سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کل یوں تو زندگی کے ہر شعبے میں گھس بٹھیے آگئے ہیں شاید ہی کویئ شعبہ ایسا ہو جہاں کوئی گھس بٹھیا موجود نہ ہو۔ ان گھس بٹیھوں میں کواٹی موجودہے جس کا ہم سب کو اقرار کرنا چاہیے۔ گہ گھس بٹھیے خوشانمد کے چیمئپن ہیں اسی لئے تو آج ان کا دوراور جیت ہے۔ ان کے گھروں، گاڑیوں اور جائیداد پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو سب کچھ سمجھ آجائے گا کہ ان لوگوں کی ’’کامیابی‘‘ کی اصل وجہ کیا ہے اور وہ لوگ جنہوں نے زندگی بھر جان توڑ محنت کی اور رزق حلال کماتے میں مصروف رہے ان کے پاس تو دو وقت کی روٹی پوری کرنے کے لئے بھی بڑی مشکل سے ہوتے ہیں جبکہ ان محنت کشوں کو اپنے جائز کاموں کے لئے بھی دوسروں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ من حیث القوم اخلاقی گراوٹ کی انتہائی سطح پر پہنچ گئے ہیں کہ اب کسی کو کسی کی کوئی پروا نہیں اس نفسانفسی کے دور میں سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ملتان میں نئے ڈپٹی کمشنر عامر کریم تعینات ہوئے ہیں جو بڑی مستعدی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اور ملتان کی حالت زار بہتر بنانے کے لئے کوشاں ہیں انہوں نے جو چند اچھے کام آتے ہی کئے ہیں ان میں سرفہرست سرکاری ہسپتالوں میں ذاتی موبائل فون نمبرز کے پینافلیکس لگوائے ہیں تاکہ مشکل وقت میں عوام صاحب سے رابطہ کرسکیں۔ عامر کریم ایک پڑھے لکھے نوجوان ہیں اور ملتان سے ان کی وابستگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ایس پی چوک کا منصوبہ اس کامنہ بولتا ثبوت ہے۔ تاہم ایک بات جو مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ ملتان میں جو بھی صاحب تعینات ہوتے ہیں تو یہاں کی بیوروکریسی بالخصوص پی آر اوز صاحبان انہیں قلعے کا دورہ ہی کیونکر کرواتے ہیں کیا ملتان صرف قلعہ تک ہی محدود ہے۔ قلعہ کے آس پاس جو مسائل کا گڑھ ہے اگر کبھی صاحب بہادر کو ادھر کا بھی پی آر اوز صاحبان دورہ کروائیں تو انہیں ملتان کے اصل مسائل بارے علم ہوسکے گا۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ ان پی آر او صاحبان نے ملتان کو شعوری طور پر پسماندہ رکھنے کے لئے ان مافیاز سے منتھلیاں طے کررکھی ہیں اسی لئے تو آج تک جتنے بھی ڈی سی صاحبان تعینات ہوئے انہوں نے ملتان اور اس کے عوام سے جڑے ہوئے حقیقی مسائل کی طرف توجہ دینے کی کوشش ہی نہیں کسی اسی لئے تو آج میرا شہر ملتان لاوارث ہوکر رہ گیا ہے کہ کسی کو بھی اس کی حالت پر ترس نہیں آتا بلکہ اسی کو لاہور، کراچی اور اسلام آباد کے ہم پلہ نہ رکھنے کا تو جیسے ان مافیاز نے تہیہ کرلیا ہے۔ ظاہر ے کہ جو شخص اپنا سفر ایک ہوائی چپل سے شروع کرے اور آج ہوائی جہازوں میں گھومے اس کو کیا پڑی کہ وہ ملتان کی ترقی کی طرف ارباباختیار کی توجہ مرکوز کروائے۔ اگر ڈی سی کے منشی قلعہ کے ساتھ مچھلی منڈی، خونی برج کے ساتھ ساتھ معصوم شاہ روڈ کی بھی سیر اپنے بابوئوں کو کروائیں تو انہیں معلوم پڑے گا کہ کس طرح پائپ ڈالنے کے بہانے سے معصوم شاہ روڈ کو کئی برسوں سے ادھیڑ کر رکھ دیا گیا ہے۔ اسی طرح خانیوال روڈ جوسکولوں اور دفتری اوقات کے علاوہ بھی ٹریفک کا دبائو برداشت کرنے کے قابل نہیں رہا اسی لئے تو وہاں پر ٹریفک جام رہنا معمول بن چکا ہے۔ اسی طرح کھیلوں کے میدان جو ایک دور میں نئی نسل کے لئے تفریح کی بہترین جگہ ہوا کرتے تھے اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ ملتان کے سیوریج کے بوسیدہ نظام کا یہاں ذکر نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہوگا۔ ملتان کی بیوٹی فکیشن کی طرف توجہ دیئے جانے کا ارباب اختیار بار بار کہتے ہیں لیکن مجال ہے کہ کبھی کسی نے اس شہر سے جڑے اصل اور حقیقی مسائل کی طرف توجہ دینے کی بھی زحمت گوارہ کی ہو۔ ملتان بھی کراچی کی طرح پاکستان کا معاشی حب بن سکتا ہے اسی طرح یہاں پر ٹورازم کا اس قدر سکوپ ہے کہ اگر ارباب اختیار اس پر تھوڑی سی بھی توجہ دیں تو میرا شہر ملک کے ترقی یافتہ شہروں میں شمار ہوسکتا ہے لیکن ہمارے ہاں چونکہ بیوروکریسی شروع سے ہی بے لگام ہے، وزیراعظم عمران خان نے بیوروکریسی کوسیدھا کرنے کے لئے شروع میں کچھ کوشش کی تو پوری کی پوری بیوروکریسی ہڑتال پر چلی گئی اور یوں خان صاحب کو ہی ہتھیار ڈالنے پڑے۔
اگرچہ ملتان میں بڑے قابل ڈی سی آئے لیکن دوسری طرف یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ یہ صاحبان آتے ہی ایسے مافیاز کے نرغے میں آجاتے ہیں کہ جو انہیں صرف وہی دیکھاتے اور سناتے ہیں جس میں ان کا مفاد پوشیدہ ہو۔ اب اس کا ذمہ دار کون ہے ظاہر ہے کہ ڈی سی صاحبان کے پی آر اوز جو تنخواہیں تو سرکار سے لیتے ہیں مگر حلال وہ ان مافیاز کے لئے کرتے ہیں جو غالباً ان کو منتھلیاں پہنچاتے ہیں اور یوں وہ اپنی جیبیں تو تواتر کے ساتھ بھرتے ہی جارہے ہیں لیکن ملتان کو اجاڑتے ہی چلے جارہے ہیں۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ملتان کے حقیقی مسائل بارے ڈیٹا اکٹھا کیا جائے اور حکومت سے ان مسائل کے حل کے لئے فنڈز طلب کئے جائیں تو وہ یقیناً اس میں اضافہ کرے گی لیکن کسی کو چونکہ ملتان کی ترقی سے کوئی غرض نہیں ہے اسی لئے معاملات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ ملتان کی ترقی اور یہاں کے ورثے کی بحالی کے لئے جتنی بھی کمیٹیاں بنیں ان میں مخصوص ٹولوں کو ہی نوازا گیا۔ یہ گھس بٹھیے ہی ہیں جو ہر دعوت پر جانے کے لئے ہمیشہ ہی تیار رہتے ہیں۔ کوئی دعوت یا مذاکرہ ہو، کوئی محفل ہو ان گھس بٹھیوں کو ہی مدعو کیا جاتا ہے جو حکومت اور اس کی انتظامیہ کی شان میں ایسے قصیدے پڑھتے ہیں کہ سب واہ واہ کی ہی رپورٹ جاری کی جاتی ہے۔ ان لوگوں کے بارےمیں یہی کہا جاسکتاہے کہ ’’ویلی رن پرونیاں جوگی‘‘ ۔
آج اگر میں یہاں ملتان ٹی ہائوس کا ذکر کروں تو مجال ہے کہ یہاں کسی نے الیکشن کروانے کی طرف بھی توجہ دینے کی زحمت کی ہو۔ ایک گورننگ باڈی جو اس کے قیام کے وقت بنی تھی آج بھی وہی کام کررہی ہے۔ اسی طرح ملتان میں اگر ٹریفک کنٹرول کمیٹی بنے یا اس کی ترقی کے لئے کوئی کمیٹی بنائیجائے ان میں وہی چند لوگوں کو شامل کیا جاتا ہے اور وہ لوگ جو حقیقت میں تحقیقاتی رپورٹنگ کرتے ہیں یا جو ملتان کے مسائل بارے وقتاً فوقتاً لکھتے رہتے ہیں مجال ہے کہ کبھی کسی ڈی سی نے ان مخصوص لوگوں کے ٹولے کے علاوہ کسی دوسرے سے بھی ملنے کی کبھی زحمت کی ہو اور یوں گھس بٹھیے جن کا تحقیقاتی رپورٹنگ سے کوئی لینا دینا نہیں اور نہ ہی وہ ملتان سے جڑے مسائل بارے کوئی خاص آگاہی رکھتے ہیں مگر ایک کام جو وہ بڑے زوروشور کے ساتھ کرتے ہیں وہ چاپلوسی اور خوشامد ہے اسی لئے تو ہمارے سرکاری بابو ان لوگوں کو گھروں پر ملنے جاتے ہیں کہ چلو اپنے افسران کو کالم چھپنے کے بعد اچھی کارکردگی کی رپورٹ تو بھیجی جاسکے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے سرکاری بابو ایسا سلوک جان بوجھ کر روا رکھتے ہیں تو اس کا صاف سیدھاایک جواب تو یہ بنتا ہے کہ ’’کج شہر دے لوگ وی ظالم سن کج سانوں مرن دا شوق وی سی‘‘۔
میں ان سطور کے ذریعے یہ کہنے میں قطعاً کوئی عار محسوس نہیں کروں گی کہ مقامی انتظامیہ کو جان بوجھ کر ملتان کے حقیقی مسائل سے نابلد رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس کے ذمہ داران یہاں کا محکمہ تعلقات عامہ اور پی آر اوز ہیں جو من چاہی کارکردگی کے خواہاں ہیں۔ مجال ہے کہ کبھی کسی نے ٹی ہائوس میں سینئر صحافیوں سے کی جانے والی بدتمیزی اور بدتہذیبی بارے آواز بلند کرنے کی بھی کوشش کی ہو۔ اسے ایک المیہ ہی کہا جاسکتاہے کہ عہدیداران بھی پریس کلب کے نمائندوں سے ملنے کی بجائے اب ایک مخصوص ٹولے سے ملنے پر ہی اکتفا کئے ہوئے ہیں حالانکہ لکھنے لکھانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ صحافی ہیں مگر اس کو کیا کہا جائے کہ اب پروفیسر صاحبان اور کتابوں کی دکان والے صحافی سمجھے جارہے ہیں جبکہ قلم کے وہ لکھاری جو عرصہ دراز سے اپنی دھرتی کے مسائل پر آواز اٹھارہے ہیں مجال ہے کہ یہ بابو صاحبان ان سے ملاقات کے لئے کبھی وقت نکالیں مگر وہ گھس بٹیھے جنہوں نے ایک دن بھی اخبارمیں کام نہیں کیا لیکن ساری عمر چاپلوسی اور خوشامد کی ریاضت ضرور کی ہے۔ اب کون کس کی نوکری کررہا ہے اس بحث کو پھر کسی وقت کے لئے اٹھارکھتے ہیں تاہم میں ڈی سی صاحب سے یہ درخواست ضرور کروں گی کہ وہ گھس بٹیھوں کے غول سے نکل کر ملتان کے اصل وارثوں کی طرف نظر کرم کریں تو انہیں مسائل کا نہ صرف علم ہوگا بلکہ ان کے حل کے لئے بھی جامع روڈ میپ یہ سپوت دیں گے لیکن اس کے لئے گھس بٹھیوں سے دوری ضروری ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ