حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبریں بڑی دلچسپ ہیں مثلاً خیبرپختونخوا کی حکمران جماعت پی ٹی آئی کے الیکشن کمیشن سے رابطہ کی اطلاع ہے کہ جنوری میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلہ کو ملتوی کرالیا جائے۔ وجہ امن و امان کی صورتحال بتائی جارہی ہے۔
قومی اسمبلی کے سابق سپیکر ایاز صادق کہتے ہیں وہ 30دسمبر کو لندن جارہے ہیں میاں نوازشریف کو ساتھ لے کر واپس آئیں گے۔ میاں صا حب نے بھی گزشتہ روز اکبر الہ آبادی مرحوم کا شعر پڑھا اور پھر کہا کہ اب جلد ہی وطن میں ملاقات ہوگی۔
آصف علی زرداری کہتے ہیں لاہور میں خیمے گاڑ کر ان کا مقابلہ کروں گا۔ فواد چودھری کا دعویٰ ہے کہ (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی والے تو ایک دو خیموں میں ہی سما جائیں گے۔
اسٹیٹ بینک والے ترمیمی بل کا معاملہ ابھی کچھ الجھا الجھا ہوا ہی ہے۔
شہباز شریف نے کارکنوں کو تیار رہنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ نیب نیازی گٹھ جوڑ کے خاتمے کا وقت آگیا ہے۔
چلیں دو خبریں اور پہلی یہ کہ محترمہ مریم نواز کہتی ہیں ہمارے حال کو تباہ کرنے والا گھر جانے کی تیاری کرے
جبکہ شازیہ مری کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اب ایک ٹھوکر کی مار ہے۔
بالائی سطور میں درج خبروں پر دلچسپ کالم لکھا جاسکتا ہے مثلاً جب پی ڈی ایم کے اجلاس میں آصف علی زرداری نے کہا تھا میاں صاحب تحریک چلانی ہے تو وطن واپس آئیں قیادت کریں۔ قبل اس کے نوازشریف جواب دیتے مریم نواز نے تقریباً چیختے ہوئے کہا میرے والد وطن آجاتے ہیں ان کی زندگی کی ضمانت کون دے گا۔
کیا پیپلزپارٹی اور زرداری صاحب ضمانت دیں گے؟
اسی اجلاس میں زرداری نے کہا تھا میاں صاحب آپ کی بیٹی اور میرا بیٹا ملک میں جدوجہد کررہے ہیں مگر لوگ ہماری (آپ اور میری) طرف دیکھ رہے ہیں۔
سول سپر میسی کے دانشور، صحافی، اینکرز اور یوٹیوبر آدھی بات لے اڑے۔ بیٹی والی بات ہضم اور بیٹے والی بات کا بتنگڑ بناکر زرداری اور پیپلزپارٹی کے خلاف سماں باندھا گیا۔
میاں صاحب نہ آئے پی ڈی ایم بھی بکھر گیا۔ اب (ن) لیگ کے چھوٹے بڑے یقین دلارہے ہیں کہ نوازشریف جنوری میں وطن واپس آرہے ہیں کیا زندگی کی ضمانت مل گئی؟ ضامن کون ہے؟ دو چھوٹے چھوٹے سوال ہیں بس
فقیر راحموں کچھ حالیہ ملاقاتوں کی کہانی سنارہے ہیں۔ کہانیوں کو الگ سے اٹھارکھئے اصل سوال یہ ہے کہ کیا معاملات طے پاگئے ہیں۔ میاں صاحب وطن آئیں گے تو کیا طے پایا ہے جیل جانا ہے یا جاتی امرا؟
سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا۔ سکیورٹی سٹیٹ میں تو بالکل بھی نہیں کیونکہ اس میں محفوظ راستہ لینا پڑتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی جنہوں نے 2018ء کے انتخابی نتائج کے بعد ٹیویٹ کی تھی
’’وہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت‘‘ ان کا جی عزت سے بھر گیا ہے یا ذلت نے جی کھٹا کردیا؟
ان ساری باتوں کے بیچوں بیچ متحدہ حزب اختلاف بھی اپنے نگ پورے کرنے میں مصروف ہے۔ نگ پورے بھی کرلئے جائیں تو بھی جب تک 20سے 25ارکان کی مزید تائید نہیں مل جاتی پارلیمانی دنگل کھیلنے میں مشکل پیش آسکتی ہے۔
چلئے ہم مان لیتے ہیں کہ جناب نوازشریف کے ساتھ معاملات طے پاگئے ہیں وہ جنوری میں وطن واپس آجائیں گے۔ فروری میں متحدہ اپوزیشن احتجاجی سیاست کا ڈول ڈالے گی مارچ تک جلسے جلوس ہوں گے مارچ میں ہی پارلیمانی دنگل ، پہلے قومی اسمبلی میں پھر سینیٹ میں اور تیسرے مرحلہ میں پنجاب میں۔ تینوں دنگل اپوزیشن جیت بھی جاتی ہے تو کیا ہوگا؟
عبوری قومی حکومت 120دن کے لئے یا 240دن کے لئے۔ انتخابات جون کے آخر میں ہوں گے یا پھر ستمبر میں؟ یہ سوال اہم ہے۔
اچھا ایک اور سوال ہے وہ یہ کہ کیا یہ اطلاع درست ہے کہ متحدہ اپوزیشن کے پاس سات وفاقی وزراء، تین مشیروں، دو صوبائی وزرائے اعلیٰ سمیت کل 25 افراد کی "مضبوط فائلیں” موجود ہیں اور احتجاجی تحریک کے دوران ان فائلوں کے مندرجات، تقاریر و مطالبات کا رزق ہوں گے حکومت مشکل میں پڑ جائے گی؟ اطلاعات دوڑتی بھاگتی اطلاعات تو یہ بھی بتاسمجھا رہی ہیں کہ وزیراعظم اور ان کے رفقا بھی نچلے نہیں بیٹھے وہ بھی سوچ رہے ہیں کہ اگر سب کچھ ایسا ہی ہوتاہے تو وہ سیاست کے اگلے مرحلہ میں صدارتی نظام کو نعرہ بناکر میدان میں اتریں گے۔ ایسا ہے تو کیا وہ اس پوزیشن کو حاصل کرلیں گے کہ دستوری ترمیم کرسکیں
پھر یہ بھی کہ کیا چھوٹے صوبے صدارتی نظام کے حق میں آمادگی دیں گے۔ خیر چھوڑیں یہ صدارتی نظام کے کریلے کڑوے ہیں کون کھائے گا۔
ہم آگے بڑھتے ہیں، میاں صاحب وطن واپس آرہے ہیں، عوام کی طاقت اور قوت ریاست کو جھکنے پر مجبور کردے گی۔ زرداری ڈیل کے لئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں لیکن میاں صاحب کے ایک رفیق خاص خواجہ سعد رفیق تو کہتے ہیں حکومت سے جان چھڑانی ہے تو (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کو اختلافات ختم کرکے قریب آنا ہوگا۔
یہ قربت کیسے ہوگی؟ کیا یہ محض ایک بیان ہے یا سوچ کی ترجمانی یہ دریافت کرنااس لئے اہم ہے کہ مریم نواز کی ایک لاہوری ’’بالکی‘‘ سوشل میڈیا پر اپنے بالکوں بالکیوں کے ہمراہ پچھلے چند ماہ سے پیپلزپارٹی اور بلاول پر جن خصوصی مہربانیوں میں مصروف ہیں ان کا کیا ہوگا؟
ایک شرارتی سا سوال ہے وہ یہ کہ کیا فواد حسین چودھری اپنی 10ماہ قبل والی اس پیشکش پر اب بھی قائم ہیں کہ اگر (ن) لیگ انہیں امان دے تو کسی پارلیمانی دنگل کی صورت میں وہ 14ارکان سمیت اپوزیشن کی حمایت کریں گے؟
اب ایک دلچسپ معاملہ وہ یہ کہ آجکل وزیر اطلاعات فواد چودھری بڑی مشکل میں ہیں وہ جب بھی میڈیا سے گفتگو کے لئے تیاری پکڑتے ہیں وزیراعظم کے ایک مشیر(ڈنگر ڈاکٹر ) جن کی طرح نمودار ہوتے ہیں اور اپنا ساڑ نکالنے لگتے ہیں۔
بیچارے فواد چودھری دیکھنے اور سننے پر مجبور ہیں۔ اسلام آباد کے صحافی کہتے ہیں ایسے لمحوں میں چودھری صاحب کے چہرے کے تاثرات دیکھنے والے ہوتے ہیں۔
گزشتہ روز بھی مشیر موصوف وزیر اطلاعات کو ایک طرف کرکے اپنا بھاشن سناتے رہے۔
ہمارے محبوب وزیراعظم نے گزشتہ روز انکشاف کیا ’’جب بھی معیشت اوپر جانے لگتی ہے ڈالر کی کمی ہوجاتی ہے اس کی وجہ سے ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے‘‘۔
وزیراعظم یہ تو مانتے ہیں کہ ملک کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے مگر وہ یہ بھی کہتے ہیں پاکستان سستا ترین ملک ہے۔ اب اس پر کیا عرض کیا جائے وہ ملک کے وزیراعظم ہیں درست ہی فرماتے ہوں گے۔
قارئین کرام کالم کسی اور موضوع پر لکھنا تھا لیکن پھڑکتی خبروں کی وجہ سے وہ موضوع منہ دیکھتا رہ گیا۔ چلیں کوئی بات نہیں اس طرح تو ہوتا ہے اس طرے کے کاموں میں۔
اچھی خبر یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت 16ہزار ملازمین کو بحال کرنے کے لئے احکامات جاری کردیئے ہیں اچھا ہے بیروزگاری کے طوفانی دور میں حق داروں کو ان کا حق مل گیا اس سے اچھی بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے ان ملازمین کو سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران اپنے حق کے دفاع کے لئے وکلا کا پینل فراہم کیا جنہوں نے بغیر معاوضہ کے مقدمہ لڑا۔
حرف آخر یہ ہے کہ بھنگ کی سرکاری طور پر کاشت کی پہلی فصل کٹائی کا مرحلہ گزشتہ روز وفاقی وزیر سینیٹر شبلی فراز کی نگرانی میں مکمل ہوا۔ شبلی فراز کہتے ہیں بھنگ سے بننے والی ادویات سے ملک سالانہ 2ارب ڈالر کماسکتا ہے لیکن سبز سوائی کے مقامی شوقین پریشان ہیں کہ اب بھنگ بھی عالمی چیز بن جائے گی کہیں وہ اس ’’قلندری‘‘ میوے سے محروم نہ ہوجائیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ