گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ دنوں پروین شاکر کی 27 ویں برسی منائی گئی ۔ وہ 24 نومبر، 1952 ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں اور 26 دسمبر 1994ء کو صرف بیالیس سال کی عمر میں اسلام آباد میں ٹریفک کے ایک حادثے میں جاں بحق ہوئ تھیں۔اللہ مغفرت کرے آمین
پروین شاکر کی کچھ یادیں ڈیرہ پھلاں دا سہرا سے بھی وابستہ ہیں۔
یہ تین اپریل 1993 کی بات ھے جب خوشبووں کی شاعرہ پروین شاکر نے ڈیرہ اسماعیل خان کا خصوصی دورہ کیا۔ اصل میں وہ کسی مشاعرہ کے سلسلے میں یہاں تشریف نہیں لائی تھی بلکہ وہ Phd کی ایک پروپوزل پر کام ر ہی تھیں اور انہیں گومل یونیورسٹی کے ماس کیمیونیکشن کے اس وقت کے چیرمین ڈاکٹر فضل رحیم قصوریہ سے رہنمائی درکار تھی۔ یہ بات بہت کم ڈیرہ والوں کو معلوم ھے کہ اس سر زمین نے زندگی کے ہر میدان میں کیسے کیسے ہیرے پیدا کئے اور پاکستان کی ترقی میں ان کا کیا کردار رہا۔ ڈاکٹر فضل الرحیم خان ڈیرہ کے قصوریہ خاندان کے چشم و چراغ ہیں جو ماس کمیونیکیشن کی تعلیم میں پوری دنیا میں اتھارٹی تصور کئے جاتے ہیں ۔ ان کے بڑے بھائی عبدالکریم خان قصوریہ سابق صوبائی وزیر رہ چکے ہیں اور پختونخواہ کے لائق ترین بیورو کریٹ میں ان کا شمار ھوتا ھے۔ عبدالکریم خان قصوریہ نے کئی ٹرایبل ایجنسیوں میں پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر کام کیا اور قبایلی ان کی اعلی صلاحتیوں کی وجہ سے ان کو قدر اور پیار کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بعد میں وہ کافی عرصہ ھوم سیکریٹری KPK کے عہدے پر تعینات رھے۔ ڈاکٹر صاحب کے ایک چھوٹے بھائی عبدالحلیم خان قصوریہ ڈیرہ شھر کے سابق ایم پی اے اور صوبے کے ممتاز سیاستدان ہیں۔ بات ہو رہی تھی ڈاکٹر فضل الرحیم اور ماس کمیونیکیشن کی۔۔ڈاکٹر صاحب نے پشاور یونیورسٹی میں ایم اے انگلش کیا اور گومل یونیورسٹی سے ایم اے جرنلزم میں گولڈ میڈلسٹ ہیں ۔ وہ امریکہ سے ایم ایس اور Phd ماس کمیونکیشن کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں ۔ گومل یونیورسٹی اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ماس کیمونیکیشن شعبوں کے سربراہ رھے بعد میں وہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائشیا چلے گئے اور وہاں ماس کمیونیکیشن کی تعلیم میں نام پیدا کیا ۔ وہاں سے واپس پاکستان لوٹے تو NUST میں شعبہ ابلاغیات کے پروفیسر رھے۔ ڈاکٹر فضل رحیم خان بعد میں سعودی عرب کی Ummulqura یونیورسٹی مکہ میں پروفیسر تعینات رھے۔جب وہ مکہ میں تھے تو ان کی رہائش حرم پاک کی حدود میں خالدیہ کے قریب تھی اور وہ ڈیرہ کے حاجیوں کی بڑی خدمت کرتے تھے۔ مجھے بھی مکہ میں انکی رہائش پر متعدد بار انکی میزبانی سے مستفیض ھونے کا شرف حاصل ہوا۔ اسی طرح جب میں کوالالمپور ملائشیا گیا تو اس وقت بھی ان کی محبت اور شفقت ایسی ہی تھی ۔ فضل الرحیم خان جب مکہ سے واپس پاکستان لوٹے تو وہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے ماس کمیونیکیشن کے شعبے میں پروفیسر تعینات ہوۓ۔۔ ڈاکٹر فضل الرحیم کے تعلیمی پس منظر بیان کرنے کا مقصد یہ ھے کہ ڈیرہ کے نوجونوں کو معلوم ہو کہ یہاں بھت ٹیلنٹ ھے آپ محنت اور توجہ سے آگے بڑھنا چاھیں تو اللہ کی زمین بھت وسیع ھے آپ ستاروں پر کمند ڈال سکتے ہیں ۔ جب ڈاکٹر فضل الرحیم گومل یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے چیر مین تھے تو ان کے ہمراہ بہت تجربہ کار ٹیم تھی۔ پروفیسر عبدالستار عباسی صاحب اور ڈاکٹر غلام فرید صاحب تو بہت منجھے ہوۓ اور مشھور اساتزہ میں شمار ھوتے تھے البتہ پروفیسر محمد نواز محسود۔ پروفیسر عصمت اللہ خان کٹی خیل۔ پروفیسر صفدر شاہ۔پروفیسر اسلم پرویز۔ پروفیسر وسیم اکبر صاحب ابھی جونیئرنوجوان ٹیم تھی مگر پڑھانے میں بھت لائق تھے۔ اِس وقت تقریباً سب لوگ گومل یونیورسٹی سے باھر اعلی عھدوں پر کام کر رھے ہیں ۔ پروفیسر ڈاکٹر غلام فرید بھی قرطبہ یونیورسٹی میں پروفیسرتھے جب گزشتہ سال مئی میں وفات پا گیے اللہ مغفرت کرے۔۔۔بات دور چلی گئی جب پروین شاکر شعبہ ابلاغیات تشریف لائیں تو ان کے انٹرویو کے لئے ریڈیو پاکستان ڈیرہ اسماعیل خان کی ایک ٹیم تشکیل دی گئی جس میں اس وقت کے سٹیشن ڈائرکٹر ہارون جعفری صاحب ۔ سینئر براڈکاسٹر فیاض بلوچ صاحب ۔ میں خود اور ہمارے ساتھ امیر حسین شاہ صاحب جو ڈیرہ میں صوبائی انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ شامل تھے۔پروین شاکر صاحبہ کے ساتھ ان کا بیٹا مراد بھی ڈیرہ آیا تھا جو اس وقت بارہ تیرہ برس کا تھا۔ پروین شاکر فراست سے بھرپور بھت ذھین شاعرہ تھیں ۔ یہ تو مجھے معلوم نہیں کہ ان کا 25 سال پرانا انٹرویو ریڈیو پاکستان کی لائیبریری میں محفوظ ھے یا نہیں مگر اس وقت جو انہوں نے تازہ غزل سنائی تھی وہ میں نے اپنی ڈائری میں لکھ کر محفوظ کر لی اور قارئین کی خدمت میں پروین شاکر کی وہ غزل پیش خدمت ھے ۔۔انہوں نے کہا۔۔۔۔؎؎
تخت ھے اور کہانی ھے وہی۔۔۔۔ اور سازش بھی پرانی ھے وہی ۔۔۔ قاضیِ شھر نے قبلہ بدلہ ۔۔۔ لیکن خطبے میں روانی ھے وہی ۔۔۔۔ خیمہ کش اب کے ذرہ دیکھ کہ وہ ۔۔۔ جس پہ پہرہ تھا یہ پانی ھے وہی ۔۔۔ شھر کا شھر یہاں ڈوب گیا ۔۔ اور دریا کی روانی ھے وہی ۔۔ آج بھی چہرہ خورشید ھے زرد ۔۔۔ آج بھی شام سھانی ھے وہی ۔۔۔
میرا خیال ھے 1993 میں بھی سیاستدانوں کی آپس میں کشمکش عروج پر تھی اور ملک کرائیسس کا شکار تھا۔ پروین شاکر ایک حساس شاعرہ تھیں یہ غزل اس کشمکش سے متاثر ھو کے لکھی گئی ھو گی۔۔۔ افسوس کا مقام ھے کہ آج 29 سال بعد بھی سیاسی کشمکش ختم نہیں ھوپا رہی اور پاکستان کو کمزور سے کمزور تر بنا دیا گیا۔ دوسری طرف گومل یونیورسٹی جہاں پروین شاکر آئی تھی کا حال دیکھ کر بھی افسوس ہوتا ھے کہ ہم کہاں سے چلے تھے اور کہاں پہنچ گئے ہیں کبھی یہاں فنانشل کراسیس اور کبھی انتظامی۔ ہم انتظار میں رھتے ہیں کہ گومل یونیورسٹی میں تعلیمی اور ثقافتی سرگرمیاں پھر سے زور پکڑیں اور یہاں کی رنگ برنگی ثقافت پھر سے برگ و بار ھو کیونکہ یونیورسٹی ان سرگرمیوں کا مرکز رہی ھے مگر دھشت گردی نے رکاوٹ ڈالی اور اب تو اللہ کے کرم سے امن ھے ۔ پروین شاکر کے متعلق تو اب یہی کہا جا سکتا ھے؎؎
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ۔۔۔ ملنےکے نہیں نایاب ہیں ہم ۔۔۔۔میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ھوں ساحل پر۔۔۔۔ دریاۓ محبت کہتا ھے آ کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم ۔۔۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ