حسنین جمال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیار، محبت، عشق وغیرہ میں ہمارے جو رومانٹک تصورات ہوتے ہیں وہ بعض اوقات کاغذ کی کشتی اور بارش کے پانی جیسے بن جاتے ہیں۔
فلمیں اور ڈرامے ہماری زندگی کے آئیڈیل لمحوں کو ڈیفائن کرنے میں اکثر بڑے کام آتے ہیں لیکن جب وہ ’آئیڈیل لمحہ‘ کبھی سر پہ پڑ جائے تو بندہ سوچتا ہے یار یہ سب بھی اس پیکچ کا حصہ ہے؟
بارش والا سین لے لیں۔ رات کا وقت ہے، ہیرو ہیروئن گاڑی میں ہیں، تیز بارش ہو رہی ہے، گانا چل رہا ہے، ساری ممکنہ حرکات و سکنات چل رہی ہیں اور بارش بھی کتے بلیوں والی برس رہی ہے۔ سکرین پر یہ سب کتنا پیارا لگتا ہے؟
اب اپنی زندگی پر آ جائیں۔ وہی موسلا دھار بارش ہو، جی ٹی روڈ ہو، گاڑی بھی جو آپ کی اپنی ہے، وہ ہو اور رات کا وقت ہو۔ آپ طوفانی بارش میں گاڑی چلائیں گے یا گانا گائیں گے؟ آنکھیں پھاڑ کے سامنے سے آنے والی بتیوں میں سے راستہ ڈھونڈیں گے یا جھومنا اور لہرانا پسند کریں گے؟ ایسے میں اگر سکرین کا ایک وائپر تھوڑا کام نہ کر رہا ہو، جو اکثر ہوتا ہے، تو پھر کیا ہو گا؟ یا سردیوں کی بارش میں ونڈ سکرین اکثر دھندلی ہو جاتی ہے تو اس ٹینشن میں کتنے کوئی گانے یاد رہ جانے ہیں آپ کو؟
ایک اور سین باغوں میں گھومنے اور گھاس میں لوٹیاں لگانے کا ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ اُن ممالک کی فلموں میں زیادہ دکھایا جاتا ہے جہاں نر مادہ اکٹھے ہوں اور اگر وہ جانور بھی ہوں تو بچے ڈنڈے لے کر آ جاتے ہیں، بندوں کی تو بات ہی الگ ہے۔ گھاس میں لوٹ پوٹ ہوتے ہوئے گارڈ کی ٹارچ اور زمین کے کیڑے مکوڑے نہیں چھوڑتے، اور جو باغوں میں گھومنے یا بیٹھنے کی بات ہے تو کبھی گرمی کی شِکر دوپہروں میں تین بجے اپنے علاقے والے مشہور پارک میں جائیں، بس وہی وقت ہوتا ہے جب آپ کو یہ فلمی لمحے دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔
اب سوچیں کہ آپ نہایت خلوص دل سے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کے بیٹھے ہیں اور سر پہ سورج چمک رہا ہے، بغلیں پسینے سے مہک رہی ہیں اور آتے جاتے چھوکرے آوازے کس رہے ہیں، کیا ٹکے برابر مومنٹ رہ گیا؟
ایک بڑی اہم چیز جو اردو فلم میں ہو تو ڈیڑھ گھنٹہ اور ڈرامہ ہو تو چھ قسطیں کھا جاتی ہے، وہ جدائی کے سین ہیں۔ ہیرو کو دکھایا جاتا ہے کہ دنیا جہان کے نشوں میں غرق ہے، آہیں بھر رہا ہے، ہیروئن مزاروں پہ منتیں مان رہی ہے، دونوں کو اور کام کوئی نہیں ہے بس چوبیس گھنٹے فراق کے گانے گا رہے ہیں۔
عام زندگی میں کبھی ہجر لاحق ہو جائے تو نوٹ کیجیے گا کیسا جہنم مرحلہ ہوتا ہے۔ نوکری بھی کرنی ہے، گھر کے بھی کام وقت پہ ہونے ہیں، نشے پانی میں بندہ ویسے چوکس ہو جاتا ہے کہ ایسا ویسا منہ سے کچھ نکل نہ جائے، وہ بھی ہو گیا بھنگ، چوبیس گھنٹے کا دن اڑتالیس میں بدل جائے گا لیکن مجال ہے گانوں کا دل کر جائے، گانے بھی ختم، رہے مزار، تو وہاں جانا دور کی بات، بندہ ٹھیک سے پلان نہیں کر سکتا کہ رخ کرنا کدھر ہے اور پیروں نے کہاں پڑنا ہے۔ وہ شاہ رخ خان، دلیپ کمار یا شبنم جیسے ہی ہوتے ہیں بھائی جو اس سب کو سلیقے سے نبھا لیتے ہیں، عام آدمی ایسی کوئی بھی لگژری افورڈ نہیں کر سکتا۔ گرمیوں میں بنیان اور سردیوں میں شال اوڑھ کے خلاؤں میں گھورنا اور کھجاتے رہنا واحد عیاشی ہے جو آپ کو نصیب ہو سکتی ہے۔
اسی طرح کی ایک چیز برف باری ہے۔ بڑے رومانٹک خیالات ہمارے برف باری سے وابستہ ہوتے ہیں لیکن یقین کریں کہ ہیلی کاپٹر آپ کو مطلوبہ مقام تک پہنچا دے، ہوٹل کا گیزر اور ہیٹنگ سسٹم فُل آن ہو، تھرمل انسولیشن والے کپڑے آپ نے پہنے ہوں اور پانچ چھ دن کا راشن آپ کے پاس ہو تب وہ سب کچھ ممکن ہو سکتا ہے جو آپ سوچتے ہیں۔ عام زندگی کا ہیرو بے چارہ برف پہ پھسلتی گاڑی مشکل سے چڑھا چڑھو کے مطلوبہ مقام تک پہنچتا ہے، ٹھنڈے یخ پانی سے منہ دھوتا ہے، بغلوں میں ہاتھ ڈالے کُکڑ بنا کمرے میں بیٹھا رہتا ہے اور باہر نکلتا ہے تو بجائے ہیروئن پہ برف کے گولے اچھالنے کے، اس کی سوچ وہیں پھنسی ہوتی ہے کہ اللہ جانے صبح گاڑی سٹارٹ بھی ہو گی یا نہیں، اور اکثر اگلی صبح اللہ ہی جانتا ہے کیسی ہوتی ہے!
لیکن یار، ان سارے مسئلوں کے باوجود اگر آپ اچھے وقت میں کچھ لمحے ایسے گزار جاتے ہیں جنہیں خوشگوار یاد کہا جا سکے تو یقین مانیں ہیرو ہیروئن آپ خود ہیں۔
اگر مری کے مال روڈ پہ سوٹ بوٹ پہن کر آپ چلتے ہیں اور خاتون فُل میک میں ایڑھی والی جوتی پہنے آپ کے ساتھ ہیں، اور آپ انجوائے کر رہے ہیں، تو بس آپ چیتے ہیں!
اگر برفباری میں گاڑی پھنسنے پر بھی سڑک کنارے اتر کے آپ شغل لگا رہے ہیں اور ہنسنے ہنسانے میں لگے ہوئے ہیں تو آپ سے خوبصورت آدمی کوئی نہیں ہے۔
گرمیوں کی شدید دوپہر میں پسینے بھرے کپڑوں کے ساتھ کسی باغ میں جانے کا رسک اگر آپ دونوں لیتے ہیں، اور واپسی پہ آپ کو لگتا ہے کہ ایسا ہی کاش دوبارہ بھی ہو تو آپ کا دل زندہ ہے۔
طوفانی بارش میں گاڑی چلانے کے ساتھ اگر آپ گانا گا رہے ہیں اور ماحول کو فلمی بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یقین کریں آپ وقت کے بادشاہ ہیں۔
یہ سب کچھ بعد میں ممکن نہیں ہوتا۔ ایک وقت، ایک جذبہ، ایک عمر، ایک جنون، ایک مزاج، ایک لٹک، ایک طبیعت اور کچھ فتور مل جائیں تو آپ بہت سارا ایسا وقت جی لیتے ہیں جسے بعد میں ساری عمر آپ یاد کر سکتے ہیں، کہہ سکتے ہیں کہ ہاں، جو مجھے پسند تھا، میں نے کیا۔
جس کے پاس من موجی طبیعت نہ ہو اصل غریب وہ ہوتا ہے، جو کچھ کرنے کے لیے سوچتا رہ جائے اور اس کا وقت گزر جائے اصل مفلس وہ ہوتا ہے، جو احتیاطوں میں پڑا رہے اور موج بنجارہ لے جائے، اصل فقیر وہ شخص ہوتا ہے۔
تو بس چاہے آپ کی خواہشیں کاغذ کی وہ کشتیاں ہی کیوں نہ ہوں جو بارش میں بھیگ کے بہہ جائیں، ان کے پگھل جانے سے پہلے انہیں پورا کرنے کا سوچیں۔
یہ تحریر سب سے پہلے انڈی پینڈینٹ اردو پر شائع ہوئی تھی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر