پیڈ پیکج دو، الیکٹرانک میڈیا چینلز پہ اپنے سیاسی امیدوار کو سب سے زیادہ مقبول قرار دلادیں
نواز لیگ نمبر ون ہے تو حلقہ میں غریب و مجبور ووٹروں کو خرید کیوں رہی ہے؟
کیا نواز لیگ کی قیادت کسی "اَن ہونی” کے ہونے کے خوف کا شکار ہے؟
خانیوال میں عام رائے یہ ہے کہ مسلم لیگ نواز آگے جارہی ہے اور ٹی ایل پی سے توقع تھی کہ وہ نواز لیگ کے کم از کم 20 ہزار ووٹ خراب کردے گی لیکن اب تک کے اندازوں کے مطابق وہ 12 سے 15 ہزار کے آس پاس ہے جس میں وہ نواز لیگ کا 7 سے 8 ہزار خالص ووٹ کو نقب لگا چکی ہے، آگے 14 اور 15 دسمبر کو رات گئے تک وہ اس درج بالا اندازے سے آگے جاتی ہے یا پیچھے کچھ کہا نہیں جاسکتا، ایک بات طے ہے اگر ٹی ایل پی 15 ہزار کا فگر کراس کرتی ہے تو پھر نواز لیگ کے جیت جانے کے امکانات کافی حد تک ابتک لگائے جانے والے اندازے کے مطابق برتری کا مارجن چند ہزار رہ جائے گا-
پی ٹی آئی کے لیے جیت کے امکانات تب روشن ہوسکتے ہیں جب ٹی ایل پی 20 ہزار کا فگر چھوئے اور ٹرن آؤٹ شہر میں کم تر سطح پہ رہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان پیلزپارٹی کے ووٹ 10 سے 12 ہزار کے درمیان رہیں…… اگر ٹرن آور بڑھا اور پی پی پی کے ووٹ 15 ہزار کی فگر کو ٹچ کرگیے تو پھر یہ پی ٹی آئی کے لیے کافی بُرا شگون ہوگا-
مسلم لیگ نواز ٹی ایل پی سے کافی پریشان ہے – وہ اس کی طرف سے لگنے والی نقب کو بعض زرایع کے مطابق مبینہ طور پہ پیسوں سے ووٹ خرید کر پورا کرنے کی کوشش کررہی ہے اور گزشتہ تین دنوں سے اس میں تیزی آنے لگی ہے، اب اگر نواز لیگ اگر مقبولیت کے اعتبار سے پہلے نمبر پہ ہے تو وہ ووٹ کی خرید و فروخت کا کاروبار شدت سے کیوں کررہی ہے؟ کیا اُس کی قیادت کسی ان ہونی کے خوف کا شکار ہے؟
سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ نواز لیگ نے پی پی پی پہ ووٹ خریدنے کا الزام. لگایا ہے اور اس حوالے سے ٹیبل نیوز پیکجز بھی سامنے آئے ہیں-
انتخابی میدان میں اترنے والی نواز لیگ، پی ٹی آئی اور لبیک میڈیا کو مینیج کرنے کے لیے کافی سرمایہ خرچ کررہے ہیں-
نواز لیگ کے امیدوار کے بارے میں پتا چلا کہ دو سے تین قومی سطح کے اخبارات کے بیک پیج پہ اُس نے تین کالمی جگہ خرید کی ہے جس پہ پیڈ تشہیری مواد "خبر” کی صورت چلایا جارہا ہے –
جبکہ تین سے چار نیوز چینلز میں روزانہ کی بنیاد پہ "پیڈ” پیکجز چلائے جارہے ہیں – یہ رقم اخبارات کو ایڈیشن دیے جانے سے الگ ہیں-
پی ٹی آئی کا امیدوار بھی مبینہ طور پہ پیڈ خبریں چلواریا ہے اور چینلز پہ پیڈ پیکجز چلائے جارہے ہیں-
ٹی ایل پی نے بھی حیرت انگیز طور پہ پیڈ خبروں اور پیکجز پہ توقع سے زیادہ خرچ کیا ہے –
پی پی پی کے بارے میں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کا رویہ پہلے دن سے اعتدال پسندی پہ مشتمل نہیں ہے کیونکہ پی پی پی نے میڈیا پہ غیر ضروری فنڈنگ نہیں کی ہے خاص طور پہ
Paid News/Political Diary/analysis/Columns/Feature written
پی پی پی نے ایک طرح سے صفر سے اپنا کام شروع کیا اور شاید واحد پارٹی ہے جس نے پارٹی کے نظریہ اور منشور کو اولیت و اہمیت دی جس کی قیادت اور کارکنوں نے سب سے زیادہ منظم اور ڈور ٹو ڈور کمپئن کی –
اگرچہ اس پارٹی کے امیدوار کے ماضی میں عوام سے رابطے میں نہ ہونے اور موجودہ کمپئن کے دوران اُس کے اپنی کمپئن سے غیر حاضری کو بہت بڑھا چڑھاکر پیش کیا گیا-
ضمنی انتخاب کا اعلان ہوتے ہی پروپیگنڈا ہوا کہ پی پی پی الیکشن نہیں لڑے گی
جب پی پی پی کا امیدوار کاغذات جمع کرا آیا تو کہا گیا کہ امیدوار بیٹھ جائے گا
جب کاغذقت نامزدگی واپس لینے کی آخری تاریخ گزرگئی تو کہا گیا کہ پی پی پی کی انتخابی مہم بہت سست ہے اور بینرز و جھنڈے نظر نہیں آرہے
لیکن نومبر کے دوسرے ہفتے میں پی پی پی کے بیس ہزار جھنڈے اور بیبرز سے پورا حلقہ سج گیا، اب کہا گیا کہ جھنڈوں اور بینرز سے کوئی جماعت مقبول نہیں ہوتی
نومبر کا چوتھا ہفتہ شروع ہوا تو پی پی پی کی انتخابی کمپئن کی سٹریٹیجی کے خدوخال واضح ہونے لگے –
حلقہ پی پی 214 میں 12 یونین کونسل مکمل اور ایک آدھی شامل ہے جس کے لیے پی پی پی نے ایک سنٹرل انتخابی کمپئن کمیٹی بنائی جس کے نیچے 12 کمپئن کمیٹیاں بنیں اور ہر ایک کمیٹی کا ایک فوکل پرسن بنایا گیا جو پی پی پی جنوبی پنجاب کا عہدےدار یا رکن اسمبلی یا ٹکٹ ہولڈر تھا اور معروف سیاسی فگر تھا اور اُس کا اُس یونین کونسل سے کوئی نہ کوئی لنک نکلتا تھا –
یر ایک یونین کونسل سطح کی انتخابی کمیٹی میں فوکل پرسن کے ساتھ تین جنوبی پنجاب کی سطح کے رہنما اور 5 مقامی کارکن بطور رکن رکھے گئے ہیں –
یہ انتخابی کیمٹیاں روزانہ کی بنیاد پہ حلقہ کی یونین کونسلوں میں کمپئن چلانے میں مصروف رہیں –
پی پی پی کی ان انتخابی کیمیٹیوں سے ہٹ کر بھی پی پی پی کی قیادت نے حلقے میں کچی آبادیوں، غریب محلوں اور بستیوں اور ایسے ہی کرسچن آبادیوں کو بھی خاص طور پہ فوکس کیا، قومی اور صوبائی سطح کے لیبر، کسان اور اقلیتی رہنماؤں کو ان علاقوں کا وزٹ کرایا گیا –
پی پی پی کے انتہائی سینیر اور تجربے کار معروف رہنماؤں کی ایک ٹیم نے پی پی پی کے دیرینہ کارکنان کے گھروں پہ جاکر انھیں منایا اور اس عمل نے کافی کامیاب نتائج مرتب کیے
پی پی پی کی اس ہمہ جہتی انتخابی حکمت عملی نے پی پی پی کے کارکنوں کو ہی نہیں بلکہ اس کے گزشتہ کم و بیش 25 سالوں سے بے گانہ ووٹروں کے ایک بڑے سیکشن کو متحرک کردیا-
اس وقت سب سے بڑا سوال یہ کیا جارہا ہے کہ پی پی پی اس ضمنی الیکشن میں کتنے ووٹ لے گی اور اُس کا نمبر کیا ہوگا؟
پی پی پی نے جو اپنا کارکن اور سپورٹر ووٹ متحرک کیا ہے وہ کم و بیش 7 سے 10 ہزار کے درمیان ہے –
پی پی پی سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی، اُن کے دو بیٹے موسیٰ رضا گیلانی و علی حیدر گیلانی، مخدوم احمد محمود کے دو بیٹے مرتضیٰ حسن و عثمان ممبر صوبائی اسمبلی، سیال برادری کے مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے پی پی پی کے ایم این اے ارشاد سیال، مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے نوابزادہ افتخار خان، وہاڑی سے پی پی پی کے سابق ایم این اے محمود حیات ٹوچی خان ، ضلع بہاولپور سے سابق ایم پی اے ملک شاہ رخ خان اور دیگر نے حلقہ پی پی 206 میں یونین کونسلوں میں بیٹھی برادریوں، قبیلوں کے ایسے سیکشنز کو فوکس کیا جو روایتی طور پہ پی پی پی کے ووٹرز نہیں ہیں لیکن ان رہنماؤں کے اُن سے مضبوط روابط نے ان سیکشنز کے ووٹ کی یقین دہانی کرائی ہے –
جن برادری کے دھڑوں، گروپوں، انفرادی اشخاص کو پی پی پی کی جنوبی پنجاب کی سطح کی قیادت نے توڑنے اور انھیں اپنی طرف کرنے کا دعوی کیا ہے وہ اگر بیلٹ باکس میں ووٹ کی شکل میں پی پی پی کو مل گئے تو لا محالہ پی پی پی کا ووٹ رزلٹ مجھ سمیت کئی ایک تجزیہ کاروں کے تجزیوں کو مسمار کرکے رکھ دے گا-
پی پی پی کی خواتین ونگ کے عہدے دار ان و کارکن خواتین نے پی پی پی پی جنوبی پنجاب ویمن ونگ کی صدر شازیہ عابد، ڈویژن کی عہدے داران شگفتہ بخاری، صائمہ عامر، ٹکٹ ہولڈر کلثوم ناز بلوچ ، ضلعی صدر مصورہ بتول ایڈوکیٹ سمیت بلامبالغہ خواتین ورکرز کی ایک بڑی تعداد نے خواتین ووٹرز سے رابطہ مہم چلائی، کارنر میٹنگز کا انعقاد کیا اور ڈور تو ڈور رابطہ کیا- اس سطح کی مہم دوسری جماعتوں کی طرف سے نظر نہیں آئی –
اگر پی پی پی خانیوال میں الیکشن کے دن خواتین ووٹرز کو باہر نکالنے میں کامیاب ہوئی تو اس کے ووٹ بینک میں مزید اضافہ ہوگا –
پی پی پی کی الیکشن ٹیم نے ٹرانسپورٹ، پولنگ ایجنٹس، ووٹر موبلائزر کی جو اسکیم تیار کی ہے وہ 16بدسمبر کو پوری طرح سے بروئے کار لائی گئی تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ پی پی پی کی پوزیشن بہتر نہ ہو پائے –
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر