلا اور کسی نے سوشل ٹائم لائنز پر برفباری کی تصاویر دیکھ کر ان علاقوں کا رخ کیا۔ تو کسی کے لئے یہ تفریح کا وہ واحد ذریعہ تھا جو کم خرچ بالا نشیں ہونے کی وجہ سے رسائی میں تھا۔

ہر سال ایک بڑی تعداد میں لوگ برفباری دیکھنے مری کا رخ کرتے ہیں مگر 2022 کی یہ برفباری ایک قومی سانحے میں اس وقت تبدیل ہو گئی جب مسلسل برفباری کی وجہ سے مری میں ٹریفک جام ہو گیا اور لوگ مبینہ بیس گھنٹے گزر جانے کے باوجود اپنی گاڑیوں میں بند رہے مگر نہ ہی راستہ ملا اور نہ ہی کوئی علاقائی یا ریاستی مدد۔ عینی شاہدین کے مطابق بدقسمتی سے گاڑیوں کے اگزاسٹ بند ہونے کی وجہ سے ان میں کاربن مونو آکسائیڈ بھر گئی جو کہ گاڑی میں موجود لوگوں کو ابدی نیند سلا گئی۔

پورے پورے خاندان موت کی وادی میں اتر گئے۔ دل خراش مناظر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئے اور نئے سال نے اس بد قسمت قوم کو ایک نئے دکھ سے روشناس کرایا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ حادثات دنیا میں ہر جگہ ہوتے ہیں مگر ان حادثات پر ریاست یا حکومت کا جو رویہ ہمارے ہاں اپنایا جاتا ہے وہ شاید ہی کہیں اور ہو۔ ہمارے حکمرانوں کی بے حسی اور منصوبہ بندی میں عدم دلچسپی مجرمانہ حد تک بڑھ چکی ہے۔

فواد چوہدری کہتے ہیں : ”مری میں ایک لاکھ کے قریب گاڑیاں داخل ہو چکی ہیں ہوٹلوں اور اقامت گاہوں کے کرائے کئی گنا اوپر چلے گئے ہیں سیاحت میں یہ اضافہ عام آدمی کی خوشحالی اور آمدنی میں اضافے کو ظاہر کرتا ہے اس سال سو بڑی کمپنیوں نے 929 ارب روپے منافع کمایا تمام بڑے میڈیا گروپس 33 سے چالیس فیصد منافع میں ہیں۔“

شیخ رشید کہتے ہیں کہ جو کچھ مری میں ہوا اللہ کی مرضی۔ کیا کیا جاسکتا ہے؟

ہر جانی و مالی نقصان کو اللہ کی مرضی کہہ کر قسمت کے کھاتے میں ڈال کر خود کو خود ہی بری الذمہ قرار دے دینا ہمارا عام سماجی رویہ بن چکا ہے اور ہم اس کے عادی بھی ہو چکے ہیں۔ ہمیں بڑا سے بڑا حادثہ بھی زیادہ دیر پریشان نہیں رکھتا اور اس کا ثبوت ہماری منصوبہ بندی میں عدم دلچسپی ہے۔ ذرا اوپر دیے گئے فواد چوہدری صاحب کے بیان پر غور تو کیجیے کہ مری میں گنجائش سے زیادہ گاڑیاں داخل ہونے پر بجائے تشویش کے پھولے نہیں سما رہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں کہ اس قدر غیر ذمہ دار رویے کی گنجائش نا اہلی کے عملی نمونوں کی شکل میں سامنے آتی ہے جیسا کہ ہم سب مری واقعہ میں دیکھ چکے ہیں۔

اسی کے ساتھ ساتھ ہم بطور شہری اپنی ذمہ داریوں سے اکثر چشم پوشی کرتے ہیں۔ ہم حکومت اور بلدیہ کی وارننگز کو بھی نظر انداز کرتے ہیں۔ قانون توڑنے کو کھیل سمجھتے ہیں اور جان پر کھیل جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معاملہ کوئی بھی ہو ڈنڈے کے بغیر ہم اس بات کو بھی نہیں مانتے جو ہمارے ہی لئے مفید ہو۔ عمومی آگاہی کا فقدان ضرور ہے مگر ہمارے اپنے رویے بھی کوئی اتنے حوصلہ افزا نہیں۔

سفر پر نکلتے ہوئے چند احتیاطی تدابیر اور حکومت کی وارننگ کو مد نظر رکھنے میں ہمارا ہی فائدہ ہوتا ہے۔ سفر پر جانے سے پہلے یقینی بنایا جائے کہ گاڑی کے ٹائر درست حالت میں ہوں، برفباری والے علاقوں میں پہنچ کر ٹائروں میں ہوا کا دباؤ معمول سے کم رکھا جائے۔ گرم کپڑے اور ٹائروں پر چڑھانے کے لیے چین ساتھ رکھی جائے۔ ڈرائیونگ کے دوران گاڑی چھوٹے گیروں میں چلائی جائے اور اگر آپ کی گاڑی سلپ ہو تو بریک کا استعمال نہ کیا جائے۔ بالائی علاقوں میں بعض اوقات لینڈ سلائیڈنگ یا ٹریفک جام کی وجہ سے بہت زیادہ وقت گاڑی میں گزارنے کی نوبت بھی آ سکتی ہے، ایسے کیفیت میں پریشانی سے بچنے کے لیے بہتر ہے کہ گرم لباس کے علاوہ کمبل یا گرم چادریں بھی ہمراہ رکھی جائیں۔

پہاڑی علاقوں میں جاتے ہوئے گاڑی کا فیول ٹینک فل رکھنا، اضافی ٹائر ہمراہ رکھنا، ٹائر پنکچر ہونے کی صورت میں تبدیلی کے لیے درکار اوزار اور ہوا بھرنے کے لیے گاڑی کی بیٹری سے چلنے والے چھوٹے پمپ کی موجودگی بھی مفید ہے۔

جس علاقے میں جا رہے ہوں گوگل میپ یا ٹریفک پولیس کے متعلقہ چینلز پر وہاں کی ٹریفک کی صورتحال، راستوں کے کھلے اور بند ہونے کی کیفیت سے آگاہی حاصل کر لی جائے۔ گاڑی کو اس وقت زیادہ دیر کے لئے مکمل بند کرنے سے گریز کریں جبکہ آپ گاڑی میں موجود ہیں کیونکہ آکسیجن کی کمی آپ کے لئے جان لیوا ہو سکتی ہے۔

مری ایک تفریحی مقام ہے، اس کے لیے یہ کہہ دینا کہ لوگ گئے ہی کیوں؟ ایک انتہائی مضحکہ خیز بات ہے جو کہ ظاہر کرتی ہے کہ اس قوم کا کوئی والی وارث نہیں۔ کیوں مری میں داخلے اور وہاں سیاحوں کی رہائش کی باقاعدہ رجسٹریشن نہیں کی جاتی اور ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کے لئے مناسب انتظام اور انفراسٹرکچر نہیں ہوتا؟

ہمارے بجٹ میں ڈزاسٹر مینجمنٹ
(Disaster Management)

کے لئے ایک مخصوص بجٹ ہے۔ اس کا باقاعدہ آڈٹ اور تحقیقات سے معلوم ہو گا کہ اس حادثے میں اصل قصوروار کون تھا اور ہم نے اس حادثے سے کیا سیکھا اور آنے والے وقت میں ہم اس قسم کے حادثات سے بچنے کے لئے کیا اقدامات کریں گے۔ مری میں برف پڑتی ہی رہتی ہے، ہماری عقل اور حکمرانوں کے رویوں پر نہیں پڑنی چاہیے۔

_

یہ بھی پڑھیے:

جویریہ اسلم  کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author