رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے سکول کے زمانے میں نیا سال منانے کا کہیں رواج نہیں تھا۔ کالج میں چار سال گزارے تو تب بھی یاد نہیں کہ کہیں کوئی دیکھا ہو جو رات کے وقت چوکڑی لگا کر بیٹھ جائے اور مدہم روشنیوں میں جاتے ہوئے سال کا غم غلط کرے۔ نئے سال کی آمد کی نوید اگلے ایک دو روز میں موصول ہو ہی جاتی تھی۔ جب لاہور میں بھی آئے اور جامعہ پنجاب میں کئی سال پڑھتے پڑھاتے گزارے تو سننے میں آتا کہ شہر کے امیر گھرانوں میں نئے سال کا جشن دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ عام آدمی اور عمومی زندگی‘ دونوں شہروں اور دیہاتوں میں اپنی ڈگر پر چلتے رہتے۔ سال آتے اور جاتے رہتے۔ نئے سال کا مغربی رنگ کہیں کہیں نظرآتا تھا‘ مگر غالب نہ تھا۔ اب صورتحال بالکل مختلف ہے۔ شہروں میں سال کی آخری شام کے سائے لمبے ہوتے ہی‘ ہم جیسے کمزور شہری گھروں میں بند ہو جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ سڑکوں‘ گلیوں اور محلوں میں کوئی اور قسم کی مخلوق ہر طرف نظرآتی ہے۔ کوئی اور انقلاب ہمارے ملک میں آئے یا نہ آئے‘ فون اور موٹر سائیکلوں کا انقلاب تو آ چکا۔ نئے سال کی رات ہو یا یومِ آزادی کی شام‘ نوجوان ہر طرف ہزارہا موٹر سائیکلیں دوڑاتے‘ شور مچاتے‘ دھواں چھوڑتے نظر آتے ہیں۔ زیادہ تر کا تعلق نچلے طبقے سے ہے‘ جن کے لئے تفریح کا سامان کرنا ہمارے معاشرے اور حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ ہمارا جب مستیوں کا زمانہ تھا تو سب کچھ میسر تھا۔ فلمیں نئی سے نئی بنتی تھیں‘ جن کو خاص مواقع پر ریلیز کیا جاتا تھا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ نئی فلم کو پہلے ہی ہفتے میں نہ دیکھا ہو۔ ریڈیو پر گانے بھی انہی فلموں سے ‘نئے سے نئے‘ سنتے۔ سرحد پار کی موسیقی سے اب تک لگائو ہے۔ تب بمبئی میں بننے والی فلمیں خفیہ طور پر دیکھنے کا رواج عام تھا۔ کسی نہ کسی سینما میں انتظام ہو ہی جاتا تھا۔ انیس سو پینسٹھ کی جنگ کے دوران ہی پابندی لگ چکی تھی‘ جو کئی دہائیوں تک رہی۔ نوجوانوں کے لئے زمین اس قدر تنگ نہ تھی جتنی اب نظر آتی ہے۔ رہبر و رہنما اپنی سیاست چمکانے کے لئے جب نظریاتی بن جائیں اور ان کی ذاتی زندگیوں میں تضاد ہو تو معاشرہ فطری توازن کھو بیٹھتا ہے۔ آزاد ی اور آزاد روی‘ دونوں اپنا راستہ خود ہی بنا لیتے ہیں۔ باقی سب کچھ پردوں کے پیچھے چلاجاتا ہے۔
ہماری نئی نسل شاید جنتری سے قطعاً ناواقف ہو اور ممکن ہے اسے یہ بھی معلوم نہ ہو کہ یہ کیا چیز ہے۔ آزما کے دیکھ لیں۔ ہم سادہ لوگ تھے۔ وقت اور فطرت کی رفتار سے چلنے والے۔ اس سے آگے نکلنے کی کبھی ہمت نہ تھی۔ نیا سال آتے ہی خواہش ہوتی کہ نئے سال کی جنتری خریدی جائے۔ دس بارہ صفحوں پر مشتمل جنتری آنہ‘ دو آنہ میں مل جاتی تھی۔ تب ایک روپے میں سولہ آنے ہوا کرتے تھے۔ دیہاتوں میں پھیری لگانے والے اسلامی‘ تاریخی اور ادبی کتابیں بیچتے نظر آتے تھے۔ اب بھی وہ کہیں کہیں نظر آ جاتے ہیں۔ جنتریاں ان کے پاس سے ہمیں نئی ملتی تھیں۔ جنتری کا نام تو ہم بھول چکے ہیں۔ اس کی جگہ کیلنڈرز نے لے لی ہے۔ اس کا اردو نام جنتری ہی ہے۔ کاش ان پرانی جنتریوں کو سنبھال کر رکھ سکتے۔ ان میں صرف دنوں‘ ہفتوں‘ مہینوں کا ہی حساب نہ ہوتا تھا‘ سرکاری تعطیلات کی تفصیل کے علاوہ ملک کے مختلف حصوں میں میلوں اور بزرگوں کے مزاروں پر عرسوں کی تاریخیں بھی درج ہوتی تھیں۔ تب جنتریاں محض اسلامی نہ تھیں‘ بس جنتریاں تھیں۔ ان میں ہندوئوں‘ سکھوں‘ عیسائیوں اور پارسیوں کے تہواروں کی تاریخیں بھی دیکھی جا سکتی تھیں۔
ہماری بچپن کی دلچسپی جنتری میں قسمت کا حال معلوم کرنے میں تھی۔ فال اور زائچے بھی بنے ہوتے تھے۔ کسی حرف پر انگلی رکھتے تو اگلے صفحوں پر اس کی تفصیل مل جاتی تھی۔ جنتریاں شائع کرنے والے کئی ادارے لاہور میں تھے۔ آپس میں مسابقت اور زیادہ کاروبار کی غرض سے وہ مختلف دیدہ زیب رنگوں میں ہر سال نئے انداز میں یہ شائع کرتے تھے۔ سب قسمت کا حال اچھے سے اچھا لکھتے تھے۔ جس حرف پر بھی انگلی پڑتی‘ جواب ہمیشہ دل کو خوش کر دیتا تھا۔ اردو بازار والوں سے بہتر ہماری نفسیات اس سلسلے میں اور کوئی نہیں جانتا تھا۔ یاد آیا کہ اس میں ‘یہ سال آپ کے لئے کیسا رہے گا‘ کے کئی جواب ہوتے تھے۔ ہر جواب مختلف انداز میں لکھا جاتا‘ مگر جنتری کا نجومی سیاست دان کی طرح ہماری کامیابی و کامرانی کی نوید سناتا تھا۔ سیاروں کے بارے میں بھی معلومات درج ہوتیں‘ اور ہم اپنی تاریخ پیدائش‘جو اکثر ہمارے استاد اندازے سے لکھ چھوڑتے تھے‘ کے مطابق اپنا برج بھی تلاش کر لیتے اور اس کی خصوصیات‘ مزاج اور ذہنی و شخصی رجحانات کے بارے میں بہت کچھ معلوم کر لیتے اور ایک دوسرے سے ٹکر کھانے والے برجوں کے بارے میں بھی۔
کئی دہائیاں پہلے امریکہ میں ایک پاکستانی کانفرنس میں ایک اینتھروپالوجسٹ کو جنتریوں پر تحقیقی مقالہ پڑھتے سنا۔ کئی طبق روشن ہو گئے۔ کچھ سالوں کے وقفے کے بعد وہ پاکستان آئے۔ شہر شہر گھومتے‘ جنتریاں اور مختصر کتابیں‘ جنہیں انگریز ایک دو صدیاں پہلے Chapbooks کہتے تھے‘ اکٹھی کرتے رہے۔ یہ مختصر کتابیں زیادہ سے زیادہ چوبیس صفحات پر مشتمل ہوتی تھیں۔ ہمارا کتابیں پڑھنے کے سفر کا آغاز تیسری‘ چوتھی جماعت میں ان مختصر کتابوں کے پڑھنے سے ہوا‘ جن میں جنوں اور پریوں کی کہانیوں کے علاوہ سبق آموز درس بھی ہوا کرتے تھے۔ عام آدمی کے لئے یہ دو آنے کی جنتریاں ہیں‘ مگر ماہرینِ علوم معاشرہ کے لئے ان میں بہت کچھ ہے کہ کس قسم کے تصورات‘ نئے پڑھنے والوں میں اجاگر کئے جا رہے ہیں۔ سادہ‘ آسان اور مختصر پیغام میں ذہن کی افتاد طے کرنے کے گُر چھپے ہوتے ہیں۔
ہم بھی پھر قسمت کا حال معلوم کرتے کرتے قسمت اچھی کرنے کی دھن میں لگ گئے۔ جنتری نے قسمت اچھی بتائی تو پھر اس کو حاصل کرنے کے لئے لاشعور میں قدم آگے بڑھانے کا ارادہ بھی پیدا ہوا۔ ایک لحاظ سے دعائیہ اور حوصلہ افزا کلمات ہی تھے‘ جو اپنا اثر چھوڑ گئے۔ جی چاہتا ہے‘ وہ جنتریاں کہیں سے دوبارہ ڈھونڈ کر سینکڑوں کی تعداد میں ضخیم کتابوں کے ساتھ شیلفوں پہ سلیقے سے رکھ دوں‘ اور ان کے رنگ برنگے اوراق اور مختصر پیغامات کو وقفے وقفے سے پڑھتا رہوں۔ زمانہ اب تبدیل ہو چکا ہے۔ جنتریاں اب بھی شائع ہو رہی ہیں‘ مگر جو دیکھ پاتا ہوں‘ ان کو ہاتھ لگانے کو جی نہیں چاہتا۔ ان پر فرقہ واریت کا رنگ غالب ہے اور وہ مختصر کتابوں کے زمرے میں نہیں آتیں۔ مختلف فرقوں کے منشور‘ سیاست اور دیگر متعلقہ رجحانات کا مظہر ہیں۔ کوئی کام کا کہیں کتب خانہ ہوتا تو جنتریوں کو آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کر لیتا۔ مغرب میں تو جو کسی زمانے میں کوئی جوتے پہنتا تھا‘ ان کے لئے بھی ان کے عجائب گھروں میں گنجائش پیدا کی گئی۔
ہم ہر نئے آنے والے سال کو اپنے زمانے کی پُرانی جنتریوں کے حوالے سے دیکھتے ہیں‘ اور اسی لئے ہر سال اچھا ہی ہوتا ہے۔ بات ماہ و سال کی نہیں‘ زاویہ نگاہ کی ہے۔ ہر آنے والے دن‘ ہر صبح اور ہر گزرے ہوئے دن کی شام میں دیکھنے اور سمجھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔ نئے سال کو خوش آمدید کہنے‘ جشن منانے میں بھی یہی راز مضمر ہے کہ جو کل تھا‘ وہ گزر گیا‘ اور جو کل آئے گا‘ بہتر ہی ہو گا۔ امیدیں ختم ہو جائیں تو باقی کیا رہ جاتا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر