مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران کی توجہ کیلئے||ظہور دھریجہ

حکومت یکساں تعلیم کے بارے میں بھی سفارشات مرتب کر رہی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ یکساں نصاب تعلیم میں سرائیکی وسیب کی تہذیب، ثقافت، جغرافیہ، وسیب کے آثار اور وسیب کے مشاہیر کو بھی شامل کیا جائے۔

سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن پنجاب جاوید اقبال بخاری صاحب گورنمنٹ گرلز کالج بہاولنگر کے مسئلے پر غور کریں کہ وہاں سرائیکی تعلیم کی مخالفت ہوئی ہے اور گورنمنٹ خواجہ فرید کالج رحیم یار خان میں لسانی بنیاد پر وہاں کے پرنسپل کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وسیب کے دوسرے علاقوں کا بھی جائزہ لیں اور سرائیکی تعلیم میں حائل رکاوٹوں کو دور کریں۔ وسیب میں ایک عرصے سے کالجوں میں سرائیکی پڑھائی جا رہی ہے مگر پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے کتابیں شائع نہیں کیں۔ وسیب کے ہر کالج میں سرائیکی پڑھانے والوں کی ضرورت ہے مگر اس سال پورے صوبے میں سرائیکی کی محض دو آسامیاں (میل) دی گئی ہیں جبکہ سرائیکی کے مقابلے میں دیگر آسامیوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ سرائیکی کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک ہوتا آرہا ہے۔ سرائیکی زبان کے مسئلے پر امتیازی سلوک ہوتا آرہا ہے۔ حالانکہ آئین پاکستان ہر طرح کے امتیازی سلوک سے سختی کے ساتھ منع کرتا ہے۔ سرائیکی زبان کو نظر انداز کرنا وسیب کے کروڑوں افراد کے انسانی تہذیبی و ثقافتی حقوق کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔
سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن کے ساتھ ساتھ سیکرٹری سکولز کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ سرائیکی تعلیم کیلئے میٹرک کا نصاب کئی سالوں سے منظور ہے۔ نہ تو میٹرک کی کتاب چھپوائی جا رہی ہے اور نہ ہی سکولوں میں سرائیکی ٹیچرز کی آسامیاں دی جا رہی ہیں۔ جس سے وسیب کے احساس محرومی میں مسلسل اضافہ ہور ہا ہے۔ سیکرٹری سکولز اس مسئلے پر فوری توجہ کریں۔ سرائیکی ٹیچرز کی آسامیاں دیں اور بلا تاخیر سکول کی سطح پر سرائیکی پڑھانے کا اہتمام کریں۔
وفاقی وزارت تعلیم، وفاقی سیکرٹری تعلیم اور وفاقی وزارت تعلیم کے اعلیٰ افسران سی ایس ایس میں سرائیکی کا مضمون شامل کرائیں۔ سی ایس ایس میں پنجابی، سندھی و دیگر زبانیں شامل ہیں اور سرائیکی زبان جس میں ایم اے ایم فل اور پی ایچ ڈی ہو رہی ہے۔ کو سی ایس ایس میں شامل نہ کرنا حکومت کے اپنے ہی بناء ہوئے ضابطے کی خلاف ورزی ہے۔ ایک صورت یہ بھی ہے کہ بعض محکمے سرائیکی کی ماسٹر ڈگری کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں وہ بہانے بازیاں کرتے ہیں۔ حکومت نوٹیفکیشن کے ذریعے تمام محکموں کو واضح کرے کہ ہر ڈگری کی اہمیت یکساں ہے۔
حکومت یکساں تعلیم کے بارے میں بھی سفارشات مرتب کر رہی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ یکساں نصاب تعلیم میں سرائیکی وسیب کی تہذیب، ثقافت، جغرافیہ، وسیب کے آثار اور وسیب کے مشاہیر کو بھی شامل کیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ یکساں نصاب تعلیم نہیں ہو گا اور ہم کسی ایسے یکساں نصاب تعلیم کو تسلیم نہیں کریں گے۔ سرائیکی وسیب کو محروم رکھ کر یکساں نصاب تعلیم کے تقاضے کسی صورت پورے نہ ہو سکیں گے۔ پاکستان کے نصاب اور پاکستان کی برکات سے وسیب کو محروم رکھنے کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ مشرقی پاکستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ’’تو بھی پاکستان ہے، میں بھی پاکستان ہوں، یہ تیرا پاکستان ہے، یہ میرا پاکستان ہے‘‘ کے تقاضے حقیقی معنوں میں پورے کیے جائیں۔ سرائیکی وسیب کے لوگ نہ تو کسی کے کمی ہیں، نہ مزارعے ہیں۔ سرائیکی قوم کی اپنی الگ تہذیب، اپنی ثقافت، اپنا جغرافیہ اور اپنا خطہ زمین ہیں۔ سرائیکی وسیب کے لوگ ہزار ہا سالوں کی تہذیب کے وارث ہیں اور پاکستان ان کی سرزمین پر قائم ہے۔ میں باریدیگر واضح کرتا ہوں کہ سرائیکی وسیب اور سرائیکی قوم کیساتھ ہر طرح کے امتیازی سلوک ختم کئے جائیں اور سرائیکی وسیب کے لوگوں کو اسی طرح کے تہذیبی، ثقافتی، جغرافیائی حقوق دیئے جائیں جیسا کہ دیگر قوموں کو حاصل ہیں۔ اس کے ساتھ میں حکمرانوں اور مقتدر قوتوں پر بھی واضح کرتا ہوں کہ جب تک صوبہ سرائیکستان کا قیام عمل میں نہیں لایا جائے گا نہ تو وفاق پاکستان متوازن ہو سکتا ہے اور نہ ہی پاکستان کا سیاسی بحران ختم ہو گا۔ صوبہ سرائیکستان استحکام پاکستان کی ضمانت ہے۔ وسیب کے کروڑوں افراد کیساتھ سرائیکی صوبہ پاکستان کی بھی ضرورت ہے۔
یہ بھی کہوں گا کہ سندھی کی طرح پاکستانی بچوں کو ان کی ماں بولیوں میں تعلیم کا حق ملنا چاہئے اور وسیب میں پرائمری سطح پر بھی سرائیکی تعلیم کا اجراء ہونا چاہئے۔ پوری دنیا کے ماہرین تعلیم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صرف ماں بولی میں تعلیم کے ذریعے ہی بچے کی ذہنی نشو نما کا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے کہ بچے کی ذہنی و جسمانی ساخت پر اس کی ماں بولی کے اثرت ماں کے پیٹ میں ہی مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ طالبعلم کی تخلیقی صلاحیتیں ماں بولی سے ہی پیدا ہوتی ہیں ، دوسری کسی بھی زبان میں آپ اسے پڑھائیں گے وہ محض رٹا ہوگا۔ کسی بھی ماں بولی کو آئوٹ کرنے کا مقصد بچے کی تہذیب و ثقافت کو قتل کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے کہ زبان صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ پوری انسانی زندگی کی تاریخ ، تہذیب و ثقافت اس میں بند ہوتی ہے اور زبان ہی پورے تمدن کا اظہار سمجھی جاتی ہے۔ اپنے ادب، اپنے فوک، اپنی موسیقی سے محروم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس سے اس کی لوک دانش کا اثاثہ چھیننے کی کوشش کر رہے ہیں، ایساکر کے آپ اس کا انسانی شرف چھین کر اس میں حیوانیت پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے کے لوگ تہذیب ، تمدن اور زبان ثقافت سے محروم ہوتے ہیں تو پھر ان میں حیوانیت آ جاتی ہے اور پھر حیوانیت کے روپ چیر پھاڑ والے ہوتے ہیں ، پھر انسانی معاشرے میں جنگل کا قانون لاگو ہو جاتا ہے ، آج کا بحران تہذیبی بحران ہے، ثقافتی بحران ہے اور انتہا پسندی، دہشت گردی اور عدم برداشت اس کے مظاہر ہیں۔
گورنمنٹ گرلز کالج بہاولنگر کی پرنسپل کو طالبات اور وسیب کے عوامی احتجاج پر عہدے سے تبدیل کرنا کافی نہیں بلکہ محکمانہ طور پر انضباطی کارروائی ہونی چاہیئے کہ پرنسپل مذکور نے نہ صرف یہ کہ سرائیکی تعلیم سے تعصب کا اظہار کرکے وسیب میں لسانی تعصب کو اُبھارنے کی کوشش کی بلکہ اپنے منصب سے تجاوز کرتے ہوئے حکومتی رٹ کو چیلنج کیا ۔میں بتانا چاہتا ہوں کہ
(1) صوبے میں سرائیکی تعلیم کا فیصلہ حکومت نے کیا ۔
(2) سرائیکی لیکچرار کی اسامیاں حکومت نے پیدا کیں ۔
(3) پبلک سروس کمیشن نے ضابطے کے تحت امیدوار سلیکٹ کئے ۔
(4) محکمہ تعلیم حکومت پنجاب نے تعیناتیاں کیں ۔
(5) رولز کے مطابق کالجوں میں طالبات کے داخلے ہوئے
حکومت کی طرف سے یہ وہی اقدامات ہیں جن کی بناء پر کوئی ٹیچر /لیکچرریا ادارے کا سربراہ تعینات ہوتا ہے۔ پرنسپل مذکور بھی اسی پراسس کا حصہ تھیں ۔ ان کو اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے اور حکومتی رٹ اور حکومت کے احکامات سے روگردانی کرنے کا اختیار حاصل نہ تھا ۔ ان کا اقدام غیر قانونی اور غیر اخلاقی بھی تھی جس سے نہ صرف محکمہ تعلیم کے دیگر اساتذہ میں بے چینی پیدا ہوئی بلکہ سرائیکی تعلیم کی خواہش مند طالبات کے بھی حوصلہ شکنی ہوئی ۔ اسی بناء پر ہمارا مطالبہ ہے کہ اتنے بڑے جرم کی سزا صرف تبادلہ کافی نہیں ہے بلکہ قانون اور ضابطے کے مطابق سخت سزا دی جائے ورنہ وسیب کے لوگ احتجاج کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں ۔
ظہور دھریجہ
صدر سرائیکستان قومی کونسل۔ پاکستان

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: