نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیل کہانیوں کا ’’دی اینڈ‘‘||حیدر جاوید سید

"ان کی میاں نوازشریف سے ٹیلیفون پر بات ہوئی ہے ہمارے درمیان اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ اسمبلیوں کے اندرز رہ کر حکومت کو ٹف ٹائم دیا جائے فی الوقت استعفوں کی باتیں غیرضروری ہیں”۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلے برس پی ڈی ایم کے اعلان کردہ لانگ مارچ سے قبل منعقد ہونے والے سربراہی اجلاس میں اس وقت اختلافات پیدا ہوگئے جب ایک خاص میڈیا ہائوس اور درجنوں یو ٹیوبرز کے باندھے ہوئے استعفوں کے سماں کے برعکس پیپلزپارٹی نے سوال اٹھایا کہ یہ کب طے ہوا تھا کہ لانگ مارچ سے قبل اسمبلیوں سے استعفے دیئے جائیں گے نیز یہ کہ (ن) لیگ کا حامی میڈیا دو ہفتوں سے رائے عامہ کو کس کے کہنے پر بتارہاہے کہ لانگ مارچ کے لئے منعقدہ سربزاہی اجلاس میں اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا جائے گا؟
اس سوال کا تسلی بخش جواب دینے کی بجائے پیپلزپارٹی کی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کا شور مچادیا گیا۔ چند ماہ تک پی ڈی ایم کی دو جماعتوں (ن) لیگ اور جے یو آئی نے اپنا غصہ خوب نکالا۔ سول سپرمیسی کے حامی اینکروں، کالم نگاروں اور یوٹیوبرز نے پیپلزپارٹی کے خلاف محاذ کھول لئے۔
پانی پت کی یہ لڑائی جاری تھی کہ خبریں آنے لگیں کہ ریاست کے بااختیار نمائندے لندن پہنچے اور میاں نوازشریف سے ملاقات کی۔ ’’چند باخبر‘‘ یوٹیربرز نے تو نمائندوں کے نام بھی بتائے۔ مذاکرات کے کتنے ادوار ہوئے، میاں صاحب کی شرائط بھی سامنے آئیں۔
ان میں اہم ترین شرط یہ تھی کہ 2018ء کے انتخابات کو چرانے والے عوام سے معافی مانگیں اور عہدوں سے مستعفی ہوں تب میاں صاحب درخواستِ واپسی قبول کریں گے۔
سیدی طلعت حسین سے نجم سیٹھی تک سارے اہم یوٹیوبرز اور ’’اہل دانش‘‘ نے ماحول بنادیا اسی دوران دو اہم باتیں ہوئیں، (ن) لیگ کے ایک رکن قومی اسمبلی جاوید لطیف نے دعویٰ کیا کہ سارے مقدمات ختم ہوں گے، میاں صاحب اپنی شرائط پر واپس آکر ملک کو سنبھالیں گے۔
سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق بولے میں جنوری میں لندن جارہا ہوں انشاء اللہ میاں صاحب کو لے کر واپس آئوں گا۔
یہاں تک ہوا کہ کہا جانے لگا معاملات طے پاگئے ہیں ملاقاتوں اور مذاکرات کے ادوار نتیجہ خیز ثابت ہوئے میاں نوازشریف جنوری میں وطن واپس آرہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ’’ڈیل‘‘ یعنی ملاقاتوں اور مذاکرات کی خبریں جوش و جذبہ سے وہی دے رہے تھے جنہوں نے پچھلے برس پیپلزپارٹی کے اس موقف پر کہ "اسمبلیوں سے استعفیٰ مناسب وقت پر دیاجائے” کو ڈیل کا نام دے کر اسے ولن بناکر پیش کیا۔
کہا گیا کہ اگر پیپلزپارٹی اپنا سودا نہ کرتی تو انقلاب آچکا ہوتا۔ اس طاقتور میڈیا منیجری نے ان ملاقاتوں کی پردہ پوشی میں بھی کردار ادا کیا جو اسی عرصہ کے دوران میاں شہباز شریف، زبیر عمر، شاہد خاقان عباسی وغیرہ نے بہت "شوق” کے ساتھ فرمائیں۔
تمہید طویل ہوگئی لیکن پچھلے برس کی یہ ساری باتیں اس لئے یاد آئیں کہ گزشتہ چند دنوں میں دو اہم باتیں ہوئیں پہلی بات ہمارے محب مکرم اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہی۔ انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ
"ان کی میاں نوازشریف سے ٹیلیفون پر بات ہوئی ہے ہمارے درمیان اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ اسمبلیوں کے اندرز رہ کر حکومت کو ٹف ٹائم دیا جائے فی الوقت استعفوں کی باتیں غیرضروری ہیں”۔
دوسری بات آئی ایس پی آر کے سربراہ نے گزشتہ روز کہی ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ
"میاں نوازشریف سے ڈیل کی باتیں قیاس آرائیاں ہیں ایسی بے بنیاد باتیں کرنے والوں سے کہیں کہ ڈیل کی تفصیلات سامنے لائیں”۔
اب یہ ہورہا ہے کہ مجبور ریاست کی سجدہ ریزی مذاکرات اور ڈیل کی کہانیاں سنانے والے کہہ رہے ہیں کہ ہم نے کب یہ کہا تھا ہم تو یہ کہہ رہے تھے کہ ہماری ڈیل عوام سے ہوئی ہے اور یہ کہ پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی ہم سے رابطوں میں ہیں۔

اب یہاں ایک سوال یہ ہے کہ اسمبلیوں کے اندر رہ کر حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرنے کی ہی تو بات پیپلزپارٹی نے بھی کی تھی تب تو ڈیل کی کالک اس کے چہرے پر ملنے کےلئے ہر کس و ناکس نے بساط کے مطابق جذبہ ایمانی سے حصہ لیا یہاں تک جہادی صحافی تو اخلاقیات کو تج ایسی باتیں کہہ لکھ گئے جو مناسب نہیں تھیں۔
خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلہ کے نتائج میں جے یو آئی بڑی پارٹی بن کر ابھری اس کے فوراً بعد مولانا فضل الرحمن بولے
’’وہ غیرجانبدار ہوگئے ہیں اس لئے ہمارا موقف درست ثابت ہوا کہ پچھلے عام انتخابات چرائے گئے تھے‘‘۔
مولانا جیسے جہاندیدہ سیاستدان نے دیگر بنیادی وجوہات کو نظرانداز کردیا جو پی ٹی آئی کی شکست کا سبب بنیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی میں یہ جرات نہیں ہوئی کہ وہ یہ سوال کرے کہ کیا ’’اُن‘‘ کی ہمدردیاں بھی تبدیل ہوگئی ہیں؟
جے یو آئی کی اس کامیابی کو بھی بعض ’’اہل صحافت‘‘ نے لندن والے مذاکرات اور ملاقاتوں سے جوڑ کر بیان کیا اور رنگ جمایا۔ بہرطور اصل سوال یہ ہے کہ جب پیپلزپارٹی حکومت کو گرانے کے لئے دستوری راستے اپنانے کے بعد عوام کے پاس جانے کے لئے کہہ رہی تھی تو مارکیٹ میں دستیاب ہر خرابی اور گالی اسے کیوں دلوائی گئی؟
کیا بہتر نہ ہوتا کہ اس وقت ٹھنڈے دل سے پی پی پی کی تجویز پر غور کرلیا جاتا۔
یہاں یہ عرض کردوں کہ اُن دنوں اِن سطور میں عرض کیا تھا کہ "لانگ مارچ سے قبل اسمبلیوں سے استعفے دینے والی بات ’’کہیں‘‘ سے ’’عطا‘‘ کی گئی ہے اور عطا کرنے والوں کا مقصد سندھ اسمبلی خالی کروانا ہے‘‘۔
سادہ اور صاف لفظوں میں یہ کہ کہیں کسی سطح پر یہ طے پاچکا تھا کہ پی ڈی ایم وہ راستہ اختیار کرے گا جس سے اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے کے لئے میدان ہموار ہو۔ خیر جو وقت گزرگیا سو گزرگیا۔
پی ڈی ایم کے سربراہ اب یہ کہہ رہے ہیں استعفوں کی بات قبل از وقت ہے ہم اسمبلیوں کے اندر رہ کر حکومت کو ٹف ٹائم دیں گے۔ اب پھر ایک سادہ سا سوال ہے وہ یہ کہ یہ نئی حکمت عملی کسی ’’ڈیل‘‘ کا حصہ ہے یا ڈیل نہ ہوسکنے کا نتیجہ؟
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں سکیورٹی سٹیٹ میں سیاست کے تقاضے جمہوری ریاستوں سے مختلف ہوتے ہیں البتہ یہ درست نہیں کہ اپنے رابطوں اور کوششوں کی پردہ پوشی کے لئے کسی ایک جماعت کو ولن بناکر پیش کیا جائے کہ اگر یہ دھوکہ نہ دیتی تو ہم ’’ایٹمی طاقت‘‘ کو فتح کرچکے ہوتے۔
دوسری بات یہ ہے کہ وہ سارے دانے بنیے جو ہمیں ریاستی نمائندوں کے عہدے اور ذات تک بتاکر یہ سمجھارہے تھے کہ میاں صاحب کی منتیں ترلے ہورہے ہیں وہ مان ہی نہیں رہے اب کیا کہیں گے۔
کیونکہ میاں صاحب کی واپسی نہیں ہورہی ہے اور پچھلے دو دنوں سے پھر وہی بات کہی جارہی ہے کہ میاں صاحب وطن واپس ضرور آئیں گے لیکن جب ڈاکٹر انہیں اجازت دیں گے۔
(ن) لیگ کے ایک رہنما عطا تارڑ کہہ رہے ہیں ہماری ڈیل تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی سے ہورہی ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہی ہے کہ پاکیٔ داماں کی حکایات بیان کرنے والے اگر کبھی دامن اور بند قبا پر نگاہ دوڑا لیں تو انہیں احساس ہوگا کہ ان حضرات نے اس انقلاب کی راہ کھوٹی کی ہے جو بقول ان کے تیار تھا بس پیپلزپارٹی نے ڈیل کرلی۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author