حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو روز قبل ان کی علالت کی خبر موصول ہوئی، آج صبح ان کے سانحہ ارتحال کی اطلاع برادرم غضنفر عباس نے دی۔ دماغ سُن ہوکر رہ گیا۔
کوئی دن گزرتاہوگا جب سرائیکی وسیب کے مقدمہ کے حوالے سے ان کی مختصر یا طویل تحریر واٹس ایپ کے ذ ریعے موصول نہ ہوتی ہو۔
پچھلے چند برسوں سے انہوں نے سرائیکی لکھنے پڑھنے کو اظہار کا ذریعہ بنارکھا تھا۔ کیا شاندار انسان تھے سردار اکبر خان ملکانی۔
ان سے احترام بھرے تعلق کے ماہ و سال کی یادیں دستک دے رہی ہیں۔ مجھے یاد پڑتاہے کہ اولین تعارف 1980ء کی دہائی کے آخری برسوں میں ہوا تھا تب میں لاہور سے شائع ہونے والے ہفت روزہ ’’رضاکار‘‘ میں بطور ایڈیٹر خدمات سرانجام دیتا تھا۔ ادارتی ذمہ داریوں کے حوالے سے ہی ڈیرہ غازی خان گیا تو میزبان دوست نے ان کے ڈیرے پر قیام و طعام کا بندوبست کیا۔
دو دن کے اس قیام میں ان سے خوب باتیں ہوئیں۔ وہ ایک پرجوش سیاسی کارکن تھے۔ پیپلزپارٹی ان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔
بعد کے برسوں میں ان سے کہیں نہ کہیں ملاقات ہوہی جاتی، کبھی ڈی جی خان میں، کبھی ملتان یا بہاولپور میں۔ ایک دن ان کا فون آیا بولے، شاہ جی میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب سرائیکی صوبہ کے قیام کے لئے کام کرناہے، دوستوں سے مشورہ کرچکا باقی کی زندگی سرائیکی قوم کے لئے۔
ہم دونوں مرحوم حمید اصغر شاہین کی سرائیکستان قومی موومنٹ میں ساتھ رہے وہ پارٹی کے چیف آرگنائزر اور میں پہلے سینئر نائب صدر رہا بعد میں ملتان میں منعقد ہونے والے مجلس عاملہ کے اجلاس میں پارٹی نے قومی رہبری کمیٹی قائم کرکے اس کا چیئرمین بنادیا۔ ہمارے ظفر لالہ (ظفراقبال جتوئی) کے برادر خورد مجاہد جتوئی تب ایس کیو ایم کے سیکرٹری جنرل اور سیف اللہ بیقرار ڈپٹی سیکرٹری جنرل تھے۔
ایس کیو ایم میں گزرے ماہ و سال نے ذاتی تعلق کو مزید مضبوط بنایا۔ پھرایک مرحلہ پرہم خیال دوستوں کا گروپ ایس کیو ایم سے الگ ہوگیا۔ اختلافات کیوں پیدا ہوئے ایک لمبی کہانی ہے۔
دوست باہمی صلاح مشورے میں مصروف تھے کہ اب کیا کیا جائے اسی دوران سرداراکبر ملکانی سے سید فرہاد شاہ اور ساجدہ لنگاہ کا رابطہ ہوا۔ ان کا فون آیا کہ مرشد ملتان پہنچو ضروری بات کرنی ہے۔
ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا ہمارے پاس دو راستے ہیں ایک یہ کہ نئی جماعت بنالی جائے ثانیاً یہ کہ سرائیکی پارٹی کے دوست (تاج محمد لنگاہ سمیت) اس امر کے خواہش مند ہیں کہ سارے دوست مل کر کام کرتے ہیں۔ پھراچانک بولے لیکن دونوں سے بہترایک نیا راستہ ہے،۔
وہ کیا، میں نے دریافت کیا۔ اب انہوں نے سید فراہد شاہ اور ساجدہ لنگاہ سے ملاقات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا ان دونوں کی خواہش ہے کہ ایس کیو ایم سے الگ ہونے والے دوست ان کی نیشنل سرائیکی پارٹی میں شامل ہوجائیں۔ طے یہ ہوا کہ برادرم اجمل مسن، لالہ اقبال بلوچ، حسن معاویہ ایڈووکیٹ اور دوسرے دوستوں سے مشورہ کرکے فیصلہ کرلیا جائے۔
چند دن صلاح مشورے میں گزرے پھر نیشنل سرائیکی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی گئی۔ کچھ عرصہ بعد بعض مسائل یا حالات کی وجہ سے سید فرہاد شاہ الگ ہوگئے۔
ڈی جی خان میں اکبر ملکانی کی قیام گاہ پر منعقدہونے والے اجلاس میں ساجدہ لنگاہ چیئرپرسن۔ سردار اکبر ملکانی سیکرٹری جنرل جبکہ مجھے صدر منتخب کرلیا گیا۔ حسن معاویہ ایڈووکیٹ نائب صدراور لالہ اقبال بلوچ بہاولپور ڈویژن کے کنوینئر منتخب ہوئے۔
این ایس پی کے پلیٹ فارم سے اڑھائی تین برس تک خوب فعالیت رہی اس پر دو آراء نہیں کہ دوستوں کی محنت اور جدوجہد نے مختصر عرصہ میں این ایس پی کو قابل ذکر جماعت بنادیا تھا ،
سال 2015ء کے دسمبر میں مجھے ملتان سے لاہور منتقل ہونا پڑا وجہ وہی غم روزگار رہی۔ فرنٹیئر پوسٹ لاہور سے بطور ایڈیٹر منسلک ہوتے وقت میں نے پارٹی صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ سرداراکبر ملکانی اور دوسرے دوستوں کا اصرار تھا استعفیٰ نہ دیا جائے عرض کیا پیشہ ورانہ مجبوریاں اور ضرورتیں ہیں۔
لاہور آئے ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ اطلاع موصول ہوئی کہ اکبر ملکانی پارٹی سے الگ ہوگئے ہیں۔ ٹیلیفون پر رابطہ ہوا تو بولے مرشد ملاقات ہوگی تو تفصیل سے عرض کروں گا۔
پھرایک صبح خبر ملی کہ نیشنل سرائیکی پارٹی تحلیل کردی گئی ہے۔ چند دوستوں نے محترمہ ساجدہ لنگاہ کی قیادت میں استحکام پاکستان تحریک کے نام سے جماعت بنالی ہے۔
پارٹی کیوں تحلیل ہوئی، سرائیکی قومپرست استحکام پاکستان کے راستے پر کیسے گامزن ہوئے الگ داستان ہے۔ کچھ ہی عرصہ بعد سردار اکبرملکانی کا فون آیا بولے مرشد میں نے پاکستان عوامی سرائیکی پارٹی کے نام سے جماعت بنالی ہے۔ عرض کیا اس سے بہتر ہوتا اگر آپ دیگر دوستوں کے ساتھ سرائیکی پارٹی میں شامل ہوجاتے۔
این ایس پی کو راتوں رات تحلیل کئے جانے کے بعد دوستوں نے جب بھی مشورہ مانگا یہی عرض کیا قوم پرستی کی سیاست کرنی ہے تو سرائیکی پارٹی یا سرائیکی ڈیموکریٹک پارٹی (ایس ڈی پی) میں شامل ہوجائیں۔ کسی دوسری جماعت میں جانا ہے تو میرا مشورہ پیپلزپارٹی میں شمولیت کے لئے ہوگا۔
سرداراکبر ملکانی اپنی قائم کردہ پاکستان عوامی سرائیکی پارٹی کے پلیٹ فارم سے سرگرم عمل ہوگئے۔
ان سے آخری ملاقات ہمارے مشترکہ و محبوب دوست صوفی تاج محمد خان گوپانگ کے سانحہ ارتحال کے بعد منعقد ہونے والے تعزیتی ریفرنس میں فاضل پور میں ہوئی تھی۔
انہوں نے ہمیشہ کی طرح شکایات کا دفتر کھول دیا۔ مرشد ملتان سے واپس لوٹ جاتے ہو ملاقات نہیں کرتے۔ سال 2020ء میں جب کارکن صحافی دوستوں نے ملتان سے کارکن صحافیوں کا اخبار روزنامہ ’’بدلتا زمانہ‘‘ نکالنے کا عزم کیا تو ان دوستوں کے حکم پر پانچ چھ ماہ کے لئے ملتان قیام کرنا پڑا۔
اسی عرصہ میں ان سے دو تین ملاقاتیں ہوئیں ان میں ہی وہ آخری ملاقات بھی شامل ہے جس کا بالائی سطور میں ذکر کیا۔
ایک وٗضعدار دوست کی حیثیت سے وہ ہر چوتھے پانچویں روز ٹیلیفون کرتے، خیرخیریت دریافت کرتے اور حال دل سناتے۔
ہمیشہ اپنی بات کا اختتام کرتے ہوئے یہ ضرور کہتے، مرشد ملتان آوو ساڈے کول وی لنگ آوو ڈیرے دی سادی سنگت مونجھی ہے‘‘۔
میں ہمیشہ جلد آنے کا وعدہ کرتا لیکن افسوس کہ وعدہ ایفا نہ ہوسکا۔
گاہے گاہے ان کی علالت اور صحت یابی کی خبروں کے ساتھ ٹیلیفون پر رابطہ ہوتا۔ ان کے پیغامات اور تحریریں واٹس ایپ کے ذریعے موصول ہوجاتیں اور اب اکبر خان ملکانی رخصت ہوئے۔
سرائیکی قومی جدوجہد کا ایک روشن باب بند ہوگیا۔ ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے انہوں نے بھرپور جدوجہد کی پھر قوم پرست سیاست کے میدان میں اترے تو استقامت کے ساتھ اپنے حصہ کا کردار بساط سے بڑھ کر ادا کیا۔
اس جدوجہد میں انہوں نے کئی بار ریاستی تشدد کا بہادری کے ساتھ سامنا کیا۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اپنے بچوں اور بھانجوں بھتیجوں ا ور دوستوں کی دنیاوی ترقی پر یوں خوش ہوتے جیسے یہ ترقی خود انہوں نے کی ہو۔
یار باش شخص تھے ان کے ڈیرے پر ہر وقت دوست جمع رہتے۔
14اگست کو یوم مقبوضہ سرائیکی وسیب منانے کا سلسلہ انہوں نے ہی شروع کیا تھا۔ ہر سال وہ اس حوالے سے ایک بڑا اجتماع منعقد کرتے۔
وسیب اور وسیب سے باہر کسی سرائیکی کے ساتھ کوئی انہونی ہوتی تو سب سے پہلے ان کی آواز بلند ہوتی۔ ایک بھرپور زندگی گزار کر وہ خاندان اور دوستوں کے درمیان سے اٹھ کر رخصت ہوگئے۔
حق تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ انہوں نے سرائیکی وسیب کی قومی شناخت اور صوبے کے قیام کی جدوجہد میں اپنے حصے کا فرض خوب ادا کیا اور ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر