رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہر اپنے اندر ایک اور دنیا لیے ہوتے ہیں‘ مگر ہم وسیع سیاسی میدانوں تک اپنے مشاہدات اور تجزیوں میں محدود ہیں۔ اس کی وجہ سمجھ میں بھی آتی ہے کہ شہر اپنی ثقافتی اور تاریخی شناخت تو رکھتے ہیں مگر سیاست کے حوالے سے وہ کسی ایک یا دوسری بڑی سیاسی جماعت کے ساتھ جڑے رہے ہیں۔ صرف ایک ہی شہر ہے‘ کراچی‘ جہاں ایک نئی سیاسی جماعت‘ مہاجر قومی موومنٹ‘ نے جنم لیا تھا‘ مگر وہ بھی شہری نہیں‘ لسانی بنیادوں پہ استوار ہوئی تھی۔ شہر کراچی تو پاکستان کی سب قومیتوں کا نمائندہ ہے‘ سب کا گھر۔ اس طرح پاکستان کے دیگر شہر بھی کثیر اللسان ہیں‘ مگر ہر ایک کے بازار کی ایک غالب زبان نظر آتی ہے‘ جس میں مختلف بولیاں بولنے والے آپس میں بات چیت کرتے ہیں۔ ہمارے شہروں کے تاریخی ارتقا میں آزادی کے وقت ایک زبردست بھونچال آیا جب آبادیوں کا تبادلہ ہوا‘ پُرانے باسی بھارت اور وہاں سے نئے آنے والے یہاں آباد ہونے لگے۔ اس سے قبل شہروں میں تقسیم تھی‘ اور وہ مذہب کی بنیاد پہ تھی۔ برطانوی دور میں مردم شماری کا ریکارڈ گزشتہ صدی کے اوائل سے شروع ہوا‘ اور آخری بار 1941 ء میں مردم شماری کی گئی۔ ہر شہر کی مسلمان‘ ہندو‘ سکھ‘ عیسائی‘ پارسی اور یہودیوں آبادی کاجدول بنایا گیا ہے۔ سارے ہندوستان میں اس طرح سے مردم شماری ہوتی تھی‘ مگر صوبوں میں نئے لسانی گروہوں کے آنے کے اعداد و شمار بھی درج کئے جاتے تھے۔ دنیا کا کوئی شہر ایسا نہیں‘ جسے کہا جائے کہ اس میں صرف ایک ہی رنگ و نسل کے لوگ آباد ہیں یا ایک ہی مذہب کے پیروکار رہتے ہیں‘ مگر پختہ سیاسی معاشروں میں شہروں کی سیاست ان کے مقامی مسائل کے حوالے سے مقامی قیادت مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے ہاتھ ہوتی ہے۔
ہمارے ہاں شہری حکومتیں طاقتور حکمران سیاسی گھرانوں نے پیدا ہی نہیں ہونے دیں۔ قومی اور صوبائی حکومتوں پر بادشاہت کے ساتھ ساتھ وہ شہروں پہ بھی قابض رہے ہیں۔ وہ اپنی جماعتوں کے اندر سے ہی متبادل قیادت پیدا ہونے کے خدشے کے تحت نوکر شاہی سے کام لیتے رہے۔ آج بھی آپ دیکھ لیں‘ کراچی کو کیسے چلایا جا رہا ہے۔ وہاں لوٹ کھسوٹ‘ دھونس دھاندلی‘ بلکہ منظم طریقے سے پانی کی رسائی تک سیاسی گھرانوں کے غلاموں اور کارندوں کے ہاتھوں میں ہے۔ نالوں‘ پبلک پارکس اور سرکاری زمینوں کے علاوہ ریلوے کی زمین پر عمارتیں بنائی ہوئی ہیں۔ یہ راتوں رات تو کھڑی نہیں ہوتیں۔ کوئی اجازت دیتا اور کوئی اجازت لیتا ہے‘ تو کھڑی ہوتی ہیں۔ کراچی کی لسانی جماعت نہ صرف اس لوٹ مار میں شامل ہوئی بلکہ قتل و غارت کا ایسا بازار گرم کیا کہ شاید ہی اس ملک کی تاریخ میں ایسا ہوا ہو گا۔ حیرت تو اس بات پہ ہے کہ شہریوں کی اکثریت لسانی بنیادوں پہ ووٹ ڈالتی رہی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ 1970ء کے انتخابات میں رجحان مختلف تھا۔ جماعتیں سامنے تھیں‘ اور کراچی کے عوام نے تب جماعتی بنیادوں پر اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔ کاش وہ تسلسل نہ ٹوٹتا‘ تو ہماری شہری سیاست میں ابھی تک بڑی تبدیلیاں آ چکی ہوتیں۔
لاہور کو دیکھ لیں۔ ذرا سوچیں کہ کون عرصے سے اسے چلا رہا ہے۔ نوکر شاہی چلا رہی ہے۔ لاہور کے معروف سیاسی گدی نشین اپنی پسند کے کل پرزے تعینات کر کے اس شہر میں سیاست کرتے رہے ہیں۔ موجودہ حکومت بھی انہی کے نقشِ قدم پر چل رہی ہے۔ نون لیگ کی حکومت نے با دلِ نا خواستہ مقامی حکومتیں قائم تو کر دی تھیں‘ مگر تبدیلی سرکار نے آتے ہی‘ پہلے تو ان کے فنڈز منجمد کر دیے اور پھر قانون بنا کر انہیں رخصت کر دیا گیا۔ ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا‘ اس سے پہلے والے بھی ایسی ہی حرکتیں کرتے رہے ہیں۔ اب خواہ مخواہ کا یہاں کوئی لیکچر دینا مقصود نہیں کہ دنیا کی کون سی جمہوریت ہے جو شہری حکومتوں کو پامال کر کے قائم ہوئی ہے۔ تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ نمائندہ حکومتیں شروع ہی مقامی سطح سے ہوئی تھیں۔ امریکہ میں آبادیاں قائم ہونے لگیں تو انہوں نے مقامی حکومتوں کی بنیاد رکھی۔ امن‘ سلامتی‘ ہم آہنگی اور عدل و انصاف قائم کرنے کے لیے۔ یورپ میں بھی ایسا ہی ہوا۔ پتا نہیں ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ برطانیہ نے ہمارے خطے میں نئی ریاست کی بنیادیں قائم کرنا شروع کیں کہ استحصال مؤثر اور معاشرے پر کنٹرول سخت ہو‘ تو ریاستی ادارے بنانے کے علاوہ مقامی حکومتیں بھی قائم کیں‘ لگ بھگ ایک صدی قبل۔ وہ روایت آزادی کے بعد ہم برقرار نہ رکھ سکے۔ بہت کچھ تبدیل ہو گیا۔
سب کو معلوم ہے کہ اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے لوگ مقامی حکومتوں کے وسائل اور اختیارات اپنی سیاست چمکانے کیلئے استعمال کرتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ یہ خزانے ان کے ہاتھوں سے نکل جائیں۔ اکثر وہ کام بھی جو شہروں میں ہمارے نام نہاد ترقیاتی ادارے کرتے ہیں‘ وہ شہری حکومتوں کے فرائض اور ذمہ داریوں میں ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ جمہوریت مقامی اور شہری حکومتوں کے سہارے استوار ہوتی ہے۔ اوپر سے لائی گئی جمہوریت بے بنیاد ہی رہتی ہے‘ جیسے کہ ہمارا حال ہے۔ خیبر پختونخوا میں مقامی حکومتوں کا قیام احسن اقدام ہے‘ نتائج حکمران جماعت کے لیے جو بھی نکلیں۔ کم از کم وہ گھبرائے نہیں کہ گرانی اور بیروزگاری کا بڑھتا ہوا رجحان پیشِ نظر ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو آزمائش میں ڈال ہی دیا۔ مقصد اگر جواب دہ اور ذمہ دار حکومت قائم کرنا ہے تو عوام کو جواب دہ ہونا ہی پڑے گا۔ اس صوبے میں مقامی حکومتوں کا نظام بھی ہر لحاظ سے بہتر نظر آ رہا ہے کہ شہروں کے میئرز اور تحصیلوں میں چیئرمینوں کے علاوہ دیہی اور شہری کونسلیں بھی قائم ہوں گی۔
بات تو شہروں سے شروع کی تھی کہ پشاور‘ لاہور‘ کراچی‘ کوئٹہ اور تمام شہر اپنی مقامی قیادت پیدا کریں اور اس کے ذریعے ترقی کی منزلیں طے کریں‘ یہ نہیں کہ سیاسی جماعتیں اپنے کارندے کہیں باہر سے لا کر قبضہ جما لیں اور من مانیاں کرتی رہیں۔ اصل میں ہماری سب سیاسی جماعتوں کی بنیادی کمزوری ہی یہی ہے کہ شہروں کی سیاست کو صوبوں اور قومی سیاست سے جوڑ رکھا ہے۔ ان سے الگ کرنا مقصود نہیں‘ اور نہ ہی کہیں ایسا ممکن ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ شہروں کی سطح پر جماعتیں علیحدہ منشور پیش کریں کہ ان کے مسائل کا ان کے پاس کیا حل ہے۔ میرے نزدیک شہروں پر سیاسی گھرانوں اور نوکر شاہی کے قبضے زیادہ دیر نہیں چلیں گے۔ تبدیلی آنا لازمی ہے۔ جس طرح شہری آبادیاں بڑھ رہی ہیں‘ غیر منظم اور بے ہنگم‘ مقامی تحریکیں جنم لیں گی۔ دہلی کی ”عام آدمی پارٹی‘‘ کی طرح کی۔ حیرت تو اس بات پہ ہے کہ لاہور سموگ سے کالا تر ہوتا جا رہا ہے اور کراچی دہائیوں سے پبلک ٹرانسپورٹ اور شہری سہولتوں سے محروم ہے‘ مگر کوئی تحریک نہیں اٹھی۔ جب تک شہریوں میں بیداری پیدا نہیں ہو گی‘ اور کوئی مقامی رہنما انہیں لسانی اور برادریوں کی تقسیم سے نکل کر شہری ہونے کی بنیاد پر جگائے گا نہیں‘ لاہوری پھیپھڑوں میں سموگ بھرتے رہیں گے اور کراچی پانی کیلئے ترستا رہے گا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر