وجاہت علی عمرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لکھی مل نواب ڈیرہ کا گیارہ سال منشی رہا لیکن سردار نونہال سنگھ ڈیرہ میں چار ماہ رہنے کے بعد ڈیرہ کا نظم و نسق دیوان لکھی مل کے حوالے کر کے واپس لاہور چلا گیا۔ جب تک دیوان لکھی مل بر سر اقتدار نہیں تھا تو وہ محنتی اور غیر متعصب ہندو تھا۔ لیکن جب بر سر اقتدار آیا تو اس نے پر نکالنے شروع کر دیئے اور جائز و ناجائز اقدام سے گریز نہیں کیا۔ مرکزی خالصہ حکومت کے احکامات بھی ٹھکرا دیئے۔ سردار نونہال سنگھ نے باقاعدہ قلعہ تعمیر ہونے کے بعد یہاں موجود چونے کی بھٹیوں کے نگرانوں کو چونے کی بھٹیوں کے ساتھ ساتھ بنوں اڈے والے اینٹوں کے بھٹوں کے مسلمان نگرانوں کو مالکانہ حقوق دان کرنے کا باقاعدہ سرکاری خط تحریر کیا۔ لیکن لکھی مل نے بنوں اڈے والے تین بھٹوں کے مسلمان نگرانوں کی بجائے ان بھٹوں سے کسی قسم کا بھی تعلق نہ رکھنے والے ہندؤ تاجروں کے نام کر دیا۔ صرف ایک اماماں والے دروازے والے بھٹے کے نگران "اللہ بخش درکھان” کو بزریعہ تحریر یہ مکمل بھٹہ دان کر دیا ۔ سردار نونہال سنگھ کے حکم سے خالصہ گوردوارہ (موجودہ ہائی سکول نمبر 3) کی تعمیر میں بھی اسی بھٹے کی بنی ہوئی پختہ اینٹیں استعمال کی گئیں تھیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ وسیع و عریض بھٹہ سکڑتا گیا۔ 1860 میں ایک پگڈنڈی نما راستے کو باقاعدہ صدر بازار کی سڑک میں تقسیم کرنے کی وجہ سے یہ صرف ایک کونے تک محدود ہوگیا۔ 1906-7 میں شہر کی مشہور قدیمی مسجد لاٹو فقیر کی دوبارا پختہ تعمیر میں بھی استعمال ہونے والی اینٹیں اسی اللہ بخش درکھان والے بھٹے سے سپلائی کی گئیں۔ 1910کے آس پاس اس بھٹے کے مالک اللہ بخش درکھان کے پوتے "حسین بخش المعروف حسو درکھان” نے اسی بھٹے کے احاطے میں کشتیوں کا ایک کھاڑا قائم کیا۔ علاقے میں واحد اکھاڑا ہونے کی وجہ سے اردگرد کے مقامی پہلوان اورکثیر تعداد میں نوجوان یہاں کثرت کرنے آتے تھے۔ درجنوں دفعہ دوسرے شہروں کے نامور پہلوانوں کے درمیان اس اکھاڑے میں بڑے بڑے دنگل منعقد کئے گئے تھے۔ 1912-13 میں ڈیرہ اسماعیل خان کا سب سے پہلا پختہ اینٹوں کا بھٹہ جس کی بنی ہوئی اینٹوں سے قلعہ اکال گڑھ، خالصہ سکول گردوارہ اور جامع مسجد لاٹو فقیر تعمیر ہوئی وہ مکمل طور پر ختم ہو کر اکھاڑے میں تبدیل ہوتا ہوا وقت کے ساتھ ساتھ اب مارکیٹوں، دکانوں اور گھروں میں کہیں گم ہو گیا۔
سردار نونہال سنگھ کے بعد جب انگریزوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کا کنٹرول سنبھالا تو 1848میں جب بنوں سے آنے والے مسٹر کارٹ لینڈ کی جب ڈیرہ میں بحثیت ڈپٹی کمشنر تعنیاتی ہوئی تو اسی اماماں والے دروازے پر نواب آف ڈیرہ اور انگریز حکومتی عہدیداروں کے ساتھ ساتھ عام عوام نے بھی انکا شاندار استقبال کیا۔ نواب شیر محمد خان نے اسی اماماں والے دروازے کے اندر رحیم بازار اور توپاں والے بازار کے درمیان ماضی میں بنائے ہوئے اپنے خصوصی باغ میں مسٹر کارٹ کی رہائش کا انتظام کیا تھا۔ مسٹر کارٹ لینڈ کو یہ جگہ اتنی پسند آئی کہ انہوں نے اس باغ میں رہائش کے علاوہ بنائے ہوئے کمروں میں اپنے دفاتر قائم کر دیئے اور یہیں پہ وہ دربار لگاتا اور لوگوں کے مسائل سننے کے علاوہ تمام سرکاری کام سر انجام دیتا۔ مسٹر کارٹ لینڈ روزانہ شام کو باغ سے لے کر اس اماماں والے دروازے تک چہل قدمی کرنے آتا تھا اور آنے جانے والے لوگوں سے میل میلاپ کرتا۔ ماضی کے چونگی دروازہ اور بھٹہ دروازے کو لوگ آہستہ آہستہ بھولتے گئے اور اس دروازہ کو1848کے بعد "کارٹ دروازہ ” کہنے لگے۔
انگریز حکومت نے 1865میں شہر میں موجود ہر امامبارگاہ یعنی تھلوں کو رجسٹرڈ کرنے کے لیئے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کام شروع کر دیا۔ عظیم مرثیہ نگار اور خطیب اہلبیت مولانا محمود مولائی نے اکابرین ِ اہل تشیع کے ساتھ مل کر ڈیرہ کی تمام عزاداری کے رسوم، ایام اور جلوس و تعزیوں کے راستے متعین کر کے ایک عہدنامہ تحریر کیا، جس میں یہ لکھا گیا کہ شہر کے تمام امامبارگاہوں کے جلوس اور تعزیہ یوم ِ عاشورہ براستہ "کارٹ دروازہ” کوٹلی امام حسین جائیں گے۔ (1866 کاقلمی معاہدہ آج بھی 76افراد کے دستخطوں سمیت اصلی حالت میں موجود ہے) ۔ 1866میں باقاعدہ حکومت برطانیہ کی منظوری کے بعدکیونکہ شہر کی امامبارگاہوں کے قریب ہونے کے ساتھ ساتھ یہاں سے سالانہ امام پاک کے تعزیہ گزرنے لگے تو عقیدت کے طور پر یہ دروازہ امام پاک کی نسبت سے عام عوام میں "اماماں والا” دروازہ پکارا جانے لگا، کچھ لوگ اب "امامیہ گیٹ” بھی کہتے ہیں۔ یاد رہے کہ نئے ڈیرہ کے نقشے کے مطابق یہ دروازہ موجودہ سرکلر روڈ کی سڑک سے اندر کی طرف تقریبا 25,30فٹ آگے کی طرف جو گلی لیاقت باغ کی طرف سے آرہی ہے اور موجودہ جان شاپنگ سنٹر کے پیچھے والی دونوں گلیوں کے درمیان تھا اور اسکی کچی چویڑی کی فصیل گولائش میں کنیراں والے دروازے کے ساتھ جا کے ملتی تھی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ